0
Sunday 6 Jan 2013 13:19

مظلوم ریاست اور جمہوریت کا بحران

مظلوم ریاست اور جمہوریت کا بحران
 تحریر: ڈاکٹر حسن عسکری 
 
پاکستان ایک مظلوم ملک ہے کیونکہ بعض تنظیمیں تشدد کے ذریعے پاکستان کے آئین کو اپنی ترجیحات کے مطابق اسلامی بنانا چاہتی ہیں اور کچھ عناصر اپنی مذہبی تحریک کے کارکنوں اور حمایتوں کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی کرکے ریاستی اور سیاسی نظام میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تنظیمیں اور قائدین اپنے آپ کو اس ملک سے اعلٰی تصور کرتے ہوئے اس پر اپنی مرضی ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ان طریقوں سے ملک نہیں چلتے البتہ شخصیات اور تنظیموں کی انا بڑھتی ہے، جس سے جمہوری اور عوامی بالادستی کی جگہ متکبرانہ شخصی قیادت ابھرتی ہے اور ایک فسطائی نظام کے جڑیں پکڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جس میں تکبر والی قیادت کی سوچ کے علاوہ کوئی اور سوچ قابل قبول نہیں ہوتی۔
 
تحریک طالبان پاکستان ایک مسلح اور سیاسی تنظیم ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدد کے استعمال کو درست سمجھتی ہے۔ اس نے بدلتے ہوئے ملکی اور علاقائی حالات کے پیش نظر پاکستان کی حکومت سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے، لیکن اپنی مسلح کارروائیوں کو روکنے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے آئین کو ان کی مرضی کے مطابق اسلامی بنایا جائے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ معلوم کریں کہ حکومت پاکستان ان سے کیا چاہتی ہے۔ وہ غالباً اپنے آپ کو پاکستانی ریاست کے برابر اگر بڑی نہ سہی، سیاسی اکائی سمجھتے ہیں۔ 

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے واپسی پر اپنی مذہبی تحریک کے پیروکاروں کو متحرک کرکے پاکستانی حکومت اور ریاست کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ان کی سیاسی شرائط مانے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اسلام آباد میں اپنے پیروکاروں کو اتنی تعداد میں اکٹھا کر دیں گے کہ حکومت دھڑام سے ان کے قدموں میں آگرے گی اور اگر وہ خود اقتدار نہ سنبھالیں تو ایسے لوگ حکمران ہوں گے جو ان کے فرمودات کو نافذ کریں گے۔ اسلام آباد پر ڈاکٹر طاہر القادری کی چڑھائی کی خبریں سن کر دفاع پاکستان کونسل کیسے پیچھے رہ سکتی تھی۔ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کو کھلا میدان نہیں دے سکتی تھی کہ وہ مذہبی حوالے سے سیاسی قوت پیدا کرے۔ لہٰذا دفاع پاکستان کونسل نے بھی اسلام آباد پہنچنے کے لئے تحریک کا اعلان کیا۔ 

ان تینوں تحریکوں میں تحریک طالبان پاکستان جمہوری اور انتخابی عمل میں یقین نہیں رکھتی۔ باقی دونوں تحریکیں جمہوریت کی بات کرتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی تحریک انتخابی عمل کے ذریعے ریاستی اقتدار حاصل نہیں کرسکتی۔ لہٰذا یہ تحریکیں جلسہ جلوسوں کے ذریعے اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ اسے جمہوری نعروں اور طریقوں سے بھی تباہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ تمام لوگ، تنظیمیں اور تحریکیں جو جمہوریت کا نعرہ لگاتی ہیں، ضروری نہیں کہ وہ جمہوریت کی اصل حقیقت اور روح پر یقین رکھتی ہوں۔ 

جمہوری عمل سے لگاؤ کی کئی صورتیں ہوتی ہیں جن میں قابل ذکر یہ ہیں۔
1۔ جمہوریت بطور نظریہ اور اس کی روح کا مکمل نفاذ۔
2۔ جمہوری عمل کو ایک سیڑھی یا ذریعہ کے طور استعمال کرکے اپنے مخصوص نظریات کو نافذ کرنا۔
3۔ جمہوریت کی حمایت اس حد تک جس تک گروہی اور جماعتی مفادات حاصل ہوں۔ ان مفادات کے حصول کے لئے غیر جمہوری طریقے بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
4۔ جمہوری آزادیوں کو استعمال کرتے ہوئے محدود سوچ والی نظریاتی یا شخصی تحریک قائم کرنا، تاکہ ذاتی سربلندی اور اقتدار کے لئے کام کیا جائے۔ 
5۔ ایک نظریاتی ریاست کا قیام جس کو متعارف جمہوری اصولوں کے ذریعے کیا جاتا ہے لیکن ان اصولوں کی تشریح ریاست کے واحد مخصوص نظریے کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ 
6۔ جمہوری عمل کو مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر رد کرنا۔ 

جمہوریت بطور نظریہ سے مراد ایسا آئینی اور منتخب نظام ہے جو جمہوریت کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی اصولوں کو عملی طور پر نافذ کرے۔ تمام جمہوری حکومتیں ان اصولوں کو نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کرتی ہے اور ان کے نفاذ کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں جمہوری عمل کی حمایتی ہیں کیونکہ اس سے انہیں سیاسی جائزیت ملتی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی پسند کا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز اسلامی نظام ہے، جمہوری عمل وہ ذریعہ ہے جس سے وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔
بہت سی سیاسی اور معاشرتی تنظیمیں اپنے گروہی، نسلی اور تنظیمی مفادات کو بنیادی اہمیت دیتی ہیں، اصل مقصد مفادات کا حصول ہے، چاہے وہ جمہوری طریقوں سے حاصل ہو یا غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے۔ 

ایم کیو ایم ایک طرف حکومت اور اقتدار میں حصہ دار ہے۔ دوسری طرف اگر سندھ کے شہری علاقوں میں اس کے مفادات کو خطرہ پیدا ہوجائے تو وہ حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ ایم کیو ایم کا ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت اور انتخابی نظام کو چیلنج کرنے کا فیصلہ اس مطالبہ کا جواب ہے جو کچھ سیاسی حلقے کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کراچی میں نئی حلقہ بندی کی جائے، چونکہ پیپلز پارٹی اس مطالبہ سے ہمدردی رکھتی ہے، لہٰذا ایم کیو ایم نے ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ بہت سے ممالک میں جمہوری آزادیوں کو ا ستعمال کرکے محدود سوچ والی شخصی یا انتہا پسندانہ تنظیمیں قائم کی جاتی ہیں۔ بعض تنظیمیں خفیہ ہوتی اور ایک شخص کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کو انگریزی میں CULT کہتے ہیں۔ اس قسم کی تنظیم کے ممبران اپنی قیامت پر ا ندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے ہر قسم کے اچھے اور برے کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا تمام سرمایہ اور ملکیت اپنی تنظیم کے حوالے کر دیتے ہیں۔
 
خالصتاً نظریاتی نظام ریاست و حکومت میں بھی جمہوریت ہو جاتی ہے۔ ریاستی نظام میں صرف ایک نظریہ چلتا ہے جس کو حکام اعلٰی پیش کرتے ہیں اور وہ تمام امور حکومت و معاشرت کو کنٹرول کرتے ہیں، اگرچہ کاغذ پر جمہوری ادارے اور عمل موجود ہوتے ہیں لیکن ریاست جتنی زیادہ نظریاتی ہوگی وہ اتنی ہی عدم رواداری کا مظاہرہ کرتی ہے، جس سے جمہوری قدروں کی نفی ہوتی ہے۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت یا جمہوریت کو نظریہ زندگی اور نظریہ حکومت و ریاست سمجھنے والے موجود ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے، البتہ ایسے لوگ زیادہ ہیں جو جمہوریت کے حوالے سے دوسری کیٹیگریوں میں آتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت سیاسی اور انتخابی عمل میں تسلسل سے آتی ہے۔ اس میں وقت کے ساتھ تجربے سے اصلاح کی جاتی ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور معاشرتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اعتدال، رواداری اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کئے جائیں۔
 
عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے جذباتی نعروں، مذہبی عقیدت کو استعمال کرکے سیاسی دکان چمکانے، سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں، شخصی قیادت اور سوچ کو آگے بڑھانے، ہر معاملہ کو مذہبی مسئلہ بنانے اور تشدد کے استعمال سے ملکی امن و سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے اور جمہوری ثقافت معدوم ہو جاتی ہے۔ 2013ء کے آغاز پر پاکستان کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ اقتصادی کمزوری اور بدحالی، انتہا پسندی اور دہشتگردی اور آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی ضرورت۔ تحریک طالبان پاکستان، دفاع پاکستان کونسل اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک کے مخصوص اور علیحدہ طور طریقوں سے ان مسائل کا حل مزید مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان میں جمہوریت کمزور ہو جائے گی، جس کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی مستقبل کے متعلق غیر یقینی بڑھ جائے گی۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 228548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش