1
0
Saturday 7 Dec 2013 03:44

پنجاب یونیورسٹی واقعہ، الزامات اور حقائق

پنجاب یونیورسٹی واقعہ، الزامات اور حقائق
تحریر: عبدالمقیت چوہدری
ناظم اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی

پنجاب یونیورسٹی میں کل 26 ہاسٹل ہیں۔ جن میں 10 طالبات اور 16 طلبہ کے لیے ہیں۔ ان میں 8 ہزار کے قریب طلبہ و طالبات مقیم ہیں اور تقریباً اتنے ہی طلبہ و طالبات جو یونیورسٹی کے ریگولر طلبہ ہیں مگر ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہاسٹلز میں اپنے دوستوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد آفٹر نون اور ایوننگ کے طلبہ و طالبات کی ہے، جنہیں یونیورسٹی انتظامیہ ہاسٹل کی سہولت فراہم نہیں کرتی۔ اب ہزاروں کی تعداد میں یہ طلبہ و طالبات کہاں جائیں، اس کا جواب کوئی نہیں دیتا اور نہ ہی یونیورسٹی میں کوئی ہاسٹل بنایا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات کے لیے ایک ہاسٹل بنایا گیا ہے مگر مرغی کے ڈربہ کی طرح ایک کمرہ میں دس طلبہ رہ رہے ہیں، جن کا تعلق گریجویشن اور ماسٹرز کی کلاسز سے ہے، ان طلبہ کے لیے پچھلے 20 سالوں سے کوئی ہاسٹل نہیں بنا۔ 16 نمبر ہاسٹل وہ آخری ہاسٹل ہے جس کے لیے فنڈنگ طلبہ یونین نے کی اور اُسے تعمیر کرایا اور اس کا ثبوت 16 نمبر ہاسٹل کی وہ افتتاحی تختی بھی ہے، جو آج بھی 16 نمبر ہاسٹل میں نصب ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے انتظامیہ پر یہ دباؤ تھا کہ نئے ہاسٹلز بنائے جائیں مگر انتظامیہ 5 سے 8 کروڑ کی لاگت سے ایک نیا ہاسٹل بنانے کے بجائے اپنی کرپشن میں مصروف عمل ہے، (اس کا ثبوت پنجاب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جاری کیس سے مل جائے گا)۔ دوسری طرف یونیورسٹی میں وافر تعداد میں زمین موجود ہے، جہاں سے سالانہ بنیادوں پر آلو اور پیاز کی کاشت کی جاتی ہے مگر تعمیراتی کام نہیں کروایا جاتا۔

ان سارے حالات میں جمعیت نے انتظامیہ سے رابطہ رکھا کہ نئے ہاسٹل تعمیر کرا لئے جائیں، تاکہ طلبہ و طالبات کو فائدہ ہوسکے۔ یہ نہ تو ایک ناجائز مطالبہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی سیاسی مطالبہ ہے۔ نئے ہاسٹلز کی تعمیر کے معاملہ اور نئی بسوں کی خریداری کے معاملہ پر بڑی تعداد میں طلبہ نے ریلیوں میں شرکت کی اور جمعیت کی حمایت کی، کیونکہ یہ جمعیت کا سیاسی مطالبہ نہیں تھا بلکہ طلبہ و طالبات کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ اس معاملہ پر مستقل غیر سنجیدہ رہی اور دوسری طرف طلبہ کبھی وی سی آفس کے سامنے کبھی فیصل آڈیٹوریم کے پاس مظاہرہ اور احتجاج کرتے رہے، مگر کوئی استاد اور انتظامی عہدوں پر فائز اساتذہ طلبہ کی داد رسی کے لیے نہ آئے۔ جمعیت نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کر دیا اور صوبائی وزراء سے ملاقاتیں شروع کر دیں، ان ملاقاتوں میں لڑکے اور لڑکیاں اپنا وفد بنا کر صوبائی وزراء سے بھی ملے۔ اسی عرصہ میں ایک طالبہ بس سے گر کر جاں بحق ہوگی اور نئی بسوں کے مطالبہ میں بھی شدت آگئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کا ایک وفد صوبائی وزیرِ تعلیم سے ملاقات کے لیے مسلسل وقت مانگتا رہا مگر صوبائی وزیر تعلیم نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں انتظامیہ نے ہاسٹل نمبر 16 کو فوری طور پر طالبات کو دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔؟؟؟ انتظامیہ کو اندازہ تھا کہ جمعیت 16 نمبر ہاسٹل کے لیے مزاحمت کرے گی۔ مزاحمت کے نتیجہ میں میڈیا اور پریس اور حکومت کو ملوث کرکے ہاسٹل اور بسوں کی مہم کو کمزور کر دیا جائے گا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جمعیت نے 16 نمبر ہاسٹل پہ کوئی قبضہ نہیں کیا ہوا تھا۔

نئی الاٹمنٹ نہیں کی گئیں، سو نئے طلبہ آئے نہیں اور پرانے طلباء کسی باقاعدہ فیصلہ آنے کا انتظار کرتے رہے۔ سو وہ وہیں رہے، کسی ایک طالب علم نے بھی کسی ٹیچر کے ساتھ ہاسٹل میں بدتمیزی نہیں کی اور نہ ہی اساتذہ یا گارڈز یا کسی انتظامی عہدہ دار کے ساتھ بدسلوکی کی بلکہ کوئی انتظامی عہدیدار طلبہ کے پاس آیا بھی نہیں کہ جس کے ذریعہ سے تاثر قائم ہوتا کہ طلبہ نے مزاحمت کی، بلکہ 16 نمبر ہاسٹل پر اسلامی جمعیت طلبہ یہ مؤقف تھا کہ یہ ہاسٹل طلبہ کے ہاسٹل کے درمیان اِس کے آمنے سامنے دائیں بائیں طلبہ کے ہاسٹل نمبر 15,17,18 واقع ہیں۔ ان ہاسٹل کے درمیان طالبات کو ٹھہرانا طالبات کے لیے نئے مسائل کا مؤجب بنے گا اور ہاسٹل میں باقاعدہ کوئی پردے کا انتظام بھی نہیں، یہ نہ صرف طالبات بلکہ والدین کے لیے بھی پریشان کن بات تھی، پنجاب یونیورسٹی کی طالبات خود بھی بوائز کے ہاسٹل میں رہنے کے لیے تیار نہیں تھی، مگر انتظامیہ نے طالبات سے لکھوایا کے ہم آپ کو ہاسٹل الاٹ کرتے ہیں، مگر اِس شرط پر کہ آپ وہاں واویلا یا کوئی احتجاج نہیں کریں گی کہ ہم یہاں غیر محفوظ ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے مطالبہ کیا کہ اِس اقدام کی بجائے چار نئے ہاسٹلز تعمیر کیے جائیں، پنجاب حکومت اگر میٹرو بس جیسے منصوبے کو کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے تو ایک نئے ہاسٹل کی کم سے کم وقت میں تعمیر کوئی مشکل کام نہیں، کیونکہ ہاسٹلز اور نئی بس کا مطالبہ طلبہ و طالبات دونوں کا مشترکہ تھا، یونیورسٹی انتظامیہ نے حکومت پنجاب سے طلبہ و طالبات کے رابطوں سے بعد چند اور حکومتی وزراء کو یہ باور کروایا کہ ہاسٹلز کا کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ جمعیت نے ہاسٹل نمبر 16 میں اسلحہ کی زور پہ قبضہ کیا ہوا ہے اور طالبات کو ہنگامی بنیادوں پر ہاسٹل کی ضرورت ہے۔

ایسے میں حکومت پنجاب نے پولیس ایکشن کرنے کی حامی بھر لی، مگر یہ بات خفیہ ادارے بھی جانتے تھے اور انتظامیہ بھی اور پولیس بھی کہ ہاسٹل میں کوئی قبضہ نہیں۔ لہٰذا پولیس ایکشن کا کوئی جواز نہیں بن رہا تھا، چونکہ 16 نمبر ہاسٹل میں زیادہ تر لاء کالج کے طلبہ مقیم تھے۔ لہٰذا لاء کالج کے اساتذہ کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا گیا کہ جمعیت کے ساتھ لاء کالج میں الجھا جائے اور میڈیا میں ایک ہائپ بنا کر پولیس ایکشن کروا کر ہاسٹل 16 خالی کروا لیا جائے۔ جمعہ 29 نومبر کو لاء کالج میں ٹیچر تشدد کا ڈرامہ رچا کر فوری طور پر میڈیا میں یہ تاثر دے دیا گیا کہ جیسے یونیورسٹی میں بدامنی پھیل گئی ہے، حالانکہ لیکچرر نعیم اللہ نے خود جمعیت کے ایک طالب علم کو جگ مارا اور گریبان سے پکڑ کر تھپڑ مارا۔ کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہیں کی گئی اور نہ ہی تشدد اور نہ ہی میڈیکل رپورٹ اور پھر میڈیا کے ذریعہ دہشت گردی کا ڈرامہ رچایا گیا۔ لیکچرر نعیم اللہ آج بھی اپنے گھر میں بالکل صحیح سلامت موجود ہیں، روزانہ لاء کالج بھی آ رہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ لاء کالج میں ٹیچر تشدد کے واقعہ کو بنیاد بنا کر اتوار اور پیر کی درمیانی شب 16 نمبر ہاسٹل پر پولیس نے چھاپہ مار کر سوئے ہوئے طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ ٹیچر تشدد کا معاملہ کہاں گیا۔؟ اب کوئی نہیں جانتا مگر 16 نمبر ہاسٹل کا معاملہ اب سب کی زبانوں پر ہے۔ یوں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لاء کالج کا معاملہ محض ایک ڈرامہ تھا جو 16 نمبر ہاسٹل میں پولیس کے ایکشن کروانے کے لیے کیا گیا۔

میڈیا کو یہ چاہیے تھا کہ ہاسٹل نمبر 16 سے گرفتار طلبہ سے اسلحہ برآمد ہوتا، تاکہ میڈیا کے ذریعہ عوام کو بتایا جاتا کہ ہم نے اسلحہ سمیت طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے، مگر ہاسٹل نمبر 16 میں محض 17 لوگ وہ بھی اسلحہ کے بغیر کس طرح قبضہ کرسکتے تھے اور عملاً کوئی قبضہ بھی نہ تھا، اگر قبضہ ہوتا تو طلبہ مزاحمت کرتے مگر کچھ بھی نہ ہوا اور سوئے ہوئے طلبہ گرفتار ہوگئے۔ اپنی اس ناکامی پر یونیورسٹی کی انتظامیہ کو منہ کی کھانی پڑی اور ایک کمرے میں بوتلیں رکھ کر میڈیا کے سامنے یہ تاثر دیا کہ جمعیت کے لوگوں نے دو شراب کی بوتلوں کی بنیاد پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ جمعیت پر اس طرح کا تو الزام دشمن بھی تسلیم نہیں کرسکتا اور ستم ظریفی یہ کہ اللہ رب العزت کی توہین کر دی گئی (نعوذباللہ)، ہوا یوں کہ شراب کی بوتلوں کے ساتھ جمعیت کا انسگنیا جس پر اللہ اکبر لکھا ہوتا ہے اور قرآن مجید ساتھ رکھ دیا، تاکہ یہ تاثر جائے کہ یہ شراب کی بوتلیں جمعیت والوں کی ہیں، (ہم انتظامیہ پر یہ توہین قرآن اور توہین اللہ کا مقدمہ درج کروائیں گے)۔ اس بہتان کے بعد جمعیت نے فوری طور پر لاہور میں احتجاج کیا کیونکہ صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ جمعیت کا سارا احتجاج میڈیا پر لائیو چلا۔ کئی طلبہ ریلی میں شریک تھے اور کسی کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ احتجاج کے ختم ہونے کے تین گھنٹے بعد اچانک بس جلا دی گئی، جس پر ٹیچر تشدد کیس، ہاسٹل نمبر 16 کیس پس پشت چلا گیا اور بس جلانے کے واقعہ کو میڈیا کوریج دے کر جمعیت کے لائیو احتجاج پر ردعمل دینے کے بجائے بس کے واقعہ کو بنیاد بنا کر میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔

عدالت نے 16 نمبر ہاسٹل سے گرفتار ہونے والے طلبہ کو دہشت گردی کی دفعات سے بری کر دیا۔ یہ حکومت اور انتظامیہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا، مگر بس جلانے کے جھوٹے واقعہ میں تمام طلبہ کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، حالانکہ طلبہ گرفتار صبح ہوچکے تھے اور بس کا واقعہ شام کے وقت پیش آیا۔ یوں حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے ہاسٹل میں سوئے ہوئے طلباء کو گرفتار کیا اور میڈیا نے گرفتاری کے وقت ویڈیو بھی بنائی، اُن طلبہ کو بس جلانے کے جھوٹے واقعہ میں پابند سلاسل کر دیا ہے۔ کیا ان طلبہ کے جذبات جھوٹے واقعات میں پابند سلاسل ہونے پر نرم پڑ جائیں گے یا مزید مشتعل ہوں گے۔ اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں، کیونکہ ناانصافی ظلم کو جنم دیتی ہے اور ظلم ہوچکا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ چار نئے ہاسٹل تعمیر کیے جائیں۔ بے گناہ طلبہ رہا کیے جائیں۔ طلبہ کو آج نہیں تو کل رہا ہو ہی جانا ہے، لہٰذا، جھوٹ اور مفاد کی سیاست کرنے والے وائس چانسلر اور اساتذہ کے گروہ کو انتظامی عہدوں سے برطرف کیا جائے۔ جمعیت کو تو کوئی ختم کیا، بال برابر باریک فرق بھی نہیں ڈال سکتا۔ انشاءاللہ!!! ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور خدمت طلبہ کا کام اُس طرح جاری رہے گا، جیسے پہلے جاری تھا۔
اور آخری بات!
ایگزیکٹو کلب میں جشن منانے والو، خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ لاٹھی جلد ہی برسنے والی ہے ۔ ۔ ۔ انتظار فرمائیے!!!!
                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
E-mail: abdulmuqeet_315@yaoo.com
خبر کا کوڈ : 328411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اس آرٹیکل میں ناظم جمعیت نے بڑے زیرکانہ انداز میں اسلامی جمعیت طلبہ کو معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور سیاست سے دور رہ کر صرف طلبہ کے حقوق کی بات کرنے کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ سارے ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس پنجاب یونیورسٹی میں اس تنظیم کی سیاست اور غنڈہ گردی سے تنگ ہیں۔
مقیت صاحب
کیا آپ جمعیت کے القاعدہ کے دہشتگردوں سے تعلقات سے بھی انکار کرتے ہیں؟ کیا اسااتذہ کے اوپر تشدد سے بھی انکار کرتے ہیں؟
یہ کہنا کہ وہ ٹیچر اب بھی یونیورسٹی آ رہا ہے، تو کیا آپ صرف قتل اور زخمی کرنے کو ہی تشدد سمجھتے ہیں؟
ہاں یہی آپ کی تنظیم کی عادت رہی ہے۔
کیا جمعیت کے غنڈوں کی جانب سے یونیورسٹی کے اندر اپنی اجارہ داری قایم رکھنے کی خاطر دوسری طلبہ تنظیموں پر تشدد سے بھی انکار کرتے ہیں؟
کیا دوسری طلبہ تنظیمیں طلبہ کے حقوق کے لیے کام نہیں کرتیں؟
لیکن جمعیت والوں کو ان کی مثبت ایکٹیویٹیز برداشت نہیں ہوتی کہ کہیں اپنی اجارہ داری خطرے میں نہ پڑجائے۔
کیا اس بات سے بھی آپ انکار کرتے ہیں کہ انہی ہاسٹلز میں روم الاٹ کرنے کے لیے اور کبھی کبھی ایڈمشن کے موقع پر جمعیت کے غنڈے ٹیچرز اور یونیورسٹی انتظامیہ کو ڈرا دھمکا کر اور بلیک میل کرکے اپنے من پسند افراد کو وہاں داخلہ دلواتے ہیں؟
مزید آپ کا کہنا کہ سوئے ہوئے طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ کیا اگر کوئی یونیورسٹی میں غنڈہ گری اور دہشت پھیلانے کے بعد سو جائے تو وہ بے گناہ ہو جاتا ہے؟
آپ اس پر بھی ذرا روشنی ڈالتے، ناکہ جمعیت والوں سے اسلحے کیوں برآمد ہوتے ہیں؟
القاعدہ کے دہشتگرد جمعیت والوں کے کمروں سے کیوں برآمد ہوتے ہیں؟
اور ۔۔۔
ہماری پیشکش