0
Tuesday 7 Jan 2014 17:36

سعودالفیصل اور کون مشرف۔۔۔؟

سعودالفیصل اور کون مشرف۔۔۔؟
تحریر: ابو فجر

سعودی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں سرتاج عزیز کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کی، اس دوران سعودی وزیر خارجہ کا مزاج کافی خوش گوار تھا اور انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب بھی ہلکے پھلکے انداز میں دیئے۔ انہوں نے کچھ سوالوں کا جواب عربی میں دیا جبکہ انگریزی میں کئے جانے والے سوالوں کے جواب انہوں نے انگریزی میں دیئے، جس پر پاکستانی صحافی بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا دکھائی دیئے۔ اس موقع پر ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ان کے عربی میں دیئے گئے جوابات کا انگریزی کی بجائے پہلی بار اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ سعودی عرب کی جانب سے مصر کو کتنی امداد دی جا رہی ہے تو اس کا جواب دے کر سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ امداد مصر کو دی جا رہی ہے آپ کو اس میں کیا دلچسپی ہے جس پر کانفرنس کشت زعفران بن گئی۔ ایک صحافی نے پوچھا آپ کسی مشن پر پاکستان آئے ہیں، تو اس کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ نہیں جناب میں تو اپنے برادر ملک کے دورے پر آیا ہوں۔ ایک صحافی نے ذرا ہمت کرکے کھل کر ہی ان کے دورے کا مدعا پوچھ لیا، صحافی نے پرویز مشرف کے حوالے سے سوال داغا تو سعود الفصیل نے انتہائی چالاکی کیساتھ ساتھ بیٹھے سرتاج عزیز سے پوچھا یہ مشرف کون ہے؟ جس پر سرتاج عزیز نے مسکراتے ہوئے تعارف کرایا کہ مشرف پاکستان کے سابق صدر ہیں۔ جس پر سعود الفیصل نے کہا کہ ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ عموماً ایسی شخصیات کی پریس کانفرنس محض دو تین سوالوں تک ہی محدود ہوا کرتی ہے لیکن سعود الفیصل کی پریس کانفرنس خلاف معمول طویل ہوگئی۔

ذرائع کے مطابق اس میں بھی دفتر خارجہ کی منصوبہ بندی شامل تھی کہ صحافی دل کھول کر اپنی بھڑاس نکال لیں۔ پریس کانفرنس کے بعد صحافتی حلقوں میں جو باتیں گردش کر رہی تھیں وہ یہ تھیں کہ سعود الفیصل کا پرویز مشرف کو نہ جاننا اسی طرح ہے جس طرح ایک بار نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں مشرف کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ جنرل، کیا نام ہے اس کا‘‘ تو ساتھ بیٹھے شخص نے بتایا کہ پرویز مشرف، تو انہوں نے کہا تھا ہاں وہ پرویز مشرف، تو جس شخص نے کسی کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال کر زندانوں میں پھینک دیا ہو، جس نے دیس نکالا دے دیا ہو کوئی بھی ذمہ دار شخص اس ’’دشمن‘‘ کا نام نہیں بھولتا، لیکن میاں صاحب نے گفتگو کا یہ انداز اپنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہیں اپنے دشمن کا نام تک یاد نہیں، یعنی وہ پرویز مشرف کو ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں دیتے، اسی طرح آج سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے بھی کیا۔ جو امریکی ایما پر پرویز مشرف کو ’’رہائی‘‘ دلانے کے لئے حکومت کیساتھ ڈیل کرنے آئے ہیں، وہی پوچھ رہے ہیں کہ یہ مشرف کون ہے؟ سعودالفیصل کا یہ انداز ہی ان کے دورے کو مشکوک بنا گیا ہے اور ان کی اس ’’ادا‘‘ سے ہی واضح ہوگیا ہے کہ وہ مشرف کی رہائی کے لئے ہی آئے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں جتنا عمل دخل سعودی عرب کا ہے شائد ہی کسی کا ہو، اور سعودالفیصل یہ ’’فرما‘‘ رہے ہیں کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ پاکستان میں اہل حدیث مسلک کے کہیں بھی اتنے زیادہ ووٹ نہیں کہ وہ الیکشن جیت سکیں لیکن ہر بار جمعیت اہلحدیث کے ساجد میر سینیٹر بنتے ہیں جو صرف اور صرف سعودی عرب کے ’’حکم‘‘ پر ہر حکومت انہیں نوازتی ہے اور جب مسلم لیگ نون کا دور حکومت آتا ہے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور یہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ جب بھی نواز لیگ کی حکومت ہوتی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی لہر مہمیز ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سعودی آشیر باد سے دہشت گردوں کو دی جانے والی رعایت ہے اور اس دور میں بالخصوص مکتب تشیع کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سعودالفیصل کا حالیہ دورہ جہاں پاک سعودی عرب تعلقات میں بہتری لائے گا وہاں پرویز مشرف کے مستقبل کیلئے اچھی خبر ثابت ہوگا کیونکہ اس کے بعد پرویز مشرف کیلئے دبئی کا ٹکٹ تیار ہوگا اور اس دورے کے جو آفٹر شاکس ہوں گے ان کا نزلہ ملت تشیع پر گرے گا۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر میں تیزی آئے گی اور قتل و غارت کا سلسلہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس حوالے سے قوم کو اپنے دفاع کے لئے خود اقدامات کرنا ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 338477
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش