0
Thursday 26 Sep 2013 08:45

شام کے خلاف امریکی موقف میں اچانک تبدیلی کی وجوہات

شام کے خلاف امریکی موقف میں اچانک تبدیلی کی وجوہات
تحریر: مہدی محمدی

اسلام ٹائمز- شام کے خلاف منڈلاتے ہوئے جنگ کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ امریکہ نے جنگ کے نعرے لگانا بند کر دیئے ہیں اور اب سفارتکاری کی باتیں ہو رہی ہیں، وہ بھی ایک ایسی لانگ ڑم سفارتکاری جس کے اہداف پوری طرح مشخص نہیں اور ان کی اکثریت کلی اور کم اہمیت مقاصد پر مشتمل ہے۔ 
 
امریکی صدر براک اوباما جو ایک ہفتہ قبل جنگ کے حامی صدر کے طور پر سامنے آئے تھے اب میدان سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ چکے ہیں اور اپنے ہینڈز اپ کر چکے ہیں۔ امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کی بدترین بے عزتی کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے انتہائی زور و شور سے اپنے موقف کا اظہار کیا، اپنی طرف سے شواہد پیش کئے اور جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں، دوسرے ممالک کو یہ کہا کہ ہمارا ساتھ دیں ورنہ ہم سے پیچھے رہ جائیں گے۔ امریکی حکومت نے رسمی طور پر اعلان کیا کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی ہو کر رہے گی۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے مقصد کو شام کی حکومت کو سزا دینے سے شام حکومت کی سرنگونی تک بڑھا دیا، شام کے مسئلے کو ایران سے جوڑا اور یہ اعلان کیا کہ وہ شام کے خلاف فوجی اقدام کے ذریعے ایران کو سبق سکھانا چاہتا ہیں۔ اپنی فوجوں کو بحیرہ روم بھیج کر جنگ کی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ اعلانیہ طور پر بعض ممالک میں جنگ کے کمانڈ سنٹرز تشکیل دے دیئے گئے اور اپنے میزائلوں کا رخ شام کی جانب موڑ دیا۔ اسرائیلی اور سعودی حکام نے خوشی کے مارے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔۔۔
 
لیکن اچانک صفحہ پلٹا اور امریکی صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ وہ سفارتی حل کو فوجی حل پر ترجیح دیتے ہیں۔ شام میں طاقت کے توازن میں تبدیلی اور صدر بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی کی جگہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر بین الاقوامی نظارت کی باتیں ہونے لگیں، امریکی کانگریس کو درمیان میں لایا گیا، برطانیہ اور جرمنی نے شام کے خلاف جنگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، روس نے زبردست سفارتکاری شروع کر دی۔ ایران کی جانب سے شدید ردعمل کی دھمکی نے مغربی میڈیا پر ہلچل مچا دی اور اب صورتحال یہ ہے کہ یہ سارا پروجیکٹ امریکہ کیلئے انتہائی بے عزتی اور رسوائی کا سبب بن چکا ہے۔ 
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کا امریکہ فیصلہ حتمی تھا۔ شام پر فوجی حملے پر مبنی امریکی فیصلے کی مختلف وجوہات تھیں جن میں سے کچھ اہم مندرجہ ذیل ہیں:

1.    امریکہ کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ صدر بشار اسد بہت جلد حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کا کام تمام کرنے والے ہیں،

2.    اسرائیل کو یہ یقین ہو چکا تھا کہ صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام اس کیلئے ایک بڑا سیکورٹی خطرہ بننے والا ہے،

3.    سعودی عرب اور اسرائیل کی جانب سے امریکی حکومت پر بے پناہ دباو جن کا خیال تھا کہ امریکہ شام کے معاملے میں خاموش تماشائی بن کر ان کی تمام محنتوں پر پانی پھیر رہا ہے اور شام سے متعلق ان کے منصوبے کو ناکامی کی جانب دھکیل رہا ہے، 

4.    امریکہ اس بات سے خوفزدہ تھا کہ اگر صدر بشار اسد موجودہ بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک انتہائی طاقتور ہو جائے گا اور وہ ایران کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا،

5.    امریکہ نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کو اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ اگر شام کے خلاف فوجی کاروائی نہیں ہوتی تو ایران اور شام کی نظر میں اس کی بنائی ہوئی ریڈلائنز کی کوئی حیثیت باقی نہ رہ جائے گی۔ 
 
ان دلائل کی روشنی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا چیز امریکی موقف اور فیصلے میں تبدیلی کا باعث بنی؟ اور امریکہ نے ان تمام وجوہات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شام کے خلاف فوجی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا؟ اور شام پر فوجی حملے کی بجائے کیمیائی ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے جیسے نچلی سطح کے ہدف کو چننے پر مجبور ہو گیا؟
 
اس تبدیلی کی وہ اہم ترین وجہ جس کے بارے میں بہت کم سننے کو ملا ہے یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی حملے کی صورت میں صدر بشار اسد کے حامی ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کو ان کے دفاع میں ردعمل ظاہر کرنے سے روکنے کیلئے چلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم کی ناکامی ہے۔ امریکہ نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ خفیہ مذاکرات کے ذریعے ایک پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی تھی جس کا مقصد شام کے حامی ممالک بالخصوص ایران کو ڈرا دھمکا کر اس بات پر راضی کرنا تھا کہ اگر شام کے خلاف کسی قسم کی فوجی کاروائی انجام پاتی ہے تو اس کے ردعمل میں کوئی جوابی کاروائی انجام نہ دی جائے ورنہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ 
 
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جن کو جان بوجھ کر چھپایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی صدر براک اوباما نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا فیصلہ امریکی کانگریس کے حوالے کیوں کیا؟ ان کے اس اقدام کی انتہائی اہم وجہ شام کے خلاف ہر قسم کی فوجی کاروائی کرنے سے پہلے مزید وقت حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے اس مدت میں ایران سمیت شام کے کئی حامی ممالک کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس کا اصلی مقصد انہیں اس بات پر راضی کرنا تھا کہ شام کے خلاف فوجی حملے کی صورت میں وہ خاموش تماشائی بنے رہیں اور اس جنگ میں شریک نہ ہوں۔ 
 
امریکہ اس خام خیالی کا شکار تھا کہ اگر وہ شام کے اتحادی ممالک جیسے ایران کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کی صورت میں وہ کوئی جوابی کاروائی انجام نہ دیں اور اسے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ شام کے حامی ممالک صدر بشار اسد کے دفاع میں میدان میں نہیں اتریں گے اور شام کے خلاف فوجی کاروائی ایک ایسی بڑی جنگ میں تبدیل نہیں ہو جائے گی جو تمام خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہو تو وہ نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ یہ فوجی کاورائی انجام دے سکتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ ان مذاکرات کا نتیجہ بالکل الٹا نکلا۔ خاص طور پر ایران نے امریکہ کو واضح طور پر بتا دیا کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کی صورت میں خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا اور ایسا کام کرے گا کہ یہ فوجی حملہ خطے میں امریکہ کی آخری شرارت ثابت ہو جس کے بعد اسے خطے میں پاوں رکھنے کی جرات بھی نہ ہو۔ جب امریکہ نے محسوس کیا کہ شام کے خلاف بغیر کسی نقصان اور سستے داموں فوجی کاروائی کرنے کا کوئی امکان نہیں اور دوسری طرف ایران کے پاس اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی جرات بھی ہے اور صلاحیت بھی، تو وہ اپنے موقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گیا اور شام کے خلاف فوجی حملے کی فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا۔ 
 
درحقیقت اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کو مندرجہ ذیل امور کے بارے میں یقین دلوا دیا:
1.    شام اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے امریکہ کی محدود فوجی کاروائی کا جواب ایک وسیع اور نامحدود حملے کی صورت میں دیا جائے گا، 

2.    شام کے خلاف فوجی حملے کے اہداف کبھی بھی پورے نہیں ہوں گے اور اس کے اخراجات بھی اس مقدار سے سینکڑوں برابر زیادہ ہوں گے جس کا انہوں نے اندازہ لگا رکھا ہے،

3.    اسلامی جمہوریہ ایران شام کے خلاف فوجی کاورائی کی صورت میں امریکہ کے ساتھ جاری باقی تنازعات جیسے نیوکلیئر پروگرام میں بھی نظرثانی کرے گا، 

4.    اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ یہ فوجی کاروائی ایک ایسی جنگ میں تبدیل ہو جائے جس کو کنٹرول کرنا دونوں فریقوں کیلئے ناممکن ہو جائے، 

5.    اسلامی مزاحمتی بلاک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو زک پہنچانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور وہ عملی میدان میں ایسا کر کے دکھائے گا،

6.    ایران میں اندرونی طور پر شام کے خلاف فوجی کاروائی کی صورت میں امریکہ کے خلاف جوابی کاروائی کرنے کے بارے میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے۔ 
 
مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں امریکہ نے اسی میں اپنی صلاح جانی کہ روس کی جانب سے پیش کردہ منصوبے پر ہی اکتفا کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ منصوبہ روس نے کئی سال قبل پیش کیا تھا جس کے مطابق خطے میں موجود بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ انجام پانا تھا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی اس منصوبے سے بے اعتنائی برت رہے تھے۔ لیکن اب جب امریکہ نے اپنے سامنے تمام راستوں کو بند دیکھا تو فورا ہی اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے شام کے مسئلے کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کی باتیں کرنے لگا۔ 
 
ان واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے اور دشمن کی صلاحیتوں کو درست طور پر دیکھنے کی پالیسی وہ بنیادی رکن ہے جو اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے جنگ طلب ممالک جیسے امریکہ اور اسرائیل کو کنٹرول کرنے میں انتہائی موثر اور مفید ثابت ہوا ہے۔ یہ وہ اسٹریٹجی ہے جس کا کوئی نعم البدل بھی نظر نہیں آتا۔ 
خبر کا کوڈ : 305528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش