0
Thursday 26 Sep 2013 00:10

اخوان المسلمون کے نظریاتی حامیوں کا امتحان

اخوان المسلمون کے نظریاتی حامیوں کا امتحان
تحریر: محمد علی نقوی

مڈل ایسٹ مانیٹر نامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ آل سعود کے حکام نے صیہونی حکومت کی سفارتکاری کی حمایت کرکے مصر میں فوجی بغاوت کو کامیاب بنایا ہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر نے لکھا ہے کہ جس طرح سے آل سعود نے مصری عوام کے انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کو مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی حمایت کرنے کی ترغیب دلائی تھی اسی طرح آج مصر نے صیہونی حکومت کی سفارتکاری کی حمایت کرتے ہوئے مصر کی فوجی بغاوت کی ہدایت کر رہی ہے۔ برطانیہ کی نیوز ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ آل سعود اپنے پٹرول کی دولت سے دنیا کے مختلف علاقوں میں موت کا بازار گرما رہی ہے اور مختلف ملکوں میں تباہی اور ویرانی پھیلا رہی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق شام میں جنگ کے شعلے بھڑکانے کی ذمہ دار بھی آل سعود ہی ہے اور لبنان میں دہشتگردانہ بم دھماکوں کا الزام بھی آل سعود پر ہی عائد ہوتا ہے۔ 

مڈل ایسٹ مانیٹر نے لکھا ہے کہ اسلامی ملکوں میں عوامی تحریکوں کے شروع ہونے کے بعد سعودی صیہونی اتحاد روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور سعودی و صیہونی حکومتیں عوامی تحریکوں کو ناکام بنانے کے لئے ہمہ تن سرگرم عمل ہیں۔ اس اخبار نے سعودی اور صیہونی حکومتوں کو علاقے کی ڈکٹیٹر حکومتيں قرار دیا۔ برطانیہ کی اس ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ آل سعود اپنے پیسے سے نہ صرف علاقے کو نابودی کی طرف دھکیل رہی ہے بلکہ یہ پیسہ ان ذارئع ابلاغ کی جیبوں میں بھی جا رہا ہے سعودی عرب کی ڈکٹیشن کے تحت آل سعود کے مفادات اور قومی و فرقہ وارانہ تعصب نیز نفرت پھیلانے کے اھداف کے لئے کام کر رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے سعودی عرب نے مصر کی فوج کی حمایت کرتے ہوئے مصر کے پہلے منتخب صدر کی عوامی حکومت کو گرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ بعض ذرائع نے یہ بھی رپورٹ دی تھی کہ سعودی عرب نے مصر کی فوج کے سربراہ جنرل السیسی کو صدر محمد مرسی کی حکومت گرانے کے لئے ایک ارب ڈالر رشوت دی تھی۔
 
امریکہ اور یورپی ملکوں کی پالیسی ہمیشہ کی طرح دوغلی ہے۔ وہ پوری طرح سے جنرل السیسی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہیں صدر مرسی کی بحالی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں مصر کے عوامی مینڈیٹ کے غصب ہونے کا کوئی افسوس نہیں۔ انہیں مصری عوام کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں دہائیوں بعد ملک میں بحال ہونے والی جمہوریت کے قتل کا کوئی ملال نہیں۔ اگر فرانس، جرمنی، امریکہ اور برطانیہ مصری عوام کی سرکاری فورسز کے ہاتھوں ہلاکت پر افسوس کناں ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ خوف ہے کہ اس طرح کا کھلا قتلِ عام اخوان المسلمون کو مزید مقبول بنانے کا باعث نہ بن جائے۔ امریکہ اور یورپی ممالک ہر قیمت پر اخوان حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، کیونکہ مشرق وسطٰی کے لئے ان کے تخلیق کئے گئے نقشے میں اخوان المسلمون کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ وہ اس تحریک کا گلا اس کی جنم بھومی ہی میں گھونٹ دینا چاہتے ہیں۔
 
ترکی کے سوا مصر کے پڑوسی مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب کا رویہ بھی ناقابلِ فہم ہے۔ صدر مرسی مصر کی پچھلی 40 سالہ تاریخ کے واحد مقبول صدر ہیں۔ لیکن یہی صدر مرسی پورے ایک سال تک مصر کی معاشی مدد کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت پڑوسی مسلم خلیجی ممالک کے دروازوں کے دھکے کھاتے رہے، لیکن کسی جگہ سے بھی ان کی مدد کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جنرل السیسی کی زیرنگرانی بننے والی حکومت کے وزیراعظم کے تقرر سے بھی پہلے ان مسلم خلیجی ممالک کی طرف سے ایک دو نہیں پورے 15 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کر دیا گیا۔ لگتا ایسا ہے کہ اخوان المسلمون کی مقبولیت سے غیر ہی نہیں اپنے بالخصوص آل سعود بھی خائف تھے۔ 

جامعہ الازہر کی جانب سے بھی مظاہرین کے خلاف فوجی تشدد اور ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ یہی حال مصر کی مذہبی جماعت النور پارٹی کا ہے۔ الازہر کی طرح انہوں نے بھی جنرل السیسی کے صدر مرسی کی برطرفی کے فیصلے کی حمایت کی تھی، لیکن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر انہیں بھی افسوس ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ الازہر اور النور پارٹی دونوں کی ساکھ جنرل السیسی کا ساتھ دینے کے باعث بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ محض فوجی تشدد کی مذمت سے ان کی ساکھ کی بحالی ناممکن ہے، اگر وہ واقعی اپنے کئے پر شرمندہ ہیں تو انہیں اخوان کے ساتھ مزاحمت میں شریک ہونا ہوگا، وہ بھی ایسے حالات میں جب مصر میں ایک عدالت نے معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں پر پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اسلامی جماعت، اس کی غیر سرکاری تنظیم اور اس سے وابستہ ہر تنظیم پر لاگو ہوتا ہے۔ 

عدالت نے عبوری حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے اثاثے قبضے میں لے کر اس سلسلے میں کسی اپیل کی شنوائی تک اس کی نگرانی کے لئے ایک پینل تشکیل دے۔ اخوان المسلمون کے اہم رہنما محمد بدیع سمیت کئی سینئر ارکان تشدد اور قتل و غارت پر اکسانے کے الزام میں حراست میں ہیں۔ پچاسی سال پرانی اسلامی جماعت پر مصر کی فوج نے 1954ء میں بھی پابندی عائد کی تھی۔ اخوان المسلمون کے مخالفین نے اس کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چلینج کر رکھا تھا، جس کے نتیجے میں جماعت نے رواں سال مارچ میں خود کو ایک این جی او کے طور پر رجسٹرڈ کروا لیا تھا۔ اخوان المسلمون کے قانونی طور پر رجسٹرڈ سیاسی ونگ، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی، 2011ء میں اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب حسنی مبارک کو مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔ صدر مرسی کی معزولی اور آئین کی معطلی کے بعد قاہرہ میں انتظامی عدالت کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی قانونی حیثیت پر نظرثانی کرے۔ 

آن لائن کے مطابق معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کے تمام اہم رہنماﺅں کی گرفتاری کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت نے معزول صدر محمد مرسی کی پشت پناہ جماعت اخوان المسلمون کے تمام اہم رہنمائوں کی گرفتاری کا بھی حکم دیا ہے، جبکہ ملک بھر میں پہلے ہی ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے، جس کے دوران فوج کی طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا جس طرح جنرل عبدالفتاح السیسی نے خاتمہ کیا اور پھر اخوان کے احتجاج کو جس سفاکی سے کچل دیا، اس عمل کو سخت ناپسند کیا گیا، تاہم سعودی عرب کا مصری فوج کا ساتھ دینا، مصر کی فوری مالی مدد کرنا، اسی طرح خلیجی ریاستوں کی طرف سے بھی عسکری ذہن کی قائم کردہ حکومت کو امداد دینا نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
 
خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب نے اخوانی صدر کی حکومت کے خاتمے کے باوجود جلد ہی مصری فوجی اقدامات کا ساتھ کیوں دیا اور اسکے اسباب کیا ہیں؟ اسکا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔ کہتے ہیں آل سعود کے جد شاہ عبدالعزیز سے اخوان کے بانی امام حسن البناء آکر ملے تھے اور سعودی عرب میں اخوان کے کام کرنے کیلئے اجازت اور تعاون مانگا تو جواب میں شاہ عبدالعزیز نے انہیں کہا کہ سعودی عرب میں سب مسلمان ہیں، سب اخوان ہیں اور نظام بھی شرعی ہے، لہٰذا آپ مصر میں ہی رہیں، اگر تعاون درکار ہے وہاں کیلئے تو وہ مل سکتا ہے۔ طویل مدت تک وزیر داخلہ رہنے والے شہزادہ نایف نے بھی ایک بار بہت تلخی سے کہا تھا کہ جو بھی دہشت گرد سامنے آتا ہے وہ فکری طور پر اخوان سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔؟
 
اس بات سے سعودی ذہن کی اخوان کے حوالے سے تلخ سوچ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کویت میں اخوانی پس منظر کی جمعیت الاصلاح ہے۔ قطر میں اخوانی پس منظر کے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ قطری علماء انکے کافی زیر اثر ہیں اور حکومت پر بھی وہ موئثر ہیں، مصر ہمیشہ سعودی عرب کے نزدیک ایک مخالفانہ کردار رہا ہے۔ یہی تاریخ ہے۔ جنرل جمال عبدالناصر اور شاہ عبدالعزیز میں بھی تصادم رہا۔ حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ میں بھی زیادہ نہیں بنتی تھی۔ عملاً مصر ہمیشہ امریکی اور یورپی یونین کے زیر اثر رہا ہے اور معیشت اور فوجی ساز و سامان میں وہ امریکہ کا ممنون احسان ہے۔ لہٰذا ہمیشہ امریکہ نواز اور اسرائیل نواز پالیسی اپناتا رہا ہے۔ مرسی کے صدر بننے کے بعد بہرحال سعودی عرب نے صدر مرسی کو ریاض بلایا۔ عزت دی اور انکی حکومت کو مالی مدد بھی دی۔ جب وہ منظر سے ہٹ گئے تو سعودی عرب نے یہ زیادہ مناسب جانا کہ فیصلہ ساز فوجی ذہن کا ساتھ دیکر مصر کو دوبارہ سے سعودی اثرونفوذ کا حصہ بنا لیا جائے، یہی وہ اسٹریٹجی ہے کہ شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کو فوج کا مددگار بنا دیا ہے۔
 
حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر یورپی یونین نے مصر کی مالی مدد بند کی تو سعودی عرب مصر کی ساری مالی ضرورتیں پوری کر دے گا۔ گویا سعودی عرب تاریخ میں پہلی بار ہی سہی اس نادر موقع کو ضائع کرنے پر تیار نہیں کہ مصر عملاً اس کے حلقہ اثرونفوذ میں آجائے۔ اب سعودی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ المختصر مصر میں اب اخوان پس منظر میں چلی گئی ہے، اسکی قیادت کو مقید کر دیا گیا ہے اور اخوان کی پارٹی بھی غیر قانونی قرار دی جاچکی ہے، لیکن اس عمل سے عوام میں اخوان کی جڑیں مزید مضبوط ہوسکتی ہیں اور یہ پہلو سعودیہ اور اسکے حواریوں کو شدید نقصان سے دوچار کر دے گا۔ البتہ اس صورت حال میں اخوان کی نظریاتی ہم فکر تنظیموں من جملہ پاکستان کی جماعت اسلامی کو مصلحت کو ترک کرکے سعودی عرب کے خلاف کھل کے اپنے موقف کا اظہار کرنا ہوگا، وگرنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 305488
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش