0
Sunday 20 Jan 2013 01:32

منتظر زیدی کا جوتا اور علمدار روڈ دھرنا، ظلم کے خلاف احتجاج کی علامت

منتظر زیدی کا جوتا اور علمدار روڈ دھرنا، ظلم کے خلاف احتجاج کی علامت
تحریر: ساجد حسین

اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، جب تک اس کا ضمیر زندہ رہے تو اس کی فطرت میں ظلم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ لیکن بعض افراد انسانیت کے نام پر دھبے کی شکل میں بعض بھیڑیا نما انسان ظلم و جبر کی حدیں پھلانگ کر وحشی درندوں سے بھی دو قدم آگے نکل جاتے ہیں۔ جو مملکت عزیز پاکستان میں اسلام کے نام پر اسلام اور انسانیت کے دشمن دہشت گرد عناصر کی طرف سے عوامی مقامات سے لے کر سکولوں، ہسپتالوں، مساجد، امام بارگاہوں اور زیارت گاہوں حتیٰ کہ جنازوں پر فائرنگ، دھماکے و خودکش حملے کرکے خواتین و معصوم بچوں تک کو بھی نہیں بخشتے، اور پھر نام بھی اسلام کا۔ نعرہ بھی تکبیر کا لگاتے ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال (رہ) نے انہی دہشت گردوں کی نشاندہی کرکے ایک شعر کے ذریعے سمندر کو کوزے میں بند کرکے فرمایا تھا۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر تو شمشیر نعرہ تکبیر بھی فتنہ

ظلم کرنے والے دہشت گرد اور ان کے سرپرست شائد یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا کوئی محاسبہ نہیں ہو گا، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ نظام قدرت میں مظلوم کی آہ کا اتنا اثر ہے کہ یہ براہ راست عرش الہیٰ تک پہنچتی ہے۔ مظلوموں کی داد رسی کی بجائے حکمران اتنے بےحس و بےشرم اور قاتلوں کے سرپرست بن جائیں جب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے آبائی علاقے مستونگ میں بارہا زائرین کا ناحق قتل عام ہوا اور ان سے صحافیوں نے سوال کیا تو رئیسانی نے بے شرمی کی انتہاء کرکے جواب دیا کہ تیس چالیس افراد کے قتل ہونے سے کروڑوں کی آبادی والے ملک پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح جب صحافی نے سوال کیا کہ آپ کیا اقدامات کریں گے تو مزید بے شرمی سے مظلوموں کے لہو کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں دو ٹرک ٹشو پیپر علمدار روڈ پر رونے والوں کے لئے بھجوا دوں گا۔
 
اسلم رئیسانی کو معلوم نہیں کہ امیر المومنین حضرت امام علی (ع) کے فرمان کے مطابق ’’حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں‘‘۔ کیونکہ یہ حکومت و ریاست کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ عوام کے جان و مال عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔ اسی طرح نواسہ رسول (ص) سید الشہدا امام حسین (ع) کا یہ فرمان کہ ’’ظلم کے خلاف خاموش رہنا ظلم میں شریک ہونے کے برابر ہے یا با الفاظ دیگر دنیا میں دہشت گردی و فساد کی وجہ اچھے و نیک لوگوں کی ظلم پر خاموشی ہے، یا پھر نواسہ رسول (ص) سید الشہداء امام حسین (ع) نے مظلوموں کی ہدایت و رہنمائی ہی کے لئے فرمایا تھا کہ ’’ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھاؤ گے‘‘۔

آخر کار ظلم و جبر کا شکار علمدار روڈ کوئٹہ کے باسیوں نے بلوچستان کی نااہل اور قاتلوں کی سرپرست رئیسانی حکومت کا خاتمہ ہی کر دیا، حالانکہ علمدار روڈ کوئٹہ میں بےگناہوں کے لہو کی طاقت اور درجنوں شہداء کی لاشوں سمیت مثالی پرامن و منظم ترین دھرنا و احتجاج کو ختم کرنے کے لئے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کئی افرد بشمول رحمان ملک نے مظاہرین سے التجا کی کہ لاشیں دفن کردیں۔ پھر چاہے جتنی دیر دھرنا دیں، لیکن بارہا زبانی جمع خرچ وعدوں سے تنگ علمدار روڈ کے باسیوں جس سے متاثر ہو کر پاکستان کے درجنوں شہروں اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ دھرنا چار دن تک مسلسل جاری رہ کر ظلم کے خلاف علامت بن گیا۔ اس دھرنے نے پاکستان میں منظم و پر امن اور ملک گیر احتجاج کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی، بیک وقت ملک کے درجنوں شہروں میں کروڑوں عوام نے سڑکوں کا رخ کرکے احتجاج کیا۔ جس کے منظم اور بہترین ہونے کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، اینکرز اور کالم نگاروں نے بھی بھرپور سراہا اور کوریج بھی دی۔
 
اگرچہ گذشتہ سال اسلام آباد میں پارا چنار کرم ایجنسی کے عوام نے دہشت گردوں کے مظالم اور چار سال سے ٹل پارا چنار روڈ کی بندش پر یہ موقف اختیار کرکے احتجاجی دھرنا دیا تھا کہ ٹل پارا چنار شاہراہ طالبان اور حکومت و سکیورٹی فورسز دونوں کے لئے کھلی ہے لیکن گذشتہ چار سالوں سے صرف پارا چنار کرم ایجنسی کے عوام کے لئے بند اور مقتل گاہ بنی ہوئی ہے، اس ظلم کے خلاف اسلام آباد میں ایک سو دس دن تک ایک منظم و پرامن دھرنا دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی گئی تھی۔ پارا چنار کے عوام کے اسلام آباد میں منعقدہ دھرنے کی حمایت میں بھی بیک وقت ایک ہی دن پاکستان کے کئی شہروں کی شاہراوں پر احتجاجی اجتماعات و دھرنے ہوئے تھے، لیکن اس کی بازگشت میڈیا پر نہ ہونے کے برابر تھی، شاید اس وقت میڈیا کی ترجیحات میں نہیں تھا یا پھر علمدار روڈ کوئٹہ کی طرح شہداء کی لاشیں ہمراہ نہیں تھیں، الغرض شہداء کی لاشوں اور لہو کی قوت نے علمدار روڈ دھرنے کو ایک نئی جہت و عالمی توجہ دی۔ 

ظلم کے خلاف احتجاج ابتداء ہی سے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف انداز میں ہوتا رہتا ہے لیکن بعض احتجاج ایسے منفرد ہوتے ہیں، جس کی دنیا بھر میں لوگ تقلید کرکے نقل اتارنا شروع کرتے ہیں اور وہ احتجاج کی ایک علامت بن جاتے ہیں۔ ان منفرد احتجاجوں میں سے ایک عراق میں امریکی صدر بش پر منتظر زیدی کی طرف سے پھینکا جانے والا جوتا، جس کے بعد میں نہ صرف عراق بلکہ پوری دنیا میں اس احتجاجی جوتے کو آئیڈیل بنا کر جوتا پھینکنے کے احتجاج کی بارہا تکرار ہوئی۔ اسی طرح علمدار روڈ کوئٹہ کا دھرنا بھی پاکستان میں احتجاج کی ایک علامت بن گیا ہے، اور یوں آنے والے ادوار میں بھی علمدار روڈ کوئٹہ دھرنے کی طرز پر دھنا دینے کی اور منتظر زیدی کے جوتا پھینکنے کی طرح بارہا تقلید کی جائیگی، لیکن یہ یاد رہے کہ نہ ہی منتظر زیدی جیسے منفرد انداز میں کوئی پھر جوتا پھینک سکتا ہے بالکل اسی طرح علمدار روڈ جیسے منظم پرامن اور استقامت سے بھرپور دھرنے کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
خبر کا کوڈ : 232778
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش