4
0
Wednesday 19 Dec 2012 14:52

Weapons of Mass Destruction

Weapons of Mass Destruction
تحریر: سید قمر رضوی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کا مشکل ترین کام تعمیر جبکہ آسان ترین کام تخریب یعنی تعمیر شدہ کام کو تباہ کرنا ہے۔ مثلاً ایک عمارت کی تعمیر ہی کو لے لیجیئے۔ کئی ہاتھوں اور دماغوں کی طویل عرصے کی منظم کاوش اور کثیر سرمائے کی رسانی ایک عمارت کھڑی کرتی ہے اور اگر اسے گرانا مقصود ہو تو ایک ستون کی لغزش ہی کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ اپنے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے قوموں کو صدیوں کی محنت اور قربانیوں کے ایک طویل سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے اور چند روز کی جنگ اس ملک کو واپس نہیں بلکہ صدیوں پیچھے دھکیل کر اگلی نسلوں کے لئے امتحان گاہ بنا کر ختم ہوتی ہے۔

ہمارا تعلق بھی بدقسمتی سے ایسی نسل سے ہے جس نے ماضی کی جنگوں کے جھوٹے سچے احوال پڑھے اور اپنے سامنے بھی اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں لپٹے ہوئے ممالک و اقوام کو دیکھا جسکی مختلف اقساط دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف صورتوں میں جاری ہیں۔ بوسنیا، چیچنیا، صومالیہ، تیِمور، ہیٹی، کویت، لبنان، فلسطین، ایران، عراق اور افغانستان میں لڑی جانیوالی جنگوں کی خبروں کے ساتھ ہم پروان چڑھے اور یقیناً تادمِ مرگ جنگوں کے احوال ہی دیکھتے رہیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ہم میں سے اکثر کے سفرِ آخرت کا باعث بھی کوئی نہ کوئی جنگ ہی ہو۔ 

جہاں اپنے مذہب، ملک اور قوم کی بقا کے لئے مسلح افواج اپنی قربانیاں پیش کرتی ہیں، وہیں گیہوں کے ساتھ گھن کی مانند عام شہری بھی جنگوں کی غذا بن جاتے ہیں۔ بات اگر انسانوں تک ہی محدود ہوتی تو علیحدہ بات تھی، لیکن جدید دور کی سائنسی جنگوں میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام انسان، جانور، معیشتیں، املاک اور بنیادی ریاستی ڈھانچے تک کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں بدمست جارحانہ قوتوں کے شیطانی نفس کی تسکین ہو جاتی ہے اور تباہ شدہ ملت کے معذور فرزندان اپنے ملک کے زخموں کو بھرنے اور اسے دوبارہ سے قابل ِ رہائش بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

عراق بھی ایک ایسا بدقسمت ملک ہے جہاں محض چند روزہ نہیں بلکہ عشروں پر محیط جنگ جاری رہی۔ قوم کی اپنے اوپر مسلط آمر کے ساتھ سرد جنگ، آمر کی اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ گرم جنگ اور بالآخر آقا کی غلام پر برہمی کی جنگ، جسکی قیمت بھی معصوم شہریوں کو ادا کرنا پڑی۔ سرزمینِ عراق پر جاری طویل عرصے پر محیط اس جنگ کے تمام مراحل جہاں نہایت دلدوز ہیں، وہیں دلچسپ و عجیب بھی۔ گو کہ سرزمینِ عراق کی اپنی ایک جنگی تاریخ ہے، جو صدیوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن جدید دور میں یہ خطہ عجیب قسم کی جنگوں کا مرکز رہا۔ 

آغاز میں شیطانِ بزرگ نے اپنا ایک نمائندہ اس خزانے پر سنپولیا بنا کر بٹھایا اور اسے دودھ پلا پلا کر اتنا توانا کیا کہ یہ خطرناک اژدھا بن گیا۔ یہ اژدھا برسوں اس خوبصورت زمین میں اپنا زہر گھولتا رہا۔ طاقت کے زعم میں یہ اتنا منہ زور ہوا کہ پھر اسے اپنے گردوپیش کے امن و امان کو تاراج کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کبھی یہ اژدھا ایران پر پھنکارا تو کبھی کویت پر۔ سالہا سال تک زہر پاشی کے بعد جب اس کے دانت ناکارہ ہوئے اور اس دوران طالبان، القاعدہ، سپاہِ صحابہ اور ایسے ہی سنپولیئے جوان ہوگئے تو شیطانِ بزرگ نے صدام نامی اس بوڑھے اژدھے سے جان چھڑانا چاہی۔ اس مقصد کے لئے اس نے اس کا نام Weapons of Mass Destruction رکھ کر اسے منظرِ عام سے غائب کیا۔ اسی تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار کی تلاش کا ڈرامہ رچانے کے لئے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور بالآخر اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لئے نئی راہوں پر نکل کھڑا ہوا۔

چند یوم قبل اسی سرزمین کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں مقاماتِ مقدسہ کی زیارات کا احوال پیش کرنا مقصود نہیں کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ عرض یہ کرنا تھی کہ اتنی طویل اور انتھک جنگ کے اختتام کے بعد شکستہ عراق کو دیکھ کر اپنا دل بھی کرچی کرچی ہوگیا۔ کوئی سڑک، گلی، کوچہ، بازار، محلہ ایسا نہیں جہاں آسمان سے برستے بموں نے تباہی نہ مچائی ہو۔ تمام سڑکیں گولہ باری کے نتیجے میں بڑے بڑے گڑھوں میں ڈھلی نظر آئیں، جو بارش ہونےکی صورت میں تالابوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ جنگ زدہ شہروں میں کوئی عمارت ایسی نہیں جس کے ماتھے پر گولہ باری کے داغ نہ ہوں۔ گلیوں اور بازاروں میں انہی بموں سے بچ جانیوالے ہاتھ پیر سے محروم افراد کثیر تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس ظالمانہ جنگ نے عراقی سکے کو بھی ایسی مار دی ہے کہ ایک روٹی یا گھونٹ بھر پانی کے لئے بھی سینکڑوں دینار خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ الغرض صدامی آمریت نے عراق کو لنگڑا لولا کرکے ہلاکو خان کے دور میں پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
لیکن۔۔۔۔۔
آفرین ہے ملتِ عراق کو کہ اسکا حوصلہ اور ترقی کرنے کا جذبہ اس نہج پر ہے کہ انشاءاللہ کچھ عرصے میں یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں پیش پیش ہوگا۔ دنیاوی دولت ہو یا روحانی، یہ خطہ ہر دو لحاظ سے مالامال ہے۔ عموماً لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کے نتیجے میں لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن عراق کے عوام کا اخلاق، مہمان نوازی، خندہ پیشانی اور روحانی بالیدگی دیدنی ہے۔ سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ضرور ہیں لیکن تعمیر و ترقی کا گھوڑا بھی اپنی سرعت سے رواں ہے۔ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کا کام دن رات جاری ہے۔ گلیاں تنگ بھی ہوں تو تاریک ہرگز نہیں۔ 

رات ہوتے ہی تمام علاقے جگمگا اٹھتے ہیں۔ غربت بہت سہی، لیکن کوئی بھوکا نہیں سوتا، نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا رواج ہے۔ ٹریفک بے ہنگم سہی لیکن کسی کے لئے باعثِ آزار نہیں۔ بازاروں کی رونقیں بھی بحال ہیں، جو معیشت کے کمزور بدن میں خون رواں کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ اب بھی عراق کے چپے چپے پر عالمی غنڈے کی جانب سے چھوڑے گئے شرپسند موجود ہیں، جو وقتاً فوقتاً اپنی شیطانی کاروائیوں سے باز نہیں آتے، لیکن وہاں کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے جوانوں کی قیمتی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ان عناصر کو لگام دے رکھی ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ جلد از جلد عراق کو اپنے پیروں پر کھڑا کرکے دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔

دس روزہ عمیق مشاہدے پر مشتمل اس سفر کو طے کرکے جب میں واپس اپنے اس وطن پہنچا، جہاں براہِ راست گولہ باری والی کسی جنگ کا کوئی وجود نہیں۔ جہاں آمریت نہیں، عوام کی امنگوں کی ترجمان عوامی حکومت عوام پر راج کر رہی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جمہوریت مزید مستحکم ہو رہی ہے۔ جہاں ماضی میں پڑوسی ملک کے ساتھ جنگیں تو ہوئیں، لیکن عشروں پر نہیں چند دنوں پر محیط۔
لیکن۔۔۔۔۔
آفرین ہے ملتِ پاکستان پر کہ خدا کی ہر نعمت اس سرزمین میں وافر ہونے کے باوجود اس میں
سے بھوک اگتی ہے۔ اخلاق اور اخلاقی اقدار کیا ہوتی ہیں، کسی کے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم۔ کوئی جنگ نہیں، لیکن ہر شخص نفسیاتی مریض۔۔۔ دوسرے کو پھاڑ کھانے کو تیار۔ کیونکہ سائنسی ترقی کی صدی میں بنیادی انسانی ضروریات مثلاً بجلی، گیس اور پینے کا پانی تک جسے میسر نہ ہو تو وہ اپنے بھائی کا گوشت نہ کھائے تو کیا کرے۔ یہاں خدا کے فضل سے کسی غیر ملک نے مہلک ہتھیاروں سے حملہ نہیں کیا، لیکن پھر بھی پاکستان کی گلیاں اور سڑکیں عراق کی سڑکوں سے کہیں زیادہ اجڑی ہوئی ہیں۔ ان سڑکوں کو تالاب بننے کے لئے کسی بارش کی نہیں، اپنے ہی گٹر کی بندش کافی ہے۔ 

جنگ عراق میں ہوئی، لیکن وہ مکمل طور پر روشن ہے جبکہ اس بدنصیب امن کے دامن میں سوائے لوڈشیڈنگ کے اندھیروں کے کچھ نہیں۔ یہاں کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں۔ دن نہیں، گھنٹے کی بنیاد پر یہاں مذہب اور زبان کے نام پر پانی کی طرح انسانی خون بہایا جاتا ہے اور اس پر مطلق العنان حکمران اپنی جمہوریت کے استحکام کے راگ الاپ کر خود ہی محظوظ ہوتے ہیں اور اس بد نصیب ملک کی سڑکوں پر موت کا رقص دیکھ کر جھومتے رہتے ہیں۔ انتظامیہ کس چڑیا کا نام ہے، یہاں یہ سوال ہی بیکار ہے۔ یہاں جسمانی تو نہیں، البتہ ذہنی اور قلبی طور پر معذور افراد کی بہتات ہے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ ذہنی مریض ایوانِ اقتدار پر قابض ہو بیٹھتے ہیں۔ اسلام میں ہاتھ پھیلانا مکروہ ترین فعل ہے، لیکن اس سرزمین پر بسنے والے مسلمانوں کا کشکول کبھی ٹوٹتا نہیں۔

پچھلے دس دنوں سے دونوں ممالک کا موازنہ میرے لئے معمہ بنا ہوا تھا کہ خیال آیا کہ دورِ جدید میں جہاں ہر اسلوب بدلا ہے، وہیں ملکوں پر حکمرانی کا اسلوب بھی یقیناً بدلا ہوگا۔ پھر میرا معمہ حل ہوگیا کہ اکیسویں صدی محض سائنسی نہیں، سیاسی معجزوں کی بھی صدی ہے کہ اس میں جمہوریت کے بہروپ میں بدترین آمریت بھی مسلط کی جاسکتی ہے۔ جنگ کے لئے روایتی ہتھیاروں کا سہارا لینا بھی اب آخری مرحلے کی بات رہ گئی ہے اور ہتھیار تو ویسے بھی مضبوط اعصاب والوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ جو حکمران محض دھمکیوں سے اور جو عوام محض ڈھکوسلوں سے مرعوب ہوجائیں تو انکے لئے جنگ کا انداز بھی اسی طرح سے جداگانہ ہوتا ہے۔ جو حکمران سِکوں کی کھنک اور عوام غیر ملکی ثقافت کی چمک سے اپنے اوسان کھو بیٹھتے ہیں تو انکے لئے ایسے ہی وار کافی ہوتے ہیں۔

عجب کھیل ہیں قدرت کے کہ کہیں آمریت اور جنگ کے تعفن زدہ تالاب سے ترقی اور خوش حالی کے کنول جنم لیتے ہیں اور کہیں امن و جمہوریت کی گود میں ظلم، ناانصافی، اخلاق باختگی، دہشتگردی، خون و آبروریزی، عدمِ مساوات، جہالت اور تنزلی نامی ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن بنتے ہیں جو معاشرے سے انسانیت نامی خدا کی بہترین نعمت کو تاراج کرتے ہیں۔ پھر گلیوں اور بازاروں میں رقصِ ابلیس ہوتا ہے، جہاں سوائے لعنتِ خداوندی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ خدا رحم کرے میرے ملک پر۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 222626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ احساسات اچھے انداز میں منتقل کئے ہیں۔
Pakistan
bitter reality...
United Kingdom
One of the best writings of Qamar bhai
Pakistan
Mashallah, Very fantastic article Qamar bahi
ہماری پیشکش