0
Wednesday 25 Sep 2013 13:37

دہشتگردی اور پس پردہ مقاصد

دہشتگردی اور پس پردہ مقاصد
تحریر: تصور حسین شہزاد

پشاور میں کوہاٹی گیٹ کے قریب چرچ پر خودکش حملہ نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ میڈیا میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں جبکہ طالبان کی ذیلی تنظیم ’’جنود الحفضہ‘‘ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ان دھماکوں میں 16 کلو گرام بارودی مواد اور بال بیرنگ استعمال کئے گئے۔ دھماکے اس وقت ہوئے جب 600 کے قریب مسیحی افراد اتوار کی دعائیہ تقریب ختم ہونے پر خرچ سے باہر نکل رہے تھے۔ سکیورٹی انجنسیز کے مطابق پشاور میں خودکش دھماکوں کی حکومت کو پیشگی اطلاع دی جاچکی تھی مگر صوبائی حکومت خاطر خواہ حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔ سانحہ پشاور میں مسیحی بھائیوں کی ایک کثیر تعداد کی بم دھماکوں میں ہلاکتوں پر پورے پاکستان میں سوگواری کا عالم ہے۔ اس واقعے پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور دنیا بھر میں اس المناک سانحہ کی مذمت کی جا رہی ہے۔

وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے روانہ ہوچکے تھے، جب لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر انہیں اس سانحہ کی اطلاع دی گئی تو وزیراعظم نے فوراً ردعمل میں اسے انسانیت کیخلاف ایک مذموم واقعہ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کیساتھ مجوزہ مذاکرات کھٹائی میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ شدت پسندوں نے اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے مذاکرات کے عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وزیراعظم نے دکھی لہجے میں کہا کہ ہم نے تو نیک نیتی کیساتھ طالبان سے مذاکرات کی بات چلائی تھی مگر افسوس دہشت گردوں نے بے گناہ اقلیتوں پر حملے کرکے ہمیں اس سمت میں پیشرفت سے قاصر کر دیا ہے۔ وزیراعظم کی بوجھل دل سے دی گئی رائے خاصی وزن دار ہے۔ طالبان نے حکومت پاکستان کی قیام امن کیلئے مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں جس طرح اپنی منفی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی میں تیزی پیدا کی ہے، اس سے بدیہی طور پر یہی لگتا ہے کہ انہیں پاکستان کی قیام امن کی کوششوں سے کوئی سروکار نہیں اور وہ پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر پوری تندہی سے عمل پیرا ہیں۔

اس وقت جو لوگ طالبان کیخلاف فوجی کارروائی کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں، ان کا استدلال مضبوط اور منطقی ہے کہ ہماری نرم خوئی کے مقابلے میں طالبان کا جارحانہ رویہ ان کے منفی عزائم کا آئینہ دار ہے، اس لئے ایسے لوگوں کے ساتھ بات کرنا جو انسانی خون کی ارزانی کا کاروبار کرتے ہوں اور جنہیں کسی مذہب، اخلاقیات یا کسی تہذیب کی ہوا نے چھو کر نہ دیکھا ہو، وحشت و بربریت کے علمبردار حیوانوں سے بدتر یہ لوگ صرف ہتھیاروں کی زبان بولتے اور سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ان سے انہی کی زبان میں گفتگو کرنا ہی بہترین طریقہ ہے۔ ڈسپرین کی گولی سے کینسر کا علاج ناممکن ہے۔ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے ہر قیمت پر حکومت کو ان کیخلاف سخت ترین فوجی کارروائی کرنا پڑے گی۔ دنیا میں ریاست کی حاکمیت تسلیم کروانے کیلئے ریاستی طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔ دہشت گرد جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں صرف بندوق بولتی، بم مکالمہ کرتے اور پٹاخے ہنستے ہیں، آگ و خون کے دہکتے الاؤ پر مذاکرات کی ہنڈیا کاٹھ کی ہنڈیا ثابت ہوگی۔ اس لئے بہتر ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے ہمدردوں کو سمجھائے کہ جب ان کے ممدوح اپنے رویے پر نظرثانی کرکے مجرمانہ سرگرمیاں ترک کرنے کو تیار نہیں تو پھر وہ حکومت کو کیوں ریاستی طاقت کے استعمال سے روک رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل کا اشارہ ملنے کے بعد سے دہشت گردوں نے اعلٰی فوجی حکام اور پھر گرجا گھر پر حملہ کرکے انسانی خون کی ہولی کھیل کر ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے میں ذرا تامل نہیں کیا تو پھر اتنے بے حس اور پتھر کے زمانے کے لوگوں سے گفت و شنید چہ معنی دارد۔؟ جنود جند الحفضہ، مبینہ طور پر القاعدہ کا پاکستانی گروہ ہے، جس نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بھارت، اسرائیل اور امریکہ سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے، ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس اس بات کے مبینہ شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کیلئے یہ تینوں ملک ایک طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور اس کیلئے انہوں نے طالبان کے مختلف گروہوں اور القاعدہ سے باقاعدہ سازباز کر رکھی ہے۔ امریکی سی آئی اے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈرون حملے کرکے دہشت گردوں کو حملوں پر اکساتے ہیں، بھارت اور اسرائیل ان دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت اور اسلحہ دیتے ہیں، جہاں سے یہ مسلح گروہ پاکستانی حدود میں داخل ہو کر دہشتگردی کی وارداتیں کرکے بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلاتے ہیں۔

جب سے میاں نواز شریف کی حکومت آئی ہے طالبان نے 101 دنوں میں سو سے زیادہ دہشت گردی کی وارداتیں کرکے سینکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اور اس میں مرد و زن، طفل و پیر اور مذہب و ملت کی کوئی تخصیص روا نہیں رکھی۔ وزیراعظم نواز شریف کے ہر بار بیرونی دورے کے موقع پر دہشت گردی کی وارداتیں بھارت و اسرائیل کی طرف سے پاکستانی حکومت کے سربراہ کو عالمی سطح پر ہزیمت سے دوچار کرنے کی ناپاک سازشیں ہیں۔ خاص طور پر امریکہ کے دورے پر وزیراعظم کی روانگی والے دن پشاور میں گرجا گھر پر حملہ تو باقاعدہ میاں نواز شریف کے دورۂ امریکہ کو بے ثمر کرنے کی گھناؤنی واردات تھی، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس دورے کے آغاز پر ہی امریکی جریدے میں کراچی کے حوالے سے نہایت لغو انداز میں رپورٹ کی اشاعت بھی پاکستان دشمن قوتوں کے عزائم کی نشاندہی کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں پھیلی لاقانونیت اور تشدد پاکستان کو ایک ناکام ریاست ظاہر کرتا ہے، اگر حکومت اس شہر کیلئے مستقل بنیادوں پر اصلاح احوال کا انتظام نہ کرسکی تو پھر وہ پورے ملک کیلئے کیا سکیورٹی مہیا کرسکے گی۔

اس زہریلے پراپیگنڈے سے فوری ملنے والا تاثر یہی ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنیوالوں کے مقاصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی نہ کسی طرح ایٹمی طاقت کے حامل اس واحد اسلامی ملک کو ایک ناکام ریاست ثابت کرکے اقوام عالم سے اس کی ایٹمی صلاحیت پر شب خون مارنے کی اجازت حاصل کی جائے۔ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کینہ شتر رکھتا ہے، وزیراعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کے معاملے میں اس واحد سپر پاور کی ترغیبات و دھمکیوں کو خاطر میں نہ لا کر ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا جو جرات مندانہ اقدام کیا تھا، اس سے امریکہ کو دنیا بھر میں جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ ابھی تک اس تذلیل کا زخم سینے سے لگائے ہوئے موقع کی تاک میں ہے کہ وہ پاکستان بالخصوص میاں نواز شریف سے اپنی اس ہزیمت کا بدلہ لے۔

واقفان درون خانہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو حکومت میں بھی اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے لایا گیا ہے کہ انہی سے ایٹمی پروگرام رول بیگ کرایا جائے۔ ان کی حکومت قائم ہوتے ہی آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستانی معیشت کو جکڑ بندیوں کا شکار کرکے عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں ڈبونے اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے کے پس پردہ محرکات میں سے اولین نواز حکومت کو عوام حمایت سے محروم کرکے اسے اپنے رحم و کرم پر لینا اور اس سے اپنے من پسند فیصلے کرانا ہے، جن میں سرفہرست خطے میں بھارت کی بالادستی تسلیم کروانا، اسرائیل سے تعلقات کی داغ بیل ڈالنا، افغانستان میں امریکی نگرانی میں قائم حکومتی سیٹ اپ پر رضا مندی لینا، پاکستان میں وفاق کی جگہ چاروں صوبوں کی کنفیڈریشن بنوانا اور سب سے اہم ایٹمی پروگرام باقاعدہ ختم کروا کے ایٹمی آلات کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں پاکستان سے نکال لے جانا ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان دشمن قوتیں طالبان اور القاعدہ کو بھاری معاوضے پر ایجنٹوں کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور انہیں اندرون پاکستان سے مذہبی جماعتوں کی حمایت دلوانے کیلئے مبینہ طور پر بے دریغ پیسہ خرچ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کو طالبان ہمدردوں کے اس دوغلے پن کو پہچان کر فوری طور پر دہشت گردی کیخلاف فوجی کارروائی کیلئے ایک ہو جانا چاہئے کہ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
خبر کا کوڈ : 305154
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش