0
Saturday 17 Aug 2013 14:16

دہشتگردی اور اسلام آباد کی یرغمالی کا ڈرامہ

دہشتگردی اور اسلام آباد کی یرغمالی کا ڈرامہ
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معرض وجود میں آنے کے فوری بعد جن دو باتوں کا اعادہ کیا، ان میں دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا، لیکن حکومت سنبھالتے ہی دونوں بحرانوں نے اتنی شدت سے سر اٹھایا کہ نومنتخب حکمران چکرا کر رہ گئے۔ دہشت گردی کی اوپر تلے ہولناک وارداتوں نے ہوش اڑا کر رکھ دیئے۔ ایسے لگتا تھا جیسے کسی نے دہشت گردی کا پھاٹک کھول دیا ہو۔ حکمرانوں نے اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ہوم ورک شروع کیا، اداروں سے بریفنگ لینا شروع کی، پھر یہ طے پایا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایک قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت درکار ہے، لہٰذا آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ ہوا، لیکن نہ تو اس حوالے سے حکومت کی تیاریاں تھیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے کوئی لائحہ عمل مرتب کر رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس اے پی سی کو بلامقصد قرار دیتے ہوئے الگ سے وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کا مطالبہ کر دیا جو کہ ابھی تک منظور نہیں ہوا اور معاملہ ہوا میں معلق چلا آ رہا ہے، البتہ حکومتی ذرائع سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قومی ایجنڈا کی تیاریاں جاری ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے دو تین بار یہ عندیہ مل چکا ہے کہ وہ بعض معاملات پر قوم کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں، اب پتہ چلا ہے کہ یہ وقت قریب آچکا ہے اور شاید 19 اگست کو وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے۔

دوسرا اہم مسئلہ بجلی کا بحران تھا کیونکہ جب مسلم لیگ (ن) نے حکومت سنبھالی تو موسم گرما کی حدت عروج پر تھی، بجلی کی پیداوار بہت کم تھی جبکہ اس کی طلب عروج پر تھی، لہٰذا لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹوں تک پہنچ چکا تھا، شدید گرمی میں طویل لوڈشیڈنگ پر عوام نے نومنتخب حکومت کیخلاف مظاہرے شروع کر دیئے، حکومت نے جلد از جلد 500 ارب روپے سرکلر ڈیٹ میں کمپنیوں کو ادا کرکے بجلی پیدا کرنے کی طرف راغب کیا، اوپر سے موسم بھی کچھ مہربان ہوگیا، بارشوں نے بجلی کی طلب میں کمی واقع کر دی اور ہائیڈل کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگیا، جس کے نتیجہ میں آج بجلی کی لوڈشیڈنگ کافی حد تک کم ہوچکی ہے لیکن دہشت گردی کا عفریت پوری طرح پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ ہر آنے والا دن کوئی نہ کوئی نیا زخم لگا کر ختم ہو جاتا ہے۔ کراچی میں بدستور ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، بلوچستان کے حالات دن بدن شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، خاص کر عید سے قبل پنجابی مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنا، کوئٹہ میں انسپکٹر کی نماز جنازہ پر خودکش حملہ کے نتیجہ میں ڈی آئی جی سمیت پولیس افسروں کی ہلاکتیں، نانگا پربت میں غیر ملکی سیاحوں کا قتل، ڈیرہ اسماعیل خاں جیل کو توڑ کر وہاں ملازموں کو قتل کرکے 250 دہشت گردوں کو چھڑوا کر لیجانے کے واقعات نے پاکستانیوں کو بڑی گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

جمعرات کے روز وفاقی دارالحکومت میں ایک پاگل شخص نے اپنی گاڑی کو مورچہ بنا کر جس طرح پاکستان کی سکیورٹی کے اداروں کا مذاق اڑایا اس نے تو بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ دیئے ہیں، اداروں خاص کر پولیس کی کارکردگی کو تو بالکل بے نقاب کر دیا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ یہ جنونی شخص ملک سکندر وفاقی دارالحکومت میں اسلحہ لے کر کس طرح داخل ہوا۔ کیا ناکوں پر کسی نے اس کو چیک نہیں کیا، سارے سکینر جواب دے چکے ہیں۔ البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک سکندر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اسلام آباد آیا ہو اور وہاں ہوٹل میں قیام کے دوران کسی نے اس کو اسلحہ فراہم کیا ہو، لیکن کیا ہوٹل کی انتظامیہ کے پاس ایسا کوئی نظام نہ تھا جس سے اسلحہ چیک کیا جا سکے۔ پھر یہ شخص ریڈ زون کے قریب کیسے جا پہنچا اور جب اس نے اپنے ڈرامے کا آغاز کیا تو وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے پاس کیا حکمت عملی تھی کہ اس پر جلد از جلد قابو پایا جاتا۔ پولیس نے بلامقصد 6 گھنٹے تک کیوں انتظار کیا۔ یہ سب چیزیں ہماری ناقص پالیسیوں کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہیں جو کام پیپلز پارٹی کے زمرد خاں نے کیا یہ کام اس سے زیادہ بہتر طریقے سے بہت پہلے سرانجام دیا جاسکتا تھا، پھر اتنا لمبا تماشا لگانے کی ضرورت نہ تھی۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارا نظام اتنا منظم ہوتا کہ اس ڈرامے کے ایک آدھ گھنٹے بعد اس شخص کے تمام رابطوں کا ریکارڈ ایکشن کرنے والی پولیس کے پاس ہوتا، اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں حتمی رپورٹ موصول ہوچکی ہوتی یا اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کے لئے کسی ماہر نفسیات سے اس کی بات کروائی جاتی۔ اس کی بیوی سے گفتگو کرکے اندازہ لگایا جاتا کہ وہ شخص کس حد تک جاسکتا ہے۔ کسی بھی ایکشن کی صورت میں اس کا متوقع ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ زمرد خاں کی دلیری اور بہادری اپنی جگہ لیکن ان کا سکندر کو قابو کرنے کا ایکشن بہت ہی اناڑیانہ سا تھا، اس میں کہیں کوئی پلاننگ نظر نہیں آئی اور یہ تو اللہ کا زمرد خاں پر خاص ہی کرم تھا ورنہ وہ ملک سکندر کا بہت آسان ٹارگٹ تھا لیکن ملک سکندر اتنا بوکھلا گیا تھا کہ اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔

جو کام زمرد خاں نے کیا یہ بہت پہلے بڑے اچھے انداز میں ایس یس پی اسلام آباد ڈاکٹر رضوان کرسکتا تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں کی، اس سے بھی آسان حل یہ تھا کہ جس طرح ملزم بار بار گاڑی سے باہر نکل کر اکیلا گھومتا تھا شوٹر اسے نشانہ بنا سکتے تھے اور قریب پہنچے ہوئے کمانڈو اسے قابو کرسکتے تھے لیکن پولیس کے پاس کوئی حکمت عملی نہ تھی، پولیس یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہی کہ آیا اس شخص کی دماغی کیفیت کیا ہے۔ کیا وہ کوئی کمانڈو اور ماہر اسلحہ باز ہے اور اس کا کسی جہادی یا دہشت گردوں کے گروپ سے تعلق تو نہیں۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ ملزم ہسپتال میں ہے، اس کی بیوی سے تفتیش کرکے اس کی تہہ تک جلد از جلد پہنچنا چاہئے، اس کے مقاصد کیا تھے، اس کو اس کام کے لئے کس نے آمادہ کیا۔ یہ سارا کچھ جلد از جلد عوام کے سامنے رکھنا چاہئے اور ایسے واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے۔

ایک تو ہمارے تمام اداروں کو فعال کرنے اور ازسرنو منظم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر پولیس اہلکار سست، کاہل اور لاغر ہیں، ان میں ’’ایفی شنسی‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں، انہیں جدید تربیت کی ضرورت ہے، ماہر تحقیقات کار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین نفسیات کو پولیس فورس کا حصہ بنایا جانا چاہئے، بڑے شہروں کے آنے جانے والے راستوں پر جدید قسم کے سکینر نصب کئے جانے چاہئیں جو بروقت اسلحہ کی نشاندہی کریں، دہشت گردی اور ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے واضح اور مربوط سسٹم ہونا چاہئے۔ پاکستان میں پولیس کی کارکردگی اور کام کا طریقہ انتہائی روایتی اور بوسیدہ ہے۔ ان کی ٹریننگ نہتے لوگوں کو قابو کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے سوا اور کچھ نہیں جبکہ اب وہ والا دور نہیں رہا، آج کا دور جدید اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے کا متقاضی ہے۔ پاکستان کے اکثر اداروں کو زنگ لگ چکا ہے، انہیں ازسرنو منظم کرنے اور جدید تربیت اور ساز و سامان کی ضرورت ہے۔ حکومت دہشت گردی کے خلاف ضرور قومی پالیسی تشکیل دے، لیکن میدان عمل میں کام کرنے والی افرادی قوت کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 293265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش