0
Monday 17 May 2010 20:29

ایٹمی ایندھن پر سمجھوتہ کن شرائط پر

ایٹمی ایندھن پر سمجھوتہ کن شرائط پر
 آر اے سید
ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے فارمولے پر تہران میں ایران،برازیل اور ترکی کے وزراء خارجہ نے دستخط کر دیئے ہيں۔اس معاہدے کے فارمولے کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران،بارہ سو کیلوگرام  ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیم کو تبادلے کے لئے ترکی میں محفوظ رکھے گا،اور تبادلے کی صورت میں اس کے عوض وہ ایک سو بیس کیلوگرام بیس فیصد افزودہ یورینیم لے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست نے اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے پر ایران، ترکی اور برازیل کے وزراء خارجہ نے دستخط کئے۔اس سے پہلے ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد برازیل کے صدر لولا ڈسیلوا اور ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان نے اس معاملے پرسہ فریقی مذاکرات کئے،وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ تمام ملکوں کو پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی بھی اقدام قابل قبول نہيں ہے۔ 
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران ایٹمی معاملے میں افہام و تفہیم کے راستے کو ترجیح دیتا ہے اور وہ کسی بھی طرح کی محاذ آرائی اور تصادم کو پسند نہیں کرتا کہا کہ ایران، برازیل اور ترکی کے مابین ہونے والے سمجھوتے کے مطابق ایران ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو،ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کرے گا۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر ویانا گروپ جس میں امریکہ،روس، فرانس اور آئی اے ای اے شامل ہيں ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے لئے تیارہوں اور اپنی رضا مندی کا اعلان کریں تو ایسے میں ایران اور اس گروپ کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوں گے۔ 
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ  کے ترجمان نے کہا کہ ویانا گروپ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے ایک مہینے کے بعد ایران اپنا ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیم ترکی کو بھیجے گا۔جہاں آئی اے ای اے اور ایران کی زیرنگرانی اس کی حفاظت ہو گی اور معاہدے میں طے کی گئی مدت کے دوران ہی ویانا گروپ کو بیس فیصد افزودہ یورینیم تہران کے ایٹمی تحقیقاتی ریکٹر کے ایندھن کے لئے ایران کو فراہم کرنا ہو گا۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا اس معاہدے پر عمل درامد اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادے اور اپنے فیول سائیکل کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے بارے میں ایران کے حق کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور دنیا کے دیگر تمام مالک بھی اس کی حمایت کر رہے ہيں۔اسلامی جمہوریہ ایران کی وزات خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ جو تجاویز ترکی اور برازیل نے پیش کی تھیں اور جن کا معاہدے کی مختلف شقوں میں ذکر بھی ہوا ہے اس کے مطابق تمام خودمختار ممالک ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادے کے لئے آپس میں تعاون کریں گے۔انھوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہيں کہ وہ ممالک جنھوں نے اب تک ایٹمی ٹکنالوجی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی کوشش کی تھی دوسرے ملکوں کے حقوق کو بھی تسلیم کریں گے اور عالمی برادری کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کے لئے مثبت جواب دیں گے کہ ایٹمی ٹکنالوجی سے پرامن استفادہ کا حق سب کو دیا جائے۔
مبصرین اس معاہدے کو نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے ملکوں کے لئے بہت ہی اہم قراردے رہے ہیں کیونکہ اگر اس معاہدے کے مطابق ایٹمی ممالک نے عالمی برادری کے مطالبات مان لئے تو ایسے میں سبھی ممالک اپنی ترقی وپیشرفت کے لئے پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادہ کرسکيں گے۔اسی لئے بہت سے نظریہ پردازوں کا کہنا ہے کہ پہلی بار ترقی پذیر ممالک نے بین الاقوامی سطح پر اپنا صحیح مقام حاصل کیا ہے اور وہ اپنی حق پسندانہ آواز دنیا کے کانوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہيں۔
اس درمیان ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ تین اہم ملکوں برازیل،ترکی اور ایران نے اپنی ہم آہنگی اور مشترکہ نظریات کے پیش نظر حق بات دنیا والوں تک پہنچائي ہے اور ایران کی حمایت میں ایک ایسا بیان جاری ہوا ہے جس میں ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں خاص طور پر یورینیم کی افزودگی کے حوالے  سے ایران کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ایران این پی ٹی کا رکن ہے اور این پی ٹی کے مطابق رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ سبھی ملکوں کو اس بات کاحق حاصل ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ٹکنالوجی تک رسائی حاصل کرسکيں۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغربی ممالک نے ابھی تک اپنے سیاسی دباؤ کے ذریعہ دنیا کے ديگر ملکوں کو ان کے اس حق سے محروم کر رکھا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے تو اس سے پہلے بھی کئی بار ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے لئے اپنی نیک نیتی کا اظہار اور اثبات بھی کیا اور اس نے یہاں تک کہا کہ وہ ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کو تیار ہے اور یہ سب کچھ ایسے وقت ہے کہ ایران ایسا کرنے کے لئے مجبور بھی نہیں ہے کیونکہ این پی ٹی کے مطابق وہ پرامن مقاصد کے لئے یورینیم کو افزودہ کر سکتا ہے اور ساتھ ہی موجودہ صورت حال میں وہ اس پوزیشن میں بھی ہے کہ وہ بیس فیصد تک یورینیم کو افزودہ کر سکے،تاکہ تہران کا ایٹمی تحقیقاتی ریکٹر کام کرتا رہے جو میڈیکل اور خاص طور پر سرطان کے مریضوں کے دوائيں تیار کرتا ہے۔
ایٹمی ایندھن کے تبادلے کا یہ معاہدہ اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر ایک ایسے وقت اور ایسے مقام پر دستخط کئے گئے جب تہران میں دنیا کے بیس ممالک کے اعلی حکام گروپ پندرہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے موجود ہيں۔اسی بات کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے بھی کہا کہ ایران پہلے بھی انصاف اور باہمی احترام کی بنیاد پر ایٹمی معاملے پر تعاون کے لئے تیار تھا۔لیکن پانچ جمع ايک گروپ کی مشکل یہ تھی کہ اس کے بعض ارکان انصاف اور باہمی احترام کی بنیاد پر معاملے کو آگے بڑھانے کے حق میں نہيں تھے اور یہ بات ایران کو کسی بھی صورت قبول نہیں تھی اور نتیجے میں مذاکرات بھی کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ وہ تمام ممالک جو عالمی مسائل میں کسی نہ کسی طرح دخیل ہيں ایران میں انجام پانے والے آج کے اقدام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائيں گے اور عالمی امن و صلح اور بھائي چارہ کی سمت قدم اٹھائيں گے۔جیسا کہ ایران پہلے بھی چاہتا تھا کہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعہ ایٹمی معاملے ميں پیدا شدہ کشیدگی کو ختم کیا جائے۔اسی کی بنیاد پر اس نے آج برازیل اور ترکی کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کئے اور اس سے دنیا پر ایک بار پھر یہ بات واضح ہو گئی کہ ایران کی نیت ہمیشہ نیک اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچائي پرمبنی تھا۔
اسی لئے اس معاہدے کے بعد عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران نے ایک بار پھر اعتماد سازی کے لئے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دیا ہے اور اس کا یہ اقدام قابل ستائش ہے روس کی ایک ممتاز نظریہ پرداز محترمہ ایرینا کاراپتیانس نے کہا ہے کہ آج تہران میں ہونے والے سمجھوتے سے ایٹمی مذاکرات کا راستہ کھل جائے گا اور پانچ جمع ايک گروپ کے ملکوں کو چاہئے کہ وہ ہاتھ آئے اس موقع سے فائدہ اٹھائيں۔بجا طور پر ایران نے ایک بار پھر سفارتی میدان میں اپنی حقانیت کو ثابت کرتے ہوئے ان ملکوں کو جو ایٹمی ٹکنالوجی پر اپنی ہی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہيں ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ تسلط پسندی اور زور و زبردستی کے لہجے میں بات کہنے اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور قومیں اب اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے پوری طرح مصمم ہو چکی ہيں،جیسا کہ ایران کے غیور اور انقلابی عوام نے گذشتہ اکتیس برسوں میں اس بات کو ثابت کیا ہے۔ 
بنابریں منہ زور طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکہ کو کھل کر اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ ایران جیسے کسی بھی خود مختار ملک کو دھونس و دھمکی اور پابندیوں کی باتيں کر کے مرعوب نہيں کیا جاسکتا۔گذشتہ اکتیس برسوں کے دوران ایران پر طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود جس طرح سے ایران کے عوام نے زمین و فضا تمام میدانوں میں ترقی و پیشرفت کا شاندار نمونہ پیش کیا ہے وہ طاقت کے نشے میں چور منہ زور طاقتوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہے۔ بہرحال تہران میں جہاں گروپ پندرہ کا سربراہی اجلاس جاری ہے آج ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے فارمولے پردستخط کے بعد گیند ایک بار پھر پانچ جمع ايک گروپ کے کورٹ میں چلی گئي ہے،جس کے بعض ارکان ایران کو اس کے مسلمہ حق سے محروم رکھنے کی اب تک ناکام کوشش کرتے رہے ہيں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اب حقیقت کا اعتراف کرتے ہيں اور ہوش کے ناخن لینے پر مجبور ہوتے ہیں؟ 

خبر کا کوڈ : 26057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش