2
0
Monday 20 Jan 2014 20:01

شام میں جنگ آزماؤں کی الٹتی، بدلتی تدبیریں

شام میں جنگ آزماؤں کی الٹتی، بدلتی تدبیریں
تحریر: ثاقب اکبر

شام میں جاری فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے والے ان دنوں نئی سے نئی تدبیریں اختیار کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے گذشتہ چند مہینوں میں کئی پینترے بدلے ہیں اور کئی فیصلے تبدیل کئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب اچانک امریکہ نے علاقے کی رجعت پسند قوتوں کی خواہشوں کے برعکس شام پر حملہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک فیصلہ نہ تھا بلکہ کئی فیصلوں کا سرچشمہ اور پیش خیمہ تھا۔

مغرب کی سکیورٹی ایجنسیاں شام میں نبردآزما حکومت مخالف جنگجوؤں کے مستقبل کے حوالے سے خاصی پریشان ہیں۔ انہیں اس امر پر تشویش ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ سعودی عرب، قطر اور ترکی کی حمایت سے 12 ہزار سے زیادہ جو دہشت گرد پوری دنیا سے اکٹھے کرکے شام میں داخل کیے گئے جب ان کی واپسی کا خیال آیا تو مغرب میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ان دہشت گردوں میں القاعدہ کے کئی گروہوں کے علاوہ دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک سے وابستہ بہت سے گروہ شریک ہیں۔ ان کے بارے میں یہ سوال پہلے ہی پیدا ہوجانا چاہیے تھا کہ اگر شام میں اقتدار ان کے ہاتھ آگیا تو علاقے کی مغرب نواز خاندانی بادشاہتوں کا کیا بنے گا۔ اسی طرح اسرائیل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے جبکہ اگر شام میں حکومت باقی رہ جاتی ہے اور دہشت گرد گروہ واپس اپنے اپنے ممالک کا رخ کرتے ہیں تو وہاں جا کر وہ کیا کردار ادا کریں گے۔ شام میں ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کے قتل اور کئی ملین افراد کے بے گھر ہونے کے بعد اہل مغرب کے ذہن میں اب ان سوالوں کے ابھرنے پر یہی کہا جاسکتا ہے:
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

بطور نمونہ ہم اپنے قارئین کو یاد دلا دیں کہ گذشتہ منگل کو فرانس کے صدر فرنسوااولاند نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس کے 700 شہری شام میں غیر ملکی جنگجوؤں کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔ بدھ 15 جنوری 2014ء کو شام کے ڈپٹی وزیر خارجہ فیصل میکداد کا ایک بیان بی بی سی کے توسط سے سامنے آیا ہے کہ کئی مغربی حکومتیں بالآخر یہ سمجھ گئی ہیں کہ صدر بشار الاسد کی متبادل قیادت موجود نہیں ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر آپ کہیں کہ برطانیہ سمیت مغربی خفیہ ایجنسیوں کے حکام نے دمشق کا دورہ کیا ہے، تو میں اس کی وضاحت نہیں کروں گا لیکن ہاں ان میں سے کئی نے دمشق کا دورہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’بالکل، ان میں سے کچھ جنیوا امن بات چیت کا انتظار کر رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ وہ دیگر ممکنات کو دیکھ رہے ہیں، ہم سکیورٹی اقدامات پر تعاون کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ مغربی یورپ سے شدت پسند ترکی اور شام بھیج رہے ہیں اور یہ ان کے لیے حقیقی خطرہ بن گیا ہے۔‘‘ بی بی سی ہی کے مطابق شامی حزب اختلاف کے اتحاد کے ترجمان خالد صالح نے کہا کہ اگر مغربی خفیہ ایجنسیوں کے حکام کی دمشق سے رابطوں کی اطلاعات درست ہیں تو اس سے شامی گروہوں کے دوستوں کے الفاظ اور عمل میں واضح تضاد ظاہر ہوتا ہے۔

ان دنوں جب کہ شام کے بارے میں جنیوا 2 مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے شام کی نام نہاد حزب اختلاف شدید طور پر داخلی جنگ میں مبتلا ہے۔ انہوں نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران میں ایک دوسرے کے ہزاروں افراد کو تہ تیغ کر دیا ہے۔ امریکی سرپرستی میں بنائی گئی نام نہاد شامی حزب اختلاف کی 120 رکنی شوریٰ کے فقط 58 ارکان نے جنیوا 2 میں شرکت کی تائید کی ہے۔ ارکان کی اکثریت نے ان مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف بعض عرب ممالک اور امریکی تحفظات کے باوجود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایران کو جنیوا 2 مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی ہے، جسے ایران نے قبول کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں بان کی مون کا کہنا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ایران شام میں عبوری حکومت کے قیام میں مثبت کردار ادا کرے گا۔

دریں اثنا شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنیوا 2 مذاکرات میں ان کی اقتدار سے علیحدگی موضوع بحث نہیں ہے۔ صدر بشار الاسد نے دمشق میں روسی اراکین پارلیمان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے ہتھیار ڈالنے ہوتے تو ہم ابتدا میں ہی ایسا کر دیتے۔ شام سے آنے والی خبروں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر بشار الاسد اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ پراعتماد محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم اور مفتی اعظم کے ہمراہ دمشق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے سلسلے میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ ان کے اس اعتماد کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک دہشت گرد گروہوں کا ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہونا ہے۔ ان کے مخالفین کا قبل ازیں یہ کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک سوئٹزرلینڈ نہیں جائیں گے جب تک آئندہ عبوری حکومت میں صدر بشار الاسد کی عدم شرکت کا یقین نہیں دلا دیا جاتا، لیکن ان کے اس مطالبے کو عالمی سطح پر قبولیت حاصل نہیں ہوسکی اور صدر بشار الاسد کے بقول ان کی حکومت سے علیحدگی سرے سے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں۔

اس ساری صورت حال سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شدت پسند گروہ زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کرنے کی خواہش میں ایک دوسرے پر پَل پڑے ہیں اور مختلف گروہوں کو علاقے کی مختلف حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ خاص طور پر یہ آویزش قطر اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان نمودار ہو رہی ہے۔ دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ ان کے زیراثر گروہ زیادہ قوی ہوں۔ بعید نہیں کہ اس کے اثرات علاقے کی سیاست پر مزید وسیع اور گہرے ہوں، کیونکہ دونوں ممالک قبل ازیں مصر کی اخوان المسلمین کی حکومت کے حوالے سے مختلف طرز عمل اختیار کرچکے ہیں۔

شام کے حوالے سے جنیوا 2 مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھی جاسکتیں، کیونکہ شام کے دوستوں کا نام نہاد گروہ اب آپس میں بھی کسی ایک نقطے پر متحد دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں شام کی حکومت کو خود سے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ جن سے عوام کی اکثریت کو پریشانی، خوف اور دربدری سے نجات مل سکے۔ تاہم اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری اب شام میں جاری کشت و خون کو روکنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرے۔ اس سلسلے میں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمسائے کے ہاں لگائی اور بھڑکائی گئی آگ اپنے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 343140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت ہی امید افزا ہے
جزاک اللہ بہت اچھا تجزیہ فرمایا ھے۔
نعیم الحسن
ہماری پیشکش