1
0
Monday 10 Feb 2014 22:25

بحرین کے قیام کی تیسری سالگرہ اور سول نافرمانی

بحرین کے قیام کی تیسری سالگرہ اور سول نافرمانی
تحریر: محمد علی نقوی

بحرین میں علماء کونسل نے انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر عوام سے اپیل کی ہے کہ ملک گير مظاہروں میں بھرپور طرح سے شرکت کریں۔ الوفاق کی رپورٹ کے مطابق بحرین کی علماء کونسل نے ایک بیان جاری کرکے عوام کو دعوت دی ہے کہ وہ چودہ فروری کو اپنے انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ملک گير مظاہروں میں شرکت کرکے اپنے مطالبات پر تاکید کریں۔ علماء کرام نے اس کونسل کو تحلیل کرنے کے آل خلیفہ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اس حکم کو ظالمانہ قرار دیا اور کہا ہے کہ آل خلیفہ نے علماء کرام کو نشانہ بنا کر دینی آزادی کو محدود کرنے اور علماء کرام سے مقابلہ کرنے کی سازش رچائی ہے۔ بحرین کا مسئلہ سیاسی ہے اور آل خلیفہ نے ملت بحرین کی قومی دولت اور ذخائر کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے۔ 

ادھر ملت بحرین کی تحریک جاری ہے۔ مظاہرین شاہی حکومت کی جگہ، عوامی حکومت کو برسراقتدار لانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بحرین میں دو ہزار گیا رہ سے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور لوگ امتیازی سلوک کا خاتمہ اور ملک میں آزادی چاہتے ہیں اور جمہوریت اور عوامی اقدار پر مبنی حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن حکومت آل خلیفہ عوام کے مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے انھیں سرکوب کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ بحرین میں آل خلیفہ حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف اس ملک کے عوام کا مختلف علاقوں میں پرامن مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ 

بحرین کے ایک انقلابی رہنما نے کہا ہے کہ ملت بحرین سول نافرمانی شروع کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ قاسم الہاشمی نے کہا  ہےکہ ملت بحرین کے قیام کی تیسری سالگرہ آرہی ہے اور ہماری قوم چودہ فروری کو
سول نافرمانی کے لئے آمادہ ہوچکی ہے۔ ہاشمی نے کہا کہ سول نافرمانی کی تحریک تین دنوں تک منامہ میں جاری رہے گی اور یہ اقدام، ملک میں مثبت تبدیلی لانے اور موجودہ تعطل توڑنے کے لئے مفید واقع ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملت کے اہداف کے حصول تک تحریک جاری رہے گی۔ چودہ فروری کے انقلابی اتحاد نے چودہ فروری کو ملک گير مظاہروں اور احتجاج کی کال دی ہے۔
 
آل خلیفہ کی شاہی حکومت، اپنے مغربی آقاؤں کی خاموشی کے سہارے ملت بحرین کے خلاف وحشیانہ تشدد آمیز کارروئياں جاری رکھے ہوئے ہے، آل خلیفہ کی شاہی حکومت نے اجتجاجی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے کئی حربے استعمال کئے ہیں، ان میں تازہ حربہ علماء کونسل کی تحلیل ہے، چودہ فروری کے ملک گير مظاہروں اور احتجاج سے پہلے اس قسم کا اقدام بحرینی عوام کے احتجاجات کو کچلنے کے لئے کیا گیا ہے، بحرین کے معروف و بزرگ عالم دین آیت اللہ "شیخ عیسی قاسم" نے ملک کی علماء کونسل کو تحلیل کرنے کے حوالے سے بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے فیصلہ کو پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  فرق صرف اتنا ہے کہ اس پر عمل درآمد کچھ تاخیر سے کیا جا رہا ہے۔ 

آیت اللہ "شیخ عیسی قاسم" نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات کا مقصد و ہدف مذاکرات کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے، لیکن حکومت اپنے ان گھٹیا اقدامات سے کچھ حاصل نہیں کرسکتی، کیونکہ بحرین کے عوام ملک میں اصلاحات، آزادی بیان اور حقیقی جمہوریت کے خواہاں ہیں اور وہ اپنے اس حق سے دستبراد نہیں ہوں گے۔ بحرین کے معروف و بزرگ عالم دین آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم نے دینی و مذہبی سرگرمیوں پر پابندی کے لئے بحرین کی حکومت کی کوششوں کو تبعیض
آمیز اور غیر پختہ فکر کا عکاس قرار دیا ہے۔ دوسری جانب بحرین کی آل خلیفہ حکومت اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور اپنی غلطیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے ایران پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ بحرین میں مداخلت کر رہا ہے اور بحرینی انقلابیوں کو تربیت دے رہا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے بحرینی مخالفین کو ٹریننگ دینے کے بارے میں بحرینی عہدیداروں  کے دعوے کو سفید جھوٹ قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے اس جھوٹے دعوے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا بحرینی حکام دوسرے ممالک کے سر الزام تھوپنے کے بجائے طاقت کا استعمال ترک کرکے اعتماد بحال کرنے والے اقدامات کریں اور بحرین میں سنجیدہ مذاکرات کے لئے لازمی حالات فراہم کریں۔ وزارت خارجہ میں عرب اور افریقہ کے امور کے سربراہ حسین امیر عبداللھیان نے تہران میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے الزامات کا مقصد بحرین کے داخلی مسائل و مشکلات پر پردہ ڈالنا ہے۔

جب بحرین میں گھٹن کے ماحول، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں اور شہری حقوق کی پامالی کا سلسلہ کھل کر سامنے آيا تو بحرین اور سعودی عرب کے حکام سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے مغرب کے ساتھ مل کر اس حقیقت کے ساتھ غیر منطقی رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے شروع سے ہی مظاہروں کے سلسلے میں دشمنانہ رویہ اختیار کیا جبکہ سرکاری مشینری عوام کے برحق مطالبات کا مثبت جواب دے کر مذاکرات اور منطق کا راستہ اختیار کرسکتی تھی اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوجاتا، لیکن بحرینی حکام نے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور فوج و عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرکے صورت حال کو خراب کر دیا اور عوامی مطالبات کو سکیورٹی کے لئے
خطرہ بنا دیا۔
 
دوسری طرف خلیج فارس تعاون کونسل نے سعودی عرب کی مرکزیت میں سپر جزیرہ نامی فوج بحرین روانہ کر دی، تاکہ بحرینی عوام کے مظاہروں کو سختی سے کچل دیا جائے۔ سپر جزیرہ نامی فوج میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے فوجیوں اور کویت کی بحریہ نے حصہ لیا اور اس کی کمان سعودی عرب کے ہاتھ میں دی گئی۔ عالمی برادری نے اس اقدام پر قدرے انفعالی رخ اختیار کیا، جبکہ اس وقت کے امریکی وزیر جنگ رابرٹ گیٹس نے ان فوجیوں کے بحرین بھیجنے سے دو روز قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ سعودی فوج کی بحرین روانگی ان کے اشاروں پر ہوئی تھی۔ 

بحرینی حکام  نے حقیقت کے برخلاف غیر منطقی راستہ اختیار کیا اور حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایران پر بحرین میں مداخلت کا الزام عائد کر دیا۔ اس دعوے کے ساتھ ہی دوسرے مختلف ڈرامے بھی کئے گئے، جیسے مظاہرہ کرنے والے بعض قیدیوں سے جعلی اعترافات کرائے گئے اور منظم شکل میں بعض ذرائع ابلاغ کی جانب سے تخریب کاری کرنے والے گروہوں کے پکڑے جانے کی افواہیں پھیلائی گئيں۔ بحرینی حکام پر جب بھی ان کی ظالمانہ پالیسیوں پر انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں یا رائے عامہ کی جانب سے دباؤ بڑھتا ہے تو وہ دور باطل کی طرح یہ دعویٰ دہرانے لگتے ہيں کہ مخالفین نے ایران میں ٹریننگ حاصل کی ہے۔

منامہ سے شائع ہونے والے روزنامہ الوسط نے کچھ دن قبل ایران اور خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک کے تعلقات کے بارے میں ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ حالیہ زمانے میں ایک عجیب تاریخی نکتہ یہ سامنے آیا ہے کہ بعض عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف ایک محاذ پر جمع ہوگئے ہيں۔ صیہونیوں نے ایران کو
دنیا میں ایک خطرہ بنا کر پیش کرنے کے لئے یہ افواہ پھیلائی اور ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کے پروپیگنڈے کا ایک مرکز خلیج فارس میں ایران کے عرب پڑوسی ممالک کو بنایا گیا۔

مسلمہ امر یہ ہے کہ ایران کو بحرین میں بدامنی کا کوئی فائدہ نہيں ہے اور کچے دھاگےکی مانند یہ دعوے بحرین کے مسائل کے حل میں کوئی مدد نہيں کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران، علاقے میں امن و استحکام کو پڑوسی اور علاقے کے ممالک کے ساتھ تعاون کی بنیاد سمجھتا ہے کیونکہ ایران، عالم اسلام اور پڑوسیوں کے مفادات اور مصلحتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، اس بنا پر ایران کا خیال ہے بحرین میں جاری بحران اور مسائل و مشکلات پر قابو پانے کا واحد حل تعمیری تعاون ہے۔ آل خلیفہ حکومت کے تمام تر سرکوب گرانہ اقدامات کے باوجود بحرین کے عوام اپنے قیام اور انقلاب کے بارے میں اپنے عزم و ادارے میں مضبوط و استوار ہیں اور اس بحران سے نکلنے کے لئے واحد راستہ نئے آئین کی تنظیم کی ضرورت ہے، جو بحرین کے عوام کے مطالبات کو پورا کرسکتا ہے۔

بحرین میں عوامی انقلاب کے آغاز کو تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس ملک کی بحرانی صورت حال میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آل خلیفہ حکومت کے خلاف بحرینی عوام میں جس قدر جوش و خروش بڑھتا جا رہا ہے، اتنا ہی بحرینی عوام کے احتجاجات کو کچلنے کے لئے آل خلیفہ کے تشدد آمیز اقدامات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بحرین کے سکیورٹی ادارے انقلابی عوام کو غیر انسانی طریقے سے کچلنے پر اتر آئے ہیں۔ المیادین چینل کی رپورٹ کے مطابق آل خلیفہ حکومت نے جرمنی، جنوبی کوریا اور جنوبی افریقہ کی کمپنیوں کے ساتھ سمجھوتوں پر دستخط کرکے چھ لاکھ آنسو گیس کے
گولے خریدے ہیں، ان اعداد و شمار کے پیش نظر منامہ نے ہر بحرینی شہری کے لئے گویا آنسو گیس کا ایک گولا خریدا ہے، اب تک بڑی تعداد میں بحرینی عوام زہریلی آنسو گیس سے مسموم ہوچکے ہیں۔ جبکہ بعض کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ 

افسوسناک المیہ یہ ہے کہ آل خلیفہ حکومت، بحرینی عوام اور خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بے گناہ عورتوں کی گرفتاری آل خلیفہ حکومت کے لئے شدید رسوائی کا باعث ہے۔ اس وقت بحرین میں انسانی حقوق کو آشکارا طور پر پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں منجملہ ایمینسٹی انٹرنیشنل نے وسیع پیمانے پر تشدد آمیز اقدامات کے باوجود منامہ پر صرف تنقید پر اکتفا کرتے ہوئے بحرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہ امر ان بین الاقوامی اداروں کے، عالمی سطح پر استکباری طاقتوں کی لابیوں سے آل خلیفہ کی سر کچلنے والی پالیسیاں جاری رہنے سے بحرین کا بحران طولانی ہوتا جائیگا اور یہ مسئلہ ہر قسم کے سیاسی راہ حل کے امکان کو ختم کردیگا۔

جب تک انسانی حقوق اور جمہوریت کے حامی ممالک مظاہرین پر تشدد ختم کرنے کے سلسلے میں آل خلیفہ کی شاہی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالیں گے، اس وقت تک یہ حکومت عوامی تحریک کو کچلنے کے لئ اپنے مظالم جاری رکھے گی۔ بہرحال ملت بحرین کے قیام کی تیسری سالگرہ آرہی ہے اور پوری قوم چودہ فروری کو سول نافرمانی کے لئے آمادہ ہوچکی ہے۔ سول نافرمانی کی یہ تحریک تین دنوں تک منامہ میں جاری رہے گی اور کہا جارہا ہے کہ  یہ اقدام، ملک میں مثبت تبدیلی لانے اور موجودہ تعطل توڑنے کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 350337
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
گوڈ
ہماری پیشکش