0
Wednesday 4 Dec 2013 22:27

یوم حسین (ع) پر ہی اعتراض کیوں؟

یوم حسین (ع) پر ہی اعتراض کیوں؟
تحریر: سید محمد ثقلین 

وجود کائنات سے ہی حق اور باطل کی جنگ کا آغاز ہو گیا تھا، گو کہ حضرت آدم علیہ السلام کا دشمن اُس وقت انسان کے علاوہ ابلیس بھی تھا جو کہ یقیناً انسان سے زیادہ خطرناک تھا۔ حق اور باطل کا یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا، کبھی حضرت نوح علیہ السلام اور سرکش قوم کے مابین رہا، کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان رہا، کبھی یہ معرکہ حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے مابین رہا، کبھی ابولہب اور ابوسفیان جیسے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  مدمقابل رہے تو کبھی اُسی نبی اکرم کے نواسے امام عالی مقام سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقابلہ یزید ابن معاویہ سے ہوا۔ 

تاریخ اسلام کے اوراق پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک شقی القلب کا سامنا خلیفۃ اللہ کو کرنا پڑا لیکن تاریخ نے یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی بھی خلیفۃ اللہ نے ذمہ داریوں سے یہ کہہ کر کنارہ کر لیا ہو کہ یہ   طاقت میں مجھ سے زیادہ ہے یا میرا دشمن مال و دولت میں مجھ سے زیادہ ہے۔ بلکہ تاریخ نے تو یہ لکھا ہے کہ جس خلیفۃ اللہ کا امتحان سب سے زیادہ مشکل تھا وہ اپنے امتحان میں اُس سے زیادہ کامیاب ہوا۔ خدا نے ایک امتحان ایسا بھی لیا کہ جس کا اثر آج بھی نہ صرف مسلمانوں پر ہے بلکہ دنیا کا ہر مذہب اُس کا معتقد ہوا، جس کی مثالیں کائنات میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ 

10محرم 61 ہجری میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے ایسی لازوال داستان رقم کی جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ امام حسین علیہ السلام کے اس امتحان کی جب آخری حد آئی کہ اپنا سب کچھ لٹا کر سید الشہداء نے سجدہ شکر میں سر رکھا تو آواز خداوندی آئی ''یاایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیہ'' ( اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ درحالیکہ تیرا پروردگار تجھ سے راضی ہے اور تو اپنے پروردگار سے راضی ہے۔) سید الشہدائ (ع) کی قربانی صحرا اور ریگزار کی نظر ہو جاتی اگر شریکتہ الحسین علیہ السلام سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اُس پیغام کو کوفہ وشام میں نہ پہنچاتیں۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی میدان کربلا سے بلند ہونے والی (ھل من ناصر ینصرنا) کی پکار کو کربلا تک محدود نہیں ہونے دیا بلکہ کوفہ شام کے بازاروں اور درباروں میں اُس پیغام کو عام کر کے اسلام کو زندہ کیا اور یزید اُس کے حواریوں کو لاکھوں میں ہونے کے باوجود ناقابل تردید شکست سے دوچار کیا۔ 

آج ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں امام حسین علیہ السلام کی یاد منائی جاتی ہے وہیں شریکتہ الحسین سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی قربانی کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن آج بھی کچھ ایسی نادیدہ قوتیں ہیں جو اپنے کردار سے یزیدی ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہر سال ملک بھر کے تمام اہم تعلیمی اداروں میں حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے ملکوتی پیغام کو عام کرنے کے لیے ''یوم حسین (ع)'' جیسی محافل کا انعقاد کرتی ہے تاکہ تعلیمی اداروں کے مغرب زدہ ماحول میں اسلام کے حقیقی معلم و محسن کی یاد کو زندہ کرکے آخرت کا سامان تیار کیا جائے۔ گزذشتہ چندسالوں سے ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے یوم حسین (ع) کے پروگرامات کو ایک مخصوص اور محدود فکر و سوچ رکھنے والی طلبہ تنظیم روک کر اپنا تعارف کرا رہی ہے کہ جس طرح میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو یزید سے مقابلہ کرنا پڑا تھا آج کے حسینی نوجوانوں کو بھی ہمارے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔ 

وہ نوجوان جو تعلیمی اداروں میں فکر امام حسین علیہ السلام کو عام کرتے ہیں وہ یقینا لائق تحسین ہیں۔ گذشتہ سالوں میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، بہائوالدین زکریا یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی اور دیگر اہم اداروں میں یوم حسین علیہ السلام کی تقریبات میں یزیدیت کے پیروکاروں نے روڑے اٹکائے لیکن سلام ہو اُن نوجوانوں پر جنہوں نے صعوبتیں برداشت کیں، پابند سلاسل ہوئے، لاٹھیاں کھائیں، نظربند کیے گئے لیکن یوم حسین علیہ السلام کرا کر یہ پیغام دیا کہ دشمن جتنا بھی طاقتور ہو حسینیت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس سال بھی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت اور شاہ عبدالطیف بھٹائی یونیورسٹی سندھ میں یوم حسین علیہ السلام کے خلاف ناپاک سازشیں کی گئیں۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی یونیورسٹی کے طلباء کو گرفتار کیا جنہیں بعدازاں رہا کر دیا گیا وہاں پر ایک تو نام نہاد ایک اسلامی جماعت یوم حسین علیہ السلام کو رکوانے کے لیے سرگرم تھی جب اس کا ساتھ دینے کے لیے حکومتی مشینری بھی حرکت میں آئی اور سید الشہداء کو یاد کو منانے والے طلباء کو گرفتار کیا گیا۔ 

پورے سال میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں مختلف مناسبتوں کے عنوان سے پروگرام منعقد ہوتے ہیں جن میں اخلاقیات کا درس کم اور غیراخلاقی زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیز کے اندر میوزک کنسرٹ تو معمول بن چکے ہیں، گائیکی اور بےحیائی کے کئی پروگرام خوش اسلوبی سے منعقد ہوتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ جہاں خلاف اسلام اور دین تمام پروگرام منعقد ہو سکتے ہیں، وہاں محسن انسانیت اور اسلام کی یاد کا پروگرام منعقد نہیں ہو سکتا۔ کیا اُس طلبہ تنظیم کا تعلق کسی اسلامی جماعت سے ہو سکتا ہے جو میوزک کنسرٹ تو خوشی کرائے اور محسن اسلام کے نام سے ہونے والی محفل کو روک دے۔ 

غور طلب بات یہ ہے کہ جو جماعت، تنظیم یا گروہ میوزیکل نائٹ کے تو حق میں ہے لیکن جس کی یاد کو نبی خدا نے عبادت کہا اُس کی یاد کو منانے میں رکاوٹیں پیدا کرے اُس کا تعلق اُسی گروہ سے ہوگا جس گروہ نے حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں مختلف سرائوں کو اپنا مسکن بنایا ہوا تھا لوگوں کو لوٹتے تھے۔ قتل و غارت کرتے تھے عورتوں کی عصمت دری کرتے تھے اور پھر علی علیہ السلام کا نعرہ بھی لگاتے تھے تاکہ متاثرین یہ سمجھیں کہ ان لوٹنے والوں کا تعلق حضرت علی علیہ السلام سے ہے لیکن یہ دشمن کی گھنائونی سازش تھی آج بھی وہی گروہ ہے، جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر غیراسلامی اور خلاف انسانیت کاروائیاں کر کے اپنے آپ کو اسلام کے نام لیوا گنواتے ہیں تا کہ کسی طرح دیگر مذاہب کے سامنے دین مبین اسلام کو بدنام کر سکیں۔ لیکن جس طرح اُس دور کے فتنہ گر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے آج کے حسینی نوجوان اُنہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 327473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش