0
Thursday 22 Aug 2013 13:07

دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں خوش آئند ہیں

دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں خوش آئند ہیں
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کا پرعزم اعلان سامنے آتے ہی ملک بھر میں دہشت گردوں کیخلاف خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کوئٹہ میں ایف سی نے چند روز قبل پندرہ ٹن وزنی پوٹاشیم کلورائیڈ سے بھرا ٹرک لیجانے والے دو افراد کو گرفتار کرکے ان کی نشاندہی پر کوئٹہ میں ایک بستی پر چھاپہ مار کر وہاں دہشت گردوں کی زیرنگرانی ایک گودام سے سو ٹن دھاکہ خیز مواد پکڑ لیا ہے۔ اس چھاپے میں دھماکہ خیز مواد سے بھرے 80 ایسے ڈرم ملے جو واردات کیلئے تیار تھے، ان میں صرف ڈیٹونیٹر لگانے کی دیر تھی۔ گرفتار شدگان نے بتایا کہ گودام میں دھماکہ کرنے والے آلات اور ایسی مشینیں ہیں جن سے ہلاکت خیز مواد مکس کیا جاتا ہے۔ ایف سی نے گودام سے تاروں کے 28 بنڈل، 2800 کلو گرام بارودی مواد، ایلومینیم پاؤڈر اور تیزاب کے دس ڈرم قبضہ میں لے لئے۔

ادھر گذشتہ روز لاہور میں عسکری خفیہ اداروں نے گرین ٹاؤن میں ایک گھر سے چھ خواتین سمیت القاعدہ کے 8 ارکان گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے جدید ترین اسلحہ، اہم دستاویزات اور انتہائی ماڈرن مواصلاتی آلات برآمد کر لئے، جن کے ذریعے اہم سیاسی و عسکری شخصیات کی ٹیلی فون کالز ریکارڈ کی جاتی تھیں۔ گرفتار شدہ ملزمان کا تعلق القاعدہ کے داؤد اور حسن گل گروپوں سے بتایا جاتا ہے۔ اس چھاپے میں سینکڑوں موبائل سمیں، ٹیلی فون لائنز، آلات، اسلحہ، دھماکہ خیز مواد کے علاوہ ایک باقاعدہ انٹرنیشنل گیٹ وے قبضہ میں لیا گیا ہے جو ’’انٹرنیشنل ٹیکنیکل ہب‘‘ کے نام سے کام کر رہا تھا۔ اس کے ذریعے کوٹ لکھپت جیل پر حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ مزید برآں اہم شخصیات کے اغوا کا بھی منصوبہ زیر تکمیل تھا۔

ابھی چند روز قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بھارہ کہو کی شیعہ مسجد پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں سرگرم عمل دہشت گرد عسکری اداروں سے بھی زیادہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ جن کے پاس ایسی مشینری، آلات اور ڈیوائسز ہیں جو ابھی ہمارے دفاعی اداروں کے پاس بھی نہیں۔ دہشت گردوں کے اس نیٹ ورک کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم نے ایسی سکیورٹی فورسز میدان میں اتاری ہیں، جن کے پاس بوقت ضرورت سٹن گن چلانے کا ایک بھی ماہر نہیں۔ گذشتہ دس سالوں میں دہشت گردی کیخلاف دنیا کی طویل ترین جنگ لڑنے والا ملک اتنا تہی دست و بے خبر ہوگا، اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

اب لاہور میں ’’انٹرنیشنل ٹیکنیکل ہب‘‘ پکڑے جانے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارا دشمن کتنا چالاک، ہوشیار اور چابک دست ہے کہ وہ ہماری گود میں بیٹھ کر ہماری آنکھیں نوچنے کا اہتمام کرتا ہے اور ہمیں اس کی خبر ڈیڑھ سال بعد ہوتی ہے، حالانکہ ماضی میں مختلف اہم عسکری و دفاعی اداروں پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد جب یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ دہشت گرد ہماری ہی بستیوں میں، ہمارے ہی بھائی بندوں کی طرح کرائے کے مکانوں میں رہتے اور اپنی وارداتوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو حکومت نے تمام شہروں کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی تھیں کہ کرائے کیلئے دیئے جانے والے مکانوں، فلیٹوں اور دیگر عمارتوں میں رہائش پذیر کرائے داروں کے مکمل کوائف متعلقہ تھانہ میں درج کروانا پراپرٹی ڈیلرز اور مالکان پراپرٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر جونہی کسی واردات کی گرد بیٹھتی ہے تو پھر وہی پرانی پریکٹس چل نکلتی ہے۔

لاہور میں القاعدہ کا نیٹ ورک چلانے والے گروہ نے گذشتہ ڈیڑھ سال سے جو چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا ہے، اسے درویش خانے کا ایک ملنگ چلا رہا ہے۔ اڑوس پڑوس والے اتنا تو جانتے تھے کہ اس گھر کے کچھ مکین صرف رات کو متحرک ہوتے ہیں، مگر کسی نے ان مشکوک افراد کی نقل و حرکت کے بارے پولیس کو مطلع کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ویسے پولیس کے کردار کے بارے تو خود ہماری سلامتی کے ضامن ادارے بھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں، اسی لئے گذشتہ روز جب اس گیٹ وے پر چھاپہ مارا گیا تو مقامی پولیس کو دانستہ شریک نہ کیا گیا، وگرنہ امکان غالب تھا کہ مجرم بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے۔ اس سے بڑھ کر ہماری پولیس کی ’’شہرت‘‘ کیا ہوگی، جس کے بارے میں عدالتیں بھی کئی بار کہہ چکی ہیں کہ اگر ہماری پولیس ٹھیک ہو جائے تو سارا نظام درست ہوسکتا ہے۔

کوئٹہ اور لاہور میں دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا مہلک مواد، اسلحہ، آلات، کیمیکل اور جدید ترین مشینری اور ہتھیاروں سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ یہ کہاں سے آتا ہے؟ دینی مدارس میں پڑھنے والے نظرانداز طبقوں کے بچوں نے یہ سب سازوسامان ازخود تو نہیں بنا لیا؟ ایک پیشہ ور فوج کو جو جدید آلات دستیاب نہیں اور جن کی خریداری کیلئے عالمی منڈی تک بھی کسی عام گروہ کی رسائی نہیں ہوسکتی، وہ سب ہمارے ملک میں سرگرم عمل ایسے گروہوں کے پاس کہاں سے آتا ہے؟ اس کے بارے میں قیاس کرنے اور اندازہ لگانے کیلئے کسی بقراطی ذہن کی ضرورت نہیں۔ اتنے حساس نوعیت کے جدید ہتھیار ہمارے ازلی دشمنوں کے علاوہ کون مہیا کرسکتا ہے۔

دہشت گردوں کے پاس سے برآمد ہونے والے اسلحہ و کیمیکل اور جدید آلات و مشینری کا جائزہ لینے والے ماہرین ایک نظر میں جان گئے ہوں گے کہ افغانستان میں طالبان کے گروہوں کیخلاف برسرجنگ غیر ملکی فوجوں کے پاس دستیاب رسد سے یہ گولہ بارود اور ہلاکت خیز مواد کیسے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والوں کی دسترس تک پہنچا، اس لئے کئی بار حکومت سے درخواست کی گئی کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کی نگرانی بہتر بنائی جائے۔ شنید ہے کہ اب حکومت نے اس جانب توجہ دی ہے، دہشت گردوں اور غیر قانونی مہاجرین کے پاکستان میں داخلے کی ر وک تھام کیلئے پاک افغان طورخم بارڈر پر بائیو میٹرک سسٹم نصب کر دیا گیا ہے اور ایسا ہی نظام باجوڑ ایجنسی میں بھی جلد نصب کر دیا جائے گا۔

اگر ہمارے حکمران دس سال سے جاری جنگ میں ابھی تک اپنے دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں تو پھر آئندہ کیا توقع کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ رو و رعایت کا سلسلہ ختم کرکے فیصلہ کن جنگ لڑی جائے جو لوگ ہمارے خلاف ٹنوں بارودی مواد اور مہلک ہتھیار اکٹھے کئے بیٹھے ہیں، وہ ہمارے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟ جو ہماری مذاکرات کی پیشکش کو بار بار ٹھکرا دیتے ہیں، ان سے اچھائی کی امید کیوں؟ ہمیں باور ہو جانا چاہئے کہ ہمارے دشمنوں سے ساز باز کرکے ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرنے والے کبھی ہمارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کیوں؟ وزیراعظم پاکستان کو کوئٹہ، لاہور میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے برآمدہ سازوسامان کے بعد اب کسی نئی آپشن کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کی بقاء و سلامتی کیلئے ہمیں اپنے دشمن کے ساتھ اسی طرح کا بے رحمانہ سلوک کرنا پڑے گا، جیسا وہ ہمارے ساتھ کرنے پر عمل پیرا ہے۔ گولہ بارود کے مقابلے میں دشمن کو پھلجھڑیاں پیش کرنے کا تصور اپنی ہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 294684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش