0
Sunday 10 Mar 2013 14:58

مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی

مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی
تحریر: رشید احمد صدیقی 

گذشتہ سال کے آخری مہینے کے آخری عشرہ میں سینئر صوبائی وزیر اور اے این پی کے اہم ترین رہنماء بشیر احمد بلور کے قتل کے بعد مذاکرات کی باتیں شروع ہوگئیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی۔ آل پارٹی کانفرنس بلائی۔ لیکن اس کو کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ طالبان کی جنگ حکومت پاکستان سے ہے، اے این پی حکومت کا حصہ ہے۔ اس نے اپنے آپ کو ازخود فرنٹ لائن صوبہ کا درجہ دیا ہے، جس کی وجہ سے پہلا پڑنے والا وار اس کو ہی اپنے اوپر لینا ہے، لیکن مذاکرات حصہ سے نہیں، کل سے کئے جاتے ہیں اور حکومت پاکستان نے ان اڑھائی ماہ میں مذاکرات کے سلسلے میں خاصی سرد مہری دکھائی ہے۔ اسی حکومت نے 2008ء میں اور اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد دو بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلائے تھے اور افغان مسئلہ کے حوالے سے تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر سفارشات مرتب کرکے منظور کرائی تھیں۔ 

ان سفارشات پر عملدرآمد اور نگرانی کے لئے سینیٹر رضا ربانی جو اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے خاصے معتبر سمجھے جاتے ہیں، کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی بھی قائم ہے۔ اس کمیٹی کے قیام اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں کے مقاصد میں ڈرون حملوں کی روک تھام، اسامہ قتل جیسے واقعات کا دوبارہ رونماء نہ ہونا اور سلالہ چیک پوسٹ مہمند ایجنسی پر امریکی حملوں میں فوج کے 24جوانوں اور افسروں کی شہادت جیسے واقعات کا دوبارہ نہ ہونا شامل تھا۔ موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل درآمد کے لیے ساڑھے چار سال کا عرصہ لگا لیکن پارلیمنٹ کو پرِکاہ بھی نہ سمجھا گیا۔ چنانچہ حکومت کے ایک جز یعنی عوامی نیشل پارٹی کی اے پی سی کی قرارداد یا مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی کی قرار داد کی کیا حیثیت ہے۔
 
طالبان سے مذاکرات اے این پی کی ضرورت تھی، مرکزی حکومت آڑے آئی، لیکن وہ پھر بھی کوئی احتجاج نہ کرسکی۔ ورنہ ایم کیو ایم کی طرح باہر آجاتی۔ مرکزی حکومت کے پاس احتجاج نہ کرنے کی ان کی یہ وجہ سمجھ آرہی ہے کہ حکومت میں رہنے کے لیے جو سمجھوتہ دونوں کے درمیان ہوا تھا اس سے باہر آنا ممکن نہیں۔ اس کا سیاسی نقصان جو بھی ہو، اے این پی کو آخر تک حکومت میں رہنا تھا۔ دوسری جانب افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوہا میں مذاکرات بظاہر ناکام ہوئے، لیکن سفارت کاری میں ناکامی یوں نہیں ہوتی اور اس طرح کے مذاکرات کو نتائج سے قطع نظر جاری رکھا جاتا ہے۔ ان مذاکرات میں حیرت انگیز طور پر مولانا فضل الرحمان بن بلائے اس مقام پر موجود رہے۔ وہ شریک تو نہیں ہوئے کہ ان کی شرکت کے لیے کوئی پیمانہ نہ تھا، لیکن ان کی وہاں موجودگی سے اندازہ کیا جاتا ہے اور بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ کسی اہم تر کردار کے لیے تیار ہیں۔ 

دوہا میں مولانا فضل الرحمان کے قیام کے دوران اے این پی کی لاحاصل اے پی سی ہوگئی۔ لیکن مولانا فضل الرحمان نے آکر بھرپور اے پی سی منعقد کی۔ جس میں تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں کی صف اول کی قیادت نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی نے اے این پی کی اے پی سی کو بے وقت کی راگنی قرار دے کر اس میں شرکت نہ کی، لیکن اسی اصول پر مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی سے انکار نہ کرسکی۔ حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر ساڑھے چار اور تین سال کے دوران عملدرآمد نہ کرنے والی حکومت کے لیے اے پی سی کی کیا اہمیت ہے۔ پھر بھی ایک بھرپور اے پی سی ہوئی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ حکومت پاکستان مولانا فضل الرحمان کے تشکیل کردہ قبائلی جرگہ کے ذریعے مذاکرات کرے۔ 

طالبان نے نواز شریف، فضل الرحمان اور سید منور حسن سے ضامن کے طور پر مذاکرات کا کہا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے بندوق جرگہ کے کندھے پر رکھ دی۔ اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ قبائلی جرگہ نے امن کے قیام کے لیے آگ کے اندر جانے فیصلہ کیا ہے۔ جرگہ میں تمام جماعتوں کو نمائندگی دے کر وسعت دی جائے گی۔ موجودہ اور آئندہ تمام حکومتیں اس کے فیصلوں اور موجودہ قرارداد کی پابند ہوں گی۔ جوش خطابت میں یہ بات زبردست تھی لیکن 15 دنوں کی مہمان حکومت کیسے اس کی پابندی کرے گی، جبکہ اسی مسئلہ پر پارلیمنٹ کے بند کمرہ اجلاس کی قرارداد کی ساڑھے چار سال میں پابندی نہ ہوسکی۔ وہ اجلاس آئینی تھا اور پارلیمنٹ ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے، جبکہ اے پی سی مولانا فضل الرحمان کی ذہانت کے نتیجہ میں منعقدہ ایک غیر رسمی اکٹھ۔ 

اے پی سی میں بھرپور انداز میں قومی وحدت کا اظہار تھا۔ اعلامیہ میں یہ بات شامل تھی کہ مذاکرات کے سلسلے کو تمام جماعتیں مل کر آگے بڑھائیں گی۔ لیکن اگلے ہی روز مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے ملاقات کی، جنھوں نے اے پی سی کے کامیاب انعقاد پر ان کو مبارکباد دی اور کہا کہ اس سلسلے میں امریکہ نے مذاکرات اور مصالحت کی کوششوں کے راستے میں روڑے اٹکائے تھے، اس غلطی کو دہرایا نہیں جائے گا۔ امریکی سفیر سے آشیر باد لیکن مولانا فضل الرحمان دوسرے روز پشاور پہنچے اور پہلے سے طے شدہ قبائلی جرگہ کے اجلاس کی صدارت کے بعد گورنر خیبر پختونخوا سے ملے اور ان کو اے پی سی اور جرگہ کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔ 

اے پی سی میں قومی اتفاق رائے کے بعد اعلامیہ کے مطابق باقی عمل کو شریک جماعتوں کو مل کر آگے بڑھانا تھا۔ لیکن امریکی سفیر اور گورنر کے پی کے سی ملاقاتوں میں مولانا نے اے پی سی کی کسی رکن جماعت کو ساتھ نہیں لیا۔ جس پر فوری ردعمل جماعت اسلامی کی جانب سے سامنے آیا اور صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اگلے روز المرکز اسلامی میں ہنگامی پریس کانفرنس طلب کی۔ انھوں نے مولانا فضل الرحمان کی امریکی سفیر اور صوبائی گورنر سے ملاقاتوں کو اعلامیہ کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ جب مولانا صاحب یہ سب کچھ اکیلے کرسکتے ہیں تو دوسری جماعتوں کو بلانے کی کیا ضرورت تھی اور اعلامیہ کی شق ایک اور تین میں صاف طور پر تحریر ہے کہ جرگہ کو وسعت دے کر اس میں تمام جماعتوں کو نمائندگی دی جائے گی اور مذاکرات کا عمل مل کر آگے بڑھایا جائے گا، جبکہ مولانا صاحب اکیلے سب کچھ کر رہے ہیں۔ 

طالبان نے اے پی سی کا خیر مقدم کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم فوج کے ردعمل کا انتظار کریں گے۔ دوسری طرف اصل فریق حکومت ہے، وہ جانے اور دوبارہ آنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس کو اے پی سی کی قرارا داد سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اور سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس کے پاس اس کے لیے وقت بھی نہیں ہے۔ نگران بھی انتخابات منعقد کرنے کا مینڈینٹ لے کر آئیں گے۔ چنانچہ عشروں پرانے مسئلے کے حل کے لیے اس کے پاس وقت ہوگا نہ صلاحیت۔ اے پی سی اور دوہا مذاکرات میں نوٹ کرنے کی بات یہ تھی کہ اصل فریق حکومت پاکستان دونوں مواقع پر لاتعلق رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اصل فریق کی سرد مہری کے علی الرغم مذاکرات کیسے آگے بڑھیں گے۔ آخری کوشش میں مولانا فضل الرحمان آگے آگے ہیں۔ لیکن جس طرح وہ کسی کو اعتماد میں لیے بغیر دوہا اور اے اپی سی کی شٹل ڈپلومیسی میں مگن رہے، اس عمل میں ان کی جماعت کو بھی صحیح آگہی نہیں، کیونکہ جب وہ دوہا جا رہے تھے تو ان کے ایک لیڈر نے خوش خبری دی کہ مولانا صاحب ضامن کے طور پر مذاکرات میں جا رہے ہی۔

اس کی اطلاع مولانا صحاب کو دوہا میں ملی تو سیکرٹری اطلاعات کو ہدایت کی کہ اس کی تردید جاری کرو اور میرے دورہ کو نجی ظاہر کرو، حلانکہ معلوم ہوا تھا کہ وہاں کے چار ہزار روپے فی شب والے ہوٹل کا خرچہ امریکہ برداشت کر رہا تھا۔ اس سے ان کا اعتبار جاتا رہا۔ اس سے قبل مشرف اور زرداری حکومتوں سے ان کے تعلقات اور حصہ داری کی وجہ سے بھی ان کو پاکستانی سیاسی جماعتیں زیادہ قابل اعتبار نہیں سمجھتیں۔ دوہا مذاکرات میں ان کی بن بلائے رفت اور موجودگی اور اس کے بعد اے پی سی کے فوراً بعد امریکی سفیر سے ملاقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں اپنے آپ کو امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، مولانا فضل الرحمان مستقبل کے نظام میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 245318
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش