0
Wednesday 30 Jun 2010 14:17

ٹورنٹو میں اوباما منموہن ملاقات اور ہماری سلامتی کو لاحق خطرات،امریکہ اور بھارت کبھی ہمارے خیرخواہ نہیں ہوسکتے

ٹورنٹو میں اوباما منموہن ملاقات اور ہماری سلامتی کو لاحق خطرات،امریکہ اور بھارت کبھی ہمارے خیرخواہ نہیں ہوسکتے
 امریکی صدر باراک حسین اوباما نے کہا ہے کہ بھارت نہ صرف اپنے خطے بلکہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور اس حوالے سے اس پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔وہ قیام امن کیلئے عالمی برادری کے ساتھ ملکر کام کرے۔گزشتہ روز ٹورنٹو میں G-20 سربراہ اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کے موقع پر اوباما نے کہا کہ ان کے دوست منموہن غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں،اور جب وہ بولتے ہیں،تو پوری دنیا انہیں سنتی ہے۔
 بھارتی وزیراعظم نے اس موقع پر پاکستان سے دہشت گردی کیخلاف مزید اقدامات کا تقاضہ کیا اور کہا کہ جب تک پاکستان دہشت گردوں کی مدد ختم نہیں کرتا،اس وقت تک مذاکرات بامعنی نہیں ہو سکتے۔ذرائع کے مطابق اوباما سے ملاقات کے دوران بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کیخلاف شکایات کے انبار لگا دئیے اور کہا کہ اسلام آباد اپنی سرزمین پر بھارت کیخلاف اٹھنے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے اپنی ذمہ داری پوری کرے،اور حافظ سعید جیسے عناصر کو لگام دے،کیونکہ ان کی سرگرمیاں پاکستان بھارت تعلقات کیلئے بہتر نہیں ہیں۔دوسری جانب اوباما نے سربراہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ عراق کی طرح افغان مسئلہ کا بھی بالآخر سیاسی حل نکالنا ہو گا، جس کیلئے پاکستان کے اقدامات مفید ہیں۔انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی کے مفاہمتی عمل کی بھی حمایت کی۔
جب واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیکر اسکے ساتھ اب تک ایک سو سے زائد دفاعی اور اقتصادی تعاون کے معاہدے کئے جا چکے ہیں،اور ایٹمی تعاون کے معاہدے کے تحت اسے جدید ایٹمی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کر کے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی راہ اختیار کی جاچکی ہے،تو ہمیں خود کو امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر بھی امریکہ سے کسی عنائت یا مہربانی کی توقع نہیں رکھنی چاہئے،کیونکہ اس خطہ میں امریکہ، بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑ تو درحقیقت ہماری تباہی کیلئے ہوا ہے۔اوباما نے تو اس ماہ کے آغاز میں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر ان کے اعزاز میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے عشائیہ میں اچانک اور بن بلائے شریک ہو کر بھی بھارت کے ساتھ اپنے فطری اتحادی ہونے کا ثبوت فراہم کیا تھا،اور اس وقت بھی انہوں نے بھارت کو دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت قرار دیا اور اپنی بے پایاں خوشی کے اظہار کے ساتھ انہوں نے اپنے اہل خانہ سمیت اس سال نومبر میں بھارت جانے کا اعلان کیا۔
 اس لئے اب اگر انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے موقع پر بھی بھارت کیلئے وارفتگی کا اظہار کیا ہے،اور منموہن کو اپنا دوست قرار دیکر انہیں دنیا کی ابھرتی طاقت ظاہر کیا ہے،تو اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں جبکہ اوباما منموہن ملاقات میں ’’من ترا حاجی بگویم،تو مرا ملاّ بگو‘‘ والی پیدا شدہ فضا سے ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے،کہ امریکہ بھی ہمارے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے ہمارا بھارت جیسا ہی دشمن ہے،اور ہماری سالمیت کیخلاف امریکہ بھارت مقاصد بھی مشترکہ ہیں۔
اسی تناظر میں امریکہ کو ہمارے چین سے ایٹمی معاہدہ کرنے اور برادر اسلامی ملک ایران سے گیس پائپ لائن کے معاہدے پر عملدرآمد شروع کرنے پر سخت اعتراضات ہیں اور اس کی جانب سے ہمیں ان دونوں معاہدوں کو روبہ عمل نہ لانے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے،حالانکہ یہ دونوں معاہدے ہمارے توانائی کے سنگین بحران سے عہدہ برآ ہونے کیلئے طے ہوئے ہیں۔مقصد صرف ہماری اقتصادی ترقی اور دفاعی صلاحیتوں کے آگے بند باندھنا ہے،جو درحقیقت ہمارے مکار دشمن بھارت ہی کا ایجنڈا ہے جسے اب امریکہ،بھارت گٹھ جوڑ کی بنیاد پر مکمل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔اسکے برعکس نہ صرف امریکہ نے خود بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کے متعدد معاہدے کئے اور بھارت کی ایٹمی صلاحیتوں کو ایٹمی عدم پھیلائو کے کسی عالمی معاہدے کے تابع نہیں ہونے دیا،بلکہ فرانس،روس، برطانیہ،جاپان اور اسرائیل تک سے بھارت کے طے پانیوالے ایٹمی تعاون کے معاہدوں پر کوئی اعتراض کیا اور نہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ اب بھارت نے کینیڈا کے ساتھ بھی سول ایٹمی تعاون کا معاہدہ کر لیا ہے،جس کی بنیاد پر بھارت کینیڈا سے یورینیم اور دوسرا ایٹمی سامان بھی درآمد کرسکے گا۔یہ معاہدہ بھی G-20 سربراہ کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر اوباما کی موجودگی میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور کینیڈین وزیراعظم سٹیفن ہارپر کے مابین طے پایا ہے،اور اس موقع پر کینیڈین وزیراعظم نے بھارت کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے،مگر اوباما کو اس معاہدے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا،جس سے امریکہ بھارت ملی بھگت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ پاکستان ایک جانب تو دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا تابعدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے،اور دوسری جانب بھارت دہشت گردی کا سارا ملبہ ہم پر ڈالتے ہوئے دنیا میں ہمارا امیج ایک دہشت گرد ریاست کا بنانے پر تلا ہوا ہے۔حالانکہ کشمیر میں وہ خود ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے اور خود مسئلہ کشمیر یو این میں لے جانے کے باوجود اب اسے اپنا اٹوٹ انگ قرارد دیتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری سے منکر ہے اور امریکہ سمیت یو این خاموش ہے۔بھارتی وزیراعظم نے اوباما کے ساتھ ملاقات میں بھی ہمارے خلاف یہی شور و غوغا کیا اور اوباما ہی کی زبان میں ہمیں دہشت گردی کیخلاف فدویانہ کردار ادا کرتے رہنے کی بھی تلقین کی جبکہ ہم پر دہشت گردوں کی حمائت کرنے کا الزام بھی عائد کر ڈالا،حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس خطہ میں دہشت گردی کا سارا ماحول بھارت کا اپنا پیدا کردہ ہے،جبکہ امریکہ کی جانب سے اس خطہ میں مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کی شروع کی گئی جنگ سے دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے چنانچہ افغانستان میں نیٹو افواج کی کارروائیوں اور ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں اور امریکی ایماء پر شروع کئے گئے،فوجی آپریشن کے ردعمل میں ہم خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں نیٹو افواج کی پے درپے ناکامیوں اور بھاری جانی و مالی نقصانات کا جائزہ لیکر ہی اوباما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افغان مسئلہ کا بالآخر سیاسی حل نکالنا ہو گا جس کیلئے وہ پاکستان اور افغانستان کے مفاہمتی کردار کے متمنی ہیں۔وہ امریکی مفادات کی اس جنگ میں امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کے مزید جانی و مالی نقصان کے تو متحمل نہیں ہو رہے،مگر ہمیں اس آگ میں جھونکے رکھنا چاہتے ہیں،جبکہ ہمارے مکار دشمن بھارت کو شہ دیکر اور اس کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر کے بھی اس نے ہماری سالمیت کو سنگین خطرہ لاحق کررکھا ہے۔
اس صورتحال میں اس خطہ میں قیام امن کا واحد راستہ نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کا ہے۔ اگر ہماری جانب سے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کر دیا جائے اور نیٹو افواج کی ہر قسم کی سپلائی بند کر دی جائے،تو شکست خوردہ نیٹو افواج کے پاس واپسی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہے گا،اس لئے ہمارے حکمرانوں کو ملک کی سالمیت کیخلاف امریکی بھارتی عزائم کو بھانپتے ہوئے قومی مفادات کے تقاضوں کے مطابق اپنی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں اور اس مکار دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے اپنے گھوڑے تیار رکھنے چاہئیں،جو ایٹم بم کی شکل میں ہماری حفاظت و سلامتی کے ضامن ہیں۔ نیٹو افواج نے تو اب افغانستان سے واپس جانا ہی جانا ہے،کیونکہ افغان دھرتی پر آج تک کسی غیرملکی کے قدم نہیں جم سکے۔ہمیں اب اپنے دشمن بھارت کی سازشوں سے ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ نیٹو افواج کے جانے کے بعد وہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے اور یہ صورتحال ہماری سالمیت کیخلاف پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 29619
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش