0
Saturday 24 Jul 2010 23:24

ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ

ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ
 آر اے سید
اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے امریکہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے ایران کے خلاف تیار کی جانے والی مختلف سازشوں سے پردہ اٹھایا ہے،ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے ایران کے خلاف امریکہ اور صیہونی حکومت کی نفسیاتی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے مشرق وسطٰی کے دو ایسے ملکوں کو حملوں کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے،جو ایران کے دوست ہیں۔تاکہ اس اقدام سے ایران کو جنگ اور حملوں سے خوفزدہ کر کے جھکنے پر مجبور کیا جا سکے۔
ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے روس کے صدر مددیوف کے حالیہ بیان کو اسی سازش کا حصّہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں افسوس کہ روسی صدر بھی سازشیوں کے جال میں آکر انکے ہمنوا ہو گئے ہیں۔روسی صدر نے بارہ جولائی کو مختلف ممالک میں تعیینات روسی سفراء سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ایران اسطرح آ گئے بڑھ رہا ہے کہ وہ ایٹمی اسلحے بنانے کے لئے مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے قریب پہنچ جائے گا۔روسی صدر کا یہ بیان ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ بوشہر کے ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے روس ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کافی حد تک آگاہ ہے،اسی طرح آئی اے ای اے بھی کئے مرتبہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ہرقسم کے انحراف سے مبرا قرار دے چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ روسی صدر کا یہ موقف ایران کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے بننے والے ماحول سے متاثر ہونے اور ایران کے خلاف شروع کی جانے والی نفسیاتی جنگ میں شریک ہونے کی بنیاد پر ہے۔یہ نفسیاتی جنگ ایسے حالات میں جاری ہے کہ روس،امریکہ،فرانس اور آئی اے ای اے پر مشتمل ویانا گروپ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1979 کی منظوری سے پہلے ایران سے نئے دور کے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے تحریری درخواست کر چکا تھا۔اسی کے ساتھ ساتھ ایران کی قومی سلامتی کی کونسل کے سیکریٹری جنرل سعید جلیلی نے بھی چھ جولائی کو یورپی یونین کی مذاکرات کی دعوت کے جواب میں کہا ہے کہ ایران نے سن دو ہزار آٹھ میں یورپی یونین کو جو مجوزہ پیکج دیا تھا،ایران اس کی روشنی میں مذاکرات کے لئے تیار ہے۔
ایران کی طرف سے مختلف مواقع پر یہ موقف پیش کیا گيا ہے کہ اگر یہ طے ہو کہ علاقائی تعلقات کی روشنی میں ایٹمی مسئلے کو حل کیا جائے،تو یہ حل دو طرفہ مطالبات اور تحفظات نیز این پی ٹی معاہدے میں موجود شقوں کی روشنی میں ہونا چاہئے اور بلاشبہ تہران اعلامیہ میں اعلی سطحی پر گفتگو اور مذاکرات کے مواقع مہیا کر دیئے گئے ہیں۔سیاسی تجزیہ کار ایران کے خلاف دہری پالیسیوں یعنی ایک طرف پابندی کی قراردادیں اور دوسری طرف مذاکرات کی باتوں کو گاجر اور چھڑی کی سامراجی پالیسی سمجھتے ہیں۔
اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ یورپی یونین اور روس،ایران کے ساتھ دوطرفہ مفادات کی بناء پر امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کا ساتھ دیکر کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے،کیونکہ اقتصادی پابندیاں،قراردادیں اور کھوکھلی دھمکیاں نہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈال سکیں بلکہ اس سے ایرانی عوام میں اپنے ایٹمی حقوق کے حصول کا جذبہ مزيد مضبوط ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 32071
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش