0
Wednesday 22 Apr 2009 09:21

ایرانی صدر کی حق گوئی

ایرانی صدر کی حق گوئی
 جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام نسل پرستی کے خلاف بین الاقوامی کانفرنس میں ایران کے صدر احمدی نژاد کی حق گوئی سے ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور یہودیوں کے پشت پناہ یورپی ممالک نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔ احمدی نژاد نے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کو ظالم اور نسل پرست قرار دیا اور اس میں نہ کوئی مبالغہ ہے اور نہ ہی کوئی خلاف حقیقت بات۔ نسل پرستی کے خلاف مذکورہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی امریکا، اسرائیل اور کئی مغربی ممالک اس کا بائیکاٹ کرچکے تھے۔ یہاں تک ہوا کہ کانفرنس سے پہلے جب سوئٹزرلینڈ کے صدر نے ایرانی صدر احمدی نژاد سے ملاقات کی تو اس پر اسرائیل نے برہم ہو کر اپنے سفیر کو سوئٹزر لینڈ سے واپس بلوا لیا۔ یہ ایرانی صدر کی 2005ءمیں منصب سنبھالنے کے بعد کسی مغربی ملک کے سربراہ سے پہلی ملاقات تھی۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے صدر بان کی مون کی احمدی نژاد سے ملاقات کو بھی قابل افسوس قرار دیا۔ وجہ یہ ہے کہ ایرانی صدر کھل کر یہ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کا ہولوکاسٹ کا دعویٰ محض ایک ڈراما ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودیوں نے اس کا زبردست پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی سربراہی میں جرمنوں نے 60 لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا تھا اور وہ بھی انہیں بھٹیوں میں جلاکر۔ احمدی نژاد ہولوکاسٹ کو فرضی داستان کہنے والے اکیلے نہیں ہیں۔ متعدد امریکی اور یورپی مورخین اور محققین دلائل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ہولوکاسٹ کی کوئی اصل نہیں ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر پورے یورپ میں 60 لاکھ یہودی نہیں تھے اور اگر اتنے تھے تو سب کے مارے جانے کے بعد باقی کہاں سے آئے؟۔ جن بھٹیوں (کنسنٹریشن کیمپس)کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں لاکھوں یہودیوں کو زندہ جلا کر راکھ کر دیا گیاہے، محققین نے ان کے بارے میں بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ان بھٹیوں میں اتنی گنجائش اور صلاحیت ہی نہیں تھی۔ یہ بات تو ہٹلر کے وزیرگوئیبلز نے کہی تھی کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ سمجھا جانے لگے لیکن اس پر عمل یہودیوں نے کیا اور اپنی مظلومیت کا پرچار کر کے فائدے حاصل کیے۔ ہالی وڈ پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور یورپ و امریکا کابیشتر میڈیا بھی ان کے تسلط میں ہے چنانچہ ہرسطح پر رنگ آمیزی کی گئی۔ اتفاق سے معیشت پر بھی یہودیوں کا غلبہ ہے جس کے بارے میں برسوں پہلے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”فرنگ کی جان ابھی پنجہ یہود میں ہے“۔ پنجہ کی گرفت اور کڑی ہوگئی ہے اور یورپ کے بعد امریکا بھی اسی شکنجے میں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ یورپ کے کئی ممالک میں ہولوکاسٹ پرتنقید کرنے یا اسے غلط قرار دینے پر سزا ہے اور کچھ محققین یہ سزا بھگت بھی رہے ہیں۔ ایسے میں کسی بین الاقوامی فورم پر کھل کر یہ کہنا کہ ہولوکاسٹ کا کوئی وجود نہیں،اسرائیل اور اس کے حماتیوں کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ اب گزشتہ پیرکو نسل پرستی کے خلاف کانفرنس میں احمدی نژاد نے صہیونیت اور اس کے سرپرستوں پر ایک اور بھرپور حملہ کردیا۔ کانفرنس نسل پرستی کے حوالے سے تھی چنانچہ احمدی نژاد نے اسرائیل کو سب سے بڑا نسل پرست قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ 1948ءمیں فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کرکے ایک مکمل نسل پرست حکومت قائم کی گئی جو ظالم بھی ہے۔ یورپ اور امریکا سے یہودیوں کو اسرائیل بھیجا گیا تا کہ مقبوضہ فلسطین میں ایک نسل پرست حکومت قائم کی جائے۔ اس موقع پر کئی مغربی ممالک نے تو بائیکاٹ کیا لیکن جن ممالک کے نمائندے کانفرنس میں موجود رہے انہوں نے احمدی نژاد کو زبردست خراج تحسین پیش کیا مگر اقوام متحدہ کے صدر بان کی مون نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ احمدی نژاد نے تفریق کے بیج بوکر کانفرنس کے اصل مقصد کو تباہ کردیا۔ بان کی مون نے احمدی نژاد کے خیالات کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی صدر نے اس پلیٹ فارم کو تقسیم اور اشتعال کے لیے استعمال کیا۔ کانفرنس سے جو مقصد حاصل کرنا مقصود تھا ایرانی صدر نے اس کے بالکل خلاف بات کی۔ اقوام متحدہ کے صدر بان کی مون کا یہ تبصرہ بجائے خود حیرت انگیز ہے لیکن اقوام متحدہ خود امریکا اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کے پنجے میں پھنسی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ کے صدرکو اس تنظیم کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ کسی ایسی بات کو کیسے پسند کر سکتے تھے جس سے امریکا ناراض ہو۔ لیکن مذکورہ کانفرنس کس لیے بلائی گئی تھی؟ کیا صرف اس لیے کہ نسل پرستی کے خلاف تقاریر کی جائیں اور سب اپنے اپنے گھروں کو جائیں ؟ نسل پرستی کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں مگر بین الاقوامی پلیٹ فارم سے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کون کون سے ممالک اور اقوام نسل پرست ہیں اور اگر ہیں تو ان کی مذمت کی جانی چاہیے۔ یہی اصل مقصد ہے۔ مگر خرابی یہ ہے کہ اس معیار پر اترنے والے ممالک میں سرفہرست اسرائیل ہی ہے جس کا قیام ہی نسل پرستی کی بنیاد پر عمل میں آیا اور وہ اسی راستے پرگامزن ہے۔ فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کر کے یہودیوں کو بسانے اور ان کی ایک ریاست قائم کرنے کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ عربوں کے سر پر ایک ایسی قوم کی تلوار لٹکا دی جائے جو پہلے دن سے مسلمانوں کی دشمن ہے اور جس کی سازشوں کا آغاز مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام سے ہوگیا تھا۔ اس سازش کا سرغنہ برطانیہ تھا بعد میں امریکا نے اسرائیل کو اپنی تولیت میں لے لیا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہولوکاسٹ میں اگر کچھ بھی سچائی ہے یا یہودیوں پرظلم ہوا ہے تو وہ مسلمانوں نے نہیں عیسائیوں نے کیاہے،بالکل ویسے ہی جیسے بیت المقدس میں کیا تھا۔ اس کی سزا بھی عیسائیوں کو ملنی چاہیے تھی نہ کہ مسلمانوں کو۔ یورپ اور براعظم امریکا میں بہت بڑے بڑے علاقے غیر آباد بھی تھے اور زرخیز بھی مثلاً برازیل،آسٹریلیا وغیرہ۔ لیکن یہودیوں کی سازشی سرشت اور نسل پرستی کے ”اوصاف“ عرب مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا تھے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک اسرائیل نے نسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کسی پڑوسی کو چین سے نہیں رہنے دیا۔ لیکن اس کے ہر ظلم کی تائید امریکا نے کی یہاں تک کہ سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 14 نے بھی اس کی مذمت میں قرارداد منظور کی تو امریکا نے حق استرداد استعمال کرکے قرار داد کو بے اثر کر دیا۔ اس حوالے سے بان کی مون نے جو کچھ کہا انہیں یہی کہنا چاہیے تھا لیکن اقوام متحدہ کے صدر کو کبھی کبھی مصلحتوں کے حصار سے باہر بھی نکل آنا چاہیے۔ ان سے زیادہ یہ حقیقت کون جانتا ہوگا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بوسنیا میں سربوں نے نسل پرستی کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کیا،مقبوضہ کشمیرمیں بھارت یہی کچھ کر رہا ہے بلکہ اب تو پورے بھارت میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر غیر ہندووں پر مظالم عام ہیں۔ حکومت فرانس ایرانی صدر کی تقریر کی مذمت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مذکورہ کانفرنس کا مقصد بین الاقوامی برادری کو ہر قسم کی نسل پرستی کے خلاف متحد اور متحرک کرنا تھا لیکن احمدی نژاد نے سارا معاملہ بگاڑ دیا۔ کیا خوب! کیا نسل پرستی کے خلاف اتحاد اور تحرک کے لیے پہلے یہ ضروری نہیں کہ  مجرموں کا تعین کیا جائے۔ برسبیل تذکرہ برطانیہ میں بے گناہ پاکستانی طلبہ کی گرفتاری کیا نسل پرستی کی مثال نہیں ۔؟؟



خبر کا کوڈ : 3421
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش