2
0
Saturday 28 Dec 2013 20:27

شکست خوردہ تکفیریت، شام سے راجہ بازار تک

شکست خوردہ تکفیریت، شام سے راجہ بازار تک
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

اس دفعہ محرم میں راولپنڈی سمیت مختلف علاقوں میں عزاداری میں آنے والی رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ شام سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی پالیسیوں میں تبدیلی اور سعودی لابی کی شکست سے ان واقعات کے تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شام میں بشار الاسد حکومت کخلاف بغاوت کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر آگے بڑھانے کی کوششوں کو حزب اللہ نے ایک قدم آگے نہیں جانے دیا، ایسا لگ رہا ہے جیسے سعودی لابی، صیہونی ریاست، القاعدہ اور امریکی پالیسی سازوں کے ہاتھ پاوں شل کر دیئے گئے ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران کی فلسطین نواز حکومت، شام کو نظریاتی اور عملی طور پر بیت المقدس کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا پہلا اور آخری مورچہ سمجھتی ہے، اسی لیے کامیاب سفارت کاری کی بدولت شامی علاقوں میں امریکی بمباری کا منصوبہ، اعلان کے باوجود ناکام رہا۔ روس کی سعودی عرب پر حملے کی دھمکی نے امریکہ نواز اور اسرائیل دوست سعودی شاہی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ شکست خودرہ سعودیوں کی مایوسی کے سائے دمشق سے راجہ بازار راولپنڈی تک چھا گئے، لیکن دل و جان سے حزب اللہ کی حمایت کرنے والے پاکستانی عزاداروں نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور سید حسن نصراللہ نے لبیک یارسول اللہؑ اور لبیک یاحسینؑ کا جو نعرہ بلند کیا، حالات بتاتے ہیں کہ سرزمین پاکستان پر اسکی گونج جس طرح محرم اور چہلم میں سنائی دیتی رہی، ایسے ہی میلادالنبیؑ کے موقع پر بھی سنائی دے گی۔

یہ کہنا کسی طور پر درست نہیں کہ شیعہ سنی اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔ اختلاف تو دنیا میں موجود رہے گا اور یہ کوئی نامناسب چیز نہیں، لیکن اسی اختلاف کو مسلمانوں کے درمیان عداوت میں بدلنا، اسلام دشمن طاقتوں کی دیرینہ سازش رہی ہے۔ جسطرح عامۃ المسلمین کے نظریہ کیمطابق امام علیؑ کی جمہوری خلافت کیخلاف اموی سیاستمداروں نے مقتول خلیفہ کے خون بہا کا بہانہ بنا کر بغاوت کے لیے کرایے کے قاتلوں کے لشکر تیار کئے، اسی طرح راجہ بازار راولپنڈی میں ہونے والے واقعے کو جواز بنا کر افغانستان سے ملحقہ پہاڑوں میں چھپے طالبان دہشت گردوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے نامعلوم بچوں کی سر بریدہ لاشیں دیکھا کر ملت پاکستان کے خلاف مخصوص فضا بنانے کی کوشش کی۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ خلیفہؑ چہارم کی آئینی حکومت کیخلاف بغاوت کرکے اسلامی ریاست کو دولخت کرنے والوں کیطرح جھنڈ دنیا بھر میں تکفیریت کا علم اٹھائے، آج بھی شام سے لیکر وزیرستان تک مسلمان سرزمینوں کا امن تہہ و بالا کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم کا نام لیکر حکومت بنانے والی لیگی حکومت کے ذمہ دار وزراء کے رویوں سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ موجودہ حکمران خوف کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ طالبان نواز طاقتوں کے سیاسی حلیف ہیں۔

راولپنڈی کے جس مقام پر تشدد کا واقعہ پیش آیا، وہ روایتی طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے لحاظ سے فلیش پوائنٹ مانا جاتا ہے۔ یہاں قائم مسجد دیوبندی شدت پسند گروپ اہل سنت والجماعت کا مرکز ہے اور ہر سال محرم کے موقع پر اس مسجد کے گرد خصوصی حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن پولیس اہلکاروں نے ایس او پی یعنی روایتی حفاظتی انتظامات کے پیش نظر مسجد کا لاؤڈ سپیکر ہی بند نہیں کروایا۔ یہ لاؤڈ اسپیکر ہی بعد میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات کا محرک بنا۔ یہ بات بظاہر سادہ ہے لیکن اس کے اثرات اور نتائج بہت بھیانک تھے۔ راولپنڈی کے اسی حلقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد کے مطابق یہ پہلی بار نہیں تھا کہ عاشورہ محرم کا جلوس اس مقام سے جمعے کے روز گزرا ہو۔ میری زندگی میں عاشورہ کئی بار جمعے کے روز آیا ہے۔ اس علاقے کے بچوں کو بھی پتہ ہے کہ جمعے کے روز جب یہ جلوس اس مقام سے گزرتا ہے تو کس طرح کے احتیاطی اقدامات کرنے چاہییں۔ میں مان نہیں سکتا کہ پولیس نے اس صورتحال کا ادراک نہ کیا ہو۔ تشدد شروع ہونے کے ابتدائی ایک گھنٹے میں پولیس کی مداخلت نظر کیوں نہیں آئی؟ حالات حکومت نے خود پیدا کیے یا حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوگئے، راولپنڈی کے شہریوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب عدالتی تحقیقات میں تلاش کیے جاسکتے ہیں، لیکن فرقہ واریت پاکستانی ریاستی اداروں میں کس حد تک جڑیں پکڑ چکی ہے، اس سوال کا جواب تلاش کرنے اور اسے تسلیم کرنے میں شاید ابھی بہت وقت درکار ہے۔

لوگوں کو تشویش اس بات پر زیادہ تھی کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پورے شہر میں پھیل سکتی ہے۔ کچھ شرپسند عناصر گلی محلوں میں آکر لوگوں کو اکسا رہے تھے کہ کل ہمارے مسلک کے لوگوں کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی۔ راولپنڈی میں رہنے والی ایک خاتون نے کہا کہ "ایسا واقعہ ہونا نہیں چاہیے تھا کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں۔ مدرسے کے مولویوں کو چاہیے تھا کہ اپنے خطبے کو کچھ دیر کے لیے روک لیتے، یا اہل تشیع جلوس آگے لے کر چلے جاتے۔ مسلمان ہوتے ہوئے اگر برداشت نہیں تو جو کچھ کرنا ہے اپنے گھروں میں بیٹھ کر کرو، اب لوگ باتیں کر رہے ہیں کہ کس طرح سے چھوٹے بچوں کو مارا گیا۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ کام شیعہ یا سنی مسلمانوں کا نہیں بلکہ کوئی تیسری طاقت ہے۔ وہ تیسری طاقت کوئی اور نہیں امریکہ کی چھتری تلے عالم اسلام کے جسد واحد کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف القاعدہ، طالبان اور کالعدم سپاہ صحابہ کے تکفیری گروہوں سمیت طالبان نواز قوتیں ہیں جو مسلم ممالک میں کشت و خون کا بازار گرم رکھنے میں مصروف ہیں۔ لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان عوام بیدار ہیں اور شکست خوردہ تکفیری ذہنیت کو مشرق وسطٰی میں بھی مسترد کرچکے ہیں اور میلاد النبیؑ کے مشترکہ پروگراموں کا اعلان کرکے، پاکستان میں بھی یہ واضح کر رہے ہیں کہ شیعہ سنی مسلمانوں سے تکفیریوں کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ اس مغربی ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں، جس کا مقصد اسلام کا ایسا مسخ شدہ چہرہ پیش کرنا ہے کہ دین صرف تشدد کا نام ہے۔
خبر کا کوڈ : 335123
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

کیا بات ہے خان صاحب
Iran, Islamic Republic of
سوال وہی بنیادی ہے کہ کیا سانحہ راولپنڈی سے پہلے راولپنڈی کی انتظامیہ نے ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھا، اگر کیا تھا تو پھر یقینی سی بات ہے کہ ہمارے حکومتی اداروں میں موجود شدت پسند اور مفاد پرست ٹولے نے اس ساری کارروائی کی پلاننگ کی تھِی جس کا انھوں نے مختلف انداز میں فائدہ اٹھایا، فرقہ واریت کو ہوا دے کر، مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش کرکے، کاروباری افراد کو نقصان پہنچا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ سب شیعوں نے کیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے بھی راجہ بازار سے محرم، صفر اور 21 رمضان کے عزاداری کے پرامن جلوس گزرتے رہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ سب کام پاکستان کے اداروں میں موجود پاکستان دشمنوں اور امریکی تنخواہ داروں کا ہے۔ جو پاکستان کو مضبوط اور مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ خدا ان پر اپنی لعنت کرے، انشاء اللہ پاکستان ہمیشہ زندہ باد اور پائندہ رہے گا۔ انشاء اللہ
ہماری پیشکش