0
Monday 18 Nov 2013 00:01

بے گناہوں کی تلاش

بے گناہوں کی تلاش
تحریر: عمران خان

پلید اذہان سے پاک، پاک لوگوں کی سرزمین پاکستان میں بھائی چارے کی حقیقی صورتحال محض اتنی ہی ہے کہ یہاں پاک دین اسلام کے پیروکار اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ بیوروکریسی عوام کو چارے کے طور پر استعمال کرتی ہے اور دین کے نام نہاد چمپیئن اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد سے ملت میں تفریق کے بیج بونے کے بعد مسالک میں بٹی اسی قوم کے جوانوں کو اب چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ روز عاشور راولپنڈی میں مسجد، مدرسہ، امام بارگاہوں اور مارکیٹوں میں جو آگ لگائی گئی، اس کی آنچ پر کئی علماء اور افسران سیاسی اور ذاتی مفادات کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ کون ہے جو حقائق سے نابلد ہو مگر بیان کرنے کی ہمت کہاں ہے۔ 

اگر کوئی ہمت کرے بھی سہی تو اس کا اپنا حقہ پانی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ راولپنڈی ہی کیا پورے پنجاب کو ہی شیعہ سنی فسادات کی آگ میں جھونکنے کی ناپاک سازش کی گئی۔ سازش کی ابتدا بھونکنے والوں نے کی۔ ویسے مولانا فضل الرحمان نے جب سے بھونکنے والوں کو جنت کی نوید سنائی ہے، ان کا شرعی مقام (مولانا کی نظر میں )بلند ہوتا جا رہا ہے اور ان کی بھونک بھی کچھ اضافی ہے۔ راولپنڈی میں حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس، رینجرز، فوج تینوں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ویسے شرفاء کسی کے کردار پر کیچڑ نہیں اچھالتے لیکن ایک ہی شہر میں ایک ہی وقت میں 6 امام بارگاہوں پر حملہ، مارکیٹ میں آتشزدگی اور سرکاری اسلحہ سے نکلی گولیوں سے 11 ہلاکتیں کچھ اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان تو ہیں، لیکن کیا کریں کہ جب کسی کی جانب ایک انگلی اٹھائیں تو چار انگلیاں اپنی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
 
8 محرم الحرام کو سوشل میڈیا کے ذریعے جب ایک مخصوص جماعت نے اپنے لوگوں کو روز عاشور راجہ بازار پہنچنے کی کال دی اور اس کال میں انھیں اپنے ساتھ اسلحہ لانے کی بھی ہدایت کی تو اس وقت انٹیلی جنٹس اور انتظامیہ نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ جلوس عزا عین جمعہ کے خطبے کے دوران ہی مسجد کے سامنے کیسے موجود تھا۔ انتظامیہ اوقات میں ردوبدل کرسکتی تھی۔ پاکستان بھر میں جہاں جہاں نماز جمعہ کا خطبہ دیا جاتا ہے، اس کا ریکارڈ مقامی انتظامیہ کے پاس موجود ہوتا ہے، کیا روز عاشور مسجد غلام اللہ کے اس متنازعہ خطبے کا ریکارڈ موجود ہے۔ پتھراؤ کے بعد ہونے والی فائرنگ سے تقریباً سات افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ حیران کن امر ہے کہ یہ تمام لوگ سرکاری گولیوں کا نشانہ بنے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مدرسے کی چھت پر موجود اہلکاروں سے طلباء نے اسلحہ چھینا اور جلوس کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں سے شرکاء نے اسلحہ چھینا۔ جو سپاہی اپنے ہتھیار کی حفاظت نہیں کرسکتے، وہ اتنے بڑے عوامی اجتماعات کی حفاظت کیسے کرسکتے ہیں۔ ان پولیس اہلکاروں کو سب سے پہلے شامل تفتیش کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے اپنے ہتھیار دوبارہ مال خانے میں جمع نہیں کرائے۔

اس واقعہ کے بعد تقریباً ایک ہی وقت میں چھ امام بارگاہوں پر باقاعدہ حملہ ہوا۔ انتہائی سخت ناکہ بندی، موبائل سروس کی بندش، جگہ جگہ جامہ تلاشی اور متحرک سرکاری اداروں کی موجودگی میں یہ حملے ناممکن حد تک مشکل تھے۔ انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی راولپنڈی کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ ملتان، چشتیاں سمیت پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آئی۔ جہاں جہاں عاشور کے مرکزی جلوسوں میں شرپسندوں کی جانب سے بے جا اور قابل مذمت مداخلت کی گئی، وہاں وہاں انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔

پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی نے سانحہ راولپنڈی کو انتظامیہ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے موقع پر موجود افسران کو مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے اپنے بیان میں ہوم سیکرٹری کے ساتھ ہونے والی اس میٹنگ کا بھی حوالہ دیا، جس میں انھوں نے جمعہ کے خطبے اور جلوس کی ٹائمنگ کی جانب توجہ دلائی تھی۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ امین شہیدی نے سانحہ کا ذمہ دار ان مخصوص عناصر کو قرار دیا جو ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ کسی کے گلے کاٹے گئے ہوں۔ امین شہیدی صاحب کے بیان کی تصدیق جاں بحق افراد کے میڈیکل رپورٹس سے بھی ہوتی ہے۔
راولپنڈی سے منتخب رکن قومی اسمبلی شیخ رشید نے اپنے بیان میں علماء کے طرز عمل کو مثبت قرار دیا، اب یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے مسجد غلام اللہ کے خطیب کے خطبے کو بھی مثبت قرار دیا ہے یا نہیں۔ شیخ رشید کے مطابق آگ لگانے میں کوئی تیسرا ہاتھ ملوث ہے، جن کا تعلق نہ عزاداروں سے ہے اور نہ ہی مدرسے والوں سے۔ 

ماضی میں قادیانیوں کو اس بناء پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہیں، گرچہ غلام محمد جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا نام سے ہی محمد (ص) کا غلام تھا لیکن اللہ کے غلام (گرچہ اللہ کے غلام نہیں ہوتے بندے ہوتے ہیں) نبوت کے بھی قائل ہیں یا نہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے اور امام عالی مقام کی پہچان کے لیے تو فقط یہی حدیث نبوی (ص) ہی کافی ہے کہ ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں‘‘ اور امام عالی مقام فقط کوئی اہل تشیع کی جاگیر نہیں ہیں، دنیا کے ہر مذہب و مسلک کے افراد امام عالی مقام کو اپنا رہنما و پیشوا سمجھتے ہیں اور انھیں انسانیت کے محسن کا درجہ دیتے ہیں۔ پھر امام عالی مقام کی شان میں جو زبان گستاخی کی جسارت کرے، اس زبان سے برایت کا اظہار بھی ہر مسلک و مکتب کی جانب سے سامنے آتا ہے۔ 

جبکہ اہل تشیع کے ساتھ بڑا مسئلہ امام عالی مقام کی شناخت کا ہے۔ وہ اس گھوڑے کو بھی سونے چاندی سے لادے پھرتے ہیں، جس نے امام عالی مقام کے مرتبہ کو پہچانا۔ پہچان کا یہی بنیادی فرق فرقہ واریت کا باعث ہے، جبکہ انتظامی ادارے ممکنہ حد تک پنجاب حکومت کی ہدایت پر ان مسائل کو ہوا دیکر حقیقی ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹاتے ہیں اور ایک دوسرے کو دست گریباں کرکے خون میں غلطاں کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت گرچہ روز عاشور کو محسن انسانیت کے نام سے بھی مناسکتی تھی لیکن شریف برادران نے ڈینگی ڈے منانا زیادہ مناسب سمجھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سانحہ گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان، چشتیاں، بہاولنگر وغیرہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ گوجرانوالہ کی دو امام بارگاہوں میں دہشت گردی کے سانحات جس میں تین نمازی شہید ہوگئے، کے بعد ریجنل پولیس آفیسر اختر بھروانہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بظاہر یہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات ہیں، جس میں ایک ہی گروپ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

گوجرانوالہ میں 170 امام بارگاہیں موجود ہیں، جن کو ہمہ وقت سکیورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی۔ مقامی افراد کے مطابق نماز اور عزاداری کے دوران روزانہ دو کانسٹیبل سکیورٹی فراہم کرتے ہیں، مگر اس روز کوئی کانسٹیبل ڈیوٹی پر موجود نہیں تھا۔ اب ان شواہد سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ ملک میں فرقہ واریت کی آگ لگانے اور پھیلانے میں کونسے عناصر کارفرما ہیں۔ اب تشدد کی اس لہر کے ذریعے کیا وطن عزیز کو عراق، شام، لیبیا کے حالات کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یا طالبان کی نئی ریاست امارت اسلامی وزیرستان کی راہ ہموار کرنے کے لیے نفاذ شرعیہ کے مطالبے کو عوامی مطالبے کے طور پر پیش کرنے کی تیاریاں جاری ہیں کیونکہ ان سانحات کے بعد کئی کالعدم تنظیموں کے مردہ گھوڑوں میں جان ڈالنے کے لیے ان کے اجلاسوں کا سلسلہ بھی جاری ہوگیا ہے۔ 

ایک طرف دفاع پاکستان کونسل کا اجلاس اور دوسری جانب احمد لدھیانوی کی مولانا فضل الرحمان سے پارلیمنٹ لاجز میں ملاقات دورس نتائج و اثرات سے پر ہیں۔ ظاہر ہے ان حالات میں سنی تحریک، شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین و دیگر شیعہ و بریلوی مسلک کی مذہبی جماعتیں بھی اپنا اپنا لائحہ عمل پیش کریں گی۔ اس کے علاوہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی قیادت میں ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس کی اپنی حیثیت پر بھی کئی سوالات ثبت ہیں کیونکہ رانا صاحب کو تو پہلے سے ہی کالعدم تنظیموں سے روابط کے الزامات کا سامنا ہے۔ اب یہ کمیٹی چاہیے جسے بھی ملزم قرار دے بات تو جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی ہوگی۔ 

پاکستان مسلکی بنیادوں پر بڑی جماعتوں کے تحرک کا کسی بھی طور متحمل نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت بیرونی دوستوں کے خدشات دور کرنے اور ان کی ڈکٹیشن لینے کے بجائے ملکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک میں سلگائی جانے والی فرقہ واریت کی آگ پر پانی ڈالے نہ کہ اس کو بڑھاوا دینے کے لیے پٹرول کا بندوبست کرے۔ ویسے بھی تیل کافی مہنگا ہے لیکن عرب ملکوں کے پاس یہ وافر مقدار میں موجود ہے اور ملک میں گناہ گاروں کی تلاش کے بجائے بے گناہوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ تلاش وہی چیز کی جاتی ہے جو مقدار میں کم ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 321934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش