3
0
Wednesday 20 Mar 2013 00:12

راہ نجات

راہ نجات
تحریر: علمدار هاشمی
ahussain207@gmail.com 

تاریخ کے بارے میں عام سطحی تصور یہ ہے کہ تاریخی واقعات کو معمولاً فقط دلچسپی اور وقت گزاری کے لے پڑھا جاتا ہے اور اس کو بادشاہوں کا زندگی نامہ یا جنگ و خونریزی کے واقعات تک محدود سمجھتا جاتا ہے، لیکن تاریخ سے متعلق یہ عامیانہ تصور درست نہیں، کیونکہ تاریخ فقط گذشته لوگوں کی داستان کا نام نہیں بلکہ یہ ایسے عبرت آموز واقعات ہیں جو انسانی معاشرے کے لیے آئینے کی حیثیت رکهتے ہیں۔ تاریخ ماضی کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا آج اور آنے والا کل دیکھ سکتے ہیں، اور گذشتہ ماضی میں اپنے آینده کی مشکلات کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ تاریخی واقعات قابل تکرار نہیں لیکن ہم ان واقعات سے ایسے قوانین استخراج کرسکتے ہیں جو عمومی ہوں۔ مثلاً ظلم کا نتیجہ زوال ہے، ظالم ہمیشہ معرض نابودی اور ہلاکت میں ہے۔
 
حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق حکومتیں کفر کے ساتھ تو باقی ره سکتی ہیں، لیکن ظلم کے ساتھ نہیں، اور یہی حقیقت بھی ہے، ظلم انسان کو نابود کر دیتا ہے۔ اسی لئے ظالم لوگوں کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے۔ قابیل، نمرود، فرعون و یزید ظلم ہی کی وجہ سے نابود ہوئے۔ قرون وسطٰی میں ارباب کلیسا کا ظلم ہی ان کی نابودی کا باعث بنا اور اسی ظلم کی وجہ سے مسیحیت معاشرتی سے نکل کر کلیسا میں نظر بند ہوگئی، اور فقط یہی نہیں بلکہ اس دور کو ڈارک پیریڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی سیاه دور، کیونکہ اس زمانے میں ظلم کے بادل چھائے هوئے تھے۔ آج کے دور میں صدام، حسنی مبارک وغیره اسکی زنده مثالیں ہیں، جن کو ان کا ظلم لے ڈوبا اور امریکہ اور اسرائیل کو بھی عنقریب اسی عبرتناک انجام سے دوچار ہونا ہے۔

ایک اور قانون جو قوموں کے عروج و زوال میں موثر ہے وه کسی قوم کے افراد کا آپس میں باہمی اتفاق و اتحاد ہے۔ جس قوم کے افراد میں اتحاد ہوتا ہے وه قوم ناقابل شکست ہوتی ہے۔ اسی لئے پیامبر صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا مدینہ میں آنے کے بعد مهم ترین اقدام مهاجرین اور انصار کے درمیان پیمان اخوت کو برقرار کرنا تھا۔ پیامبر صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے ان بکھرے لوگوں کو جو برس ہا برس سے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، انہیں وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور ایک مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی، جس کے نتیجے میں اسلام پوری دنیا میں پھیل گیا، لیکن افسوس کہ پیامبر (ص) کی رحلت کے فوراً بعد بعض نااہل لوگوں کی وجہ سے اس اتحاد کا شیرازه بکھر گیا اور جب بھی مسلمانوں نے اتحاد کا دامن چھوڑا زوال کا شکار ہوئے۔
 
اکثر مسلمان حکومتوں کے زوال کا ایک اہم سبب باہمی اختلاف اور اتحاد کا فقدان ہے اور آج بھی جن مسائل کا شکار ہے، ان میں سے سب سے بڑی مشکل باہمی اختلافات ہیں۔ اس اختلاف کی ایک بہت بڑی وجہ بعض نام نہاد مسلم حکومتیں ہیں جو اسلام کے نام پر مسلمانوں میں فرقہ پرستی کو فروغ دے رہی ہیں، ان میں سے سرفہرست سعودی عرب ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، تاکہ مسلمانوں میں تفرقہ کو پھیلایا جاسکے۔ کہیں اپنے مبلغین کے ذریعے مسلمانوں کو کافر کہلواتا ہے اور کہیں اسلحہ اور تخریب کاری کے ذریعے یه غیر انسانی فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اسلامی دنیا میں جہاں بھی جھاد کے نام پر دہشت گردی کی واقعات ہوتے ہیں، ان کے تانے بانے سعودیہ سے جا کر ملتے ہیں اور دوسری طرف مسلمان بھی ایک باہمی اتحاد کو ننگ و عار سمجھتے ہیں۔
 
مسلمانوں کے مختلف فرقے دوسرے مذاہب کے ساتھ تو اتحاد کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن آپس میں مل بیٹھنے کے لئے تیار نہیں۔ آج اہل باطل، باطل پر ہونے کے باوجود اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف متحد ہوچکے ہیں، لیکن مسلمان اپنی تمام تر توانائیاں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ ایک فرقہ کے افراد دوسرے فرقے کے افراد کو کافر قرار دے رہے ہیں، اور بعض نام نهاد مسلمان تو اس سے بھی بڑھ کر اپنے ہی مسلمان بھائیون کے خلاف جهاد میں مشغول ہیں اور فی سبیل الله مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور حتی اس جھاد میں عورتوں اور معصوم بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگ جو جهاد کے حروف ابجد سے بھی آشنا نہیں، جهاد کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کے ہوئے ہیں۔

ایسا جہاد جو اسلام دشمنوں کے خلاف نہیں بلکہ ان مظلوم نہتے مسلمانوں کے خلاف ہے، جن کا قصور فقط یہ ہے کہ وه مسلمان ہیں۔ جو مذہبی جذبے سے مغلوب ہو کر مساجد، امام بارگاہوں اور مزاروں میں جاتے ہیں اور ان تکفیریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً آج کل پاکستان میں اہل تشیع بیشتر ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ آج اگر ایک شیعہ مارا جاتا ہے تو دوسرے مسلمان خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ کل انکی باری بھی آنے والی ہے کیونکہ یہ تکفیری گروه فقط شیعہ کے دشمن نہیں بلکہ درحقیقت یہ اسلام کے دشمن ہیں۔ اگر مسلمان ان نام نہاد جہادیوں اور ظالم حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں تو اس کا راه حل آپس میں باہمی اتحاد ہے۔
خبر کا کوڈ : 247805
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

mashaAllah..............bahoot khoob
باہمی اتحاد سے آپ کی کیا مراد ہے؟ باہمی اتحاد کے نعرے کا فائدہ تو صرف ہمارے لیڈر اٹھا رہے ہیں۔ وہ ہر جگہ جاکر بیٹھ جاتے ہیں، دشمنوں کی ہاں میں ہاں، دہشت گردوں کے سرپرستوں کی کمر مضبوط کرتے ہیں ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔
عوام چاہے شیعہ ہو یا سنی اسے اس نام نہاد اتحاد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اتحاد مل کر ریلیاں نکالنے اور نعرے لگانے کا نام نہیں ہے بلکہ اتحاد کے لئے ملی شعور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ جہاں پر لیڈروں کو خود ملی شعور نہ ہو، وہاں پر عوام حقیقی اتحاد کے لئے کیا کریں۔
Very Nice...!
ہماری پیشکش