0
Wednesday 26 Feb 2014 13:47

وزیراعظم کو دلیرانہ اور تاریخ ساز فیصلہ کر ہی لینا چاہئے

وزیراعظم کو دلیرانہ اور تاریخ ساز فیصلہ کر ہی لینا چاہئے
تحریر: تصور حسین شہزاد

پشاور کے علاقے یونیورسٹی ٹاؤن کے حساس علاقے میں واقع ایرانی قونصلیٹ کے قریب ایف سی چیک پوسٹ پر خودکش دھماکے کے نتیجے میں 2 اہلکار شہید جب کہ 9 زخمی ہوگئے۔ دھماکے بعد ایرانی قونصلیٹ کی سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کی جانب سے مشکوک شخص کی اطلاع پر فائرنگ بھی کی گئی۔ قونصلیٹ کے قریب ہونے والا دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ اس کی آواز شہر بھر میں سنی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور گاڑی میں سوار تھے جن کا ہدف ایرانی قونصلیٹ تھا، دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جائے حادثہ سے ایک مشکوک شخص کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ ایک اور شخص کی علاقے میں موجودگی کی اطلاع پر سرچ آپریشن جاری تھا۔ شمالی وزیرستان میں فوج کو سکیورٹی فورسز پر شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کی اجازت ملنے کے بعد جہاں شمالی وزیرستان میں سرجیکل سٹرائیکس جاری ہیں وہیں پشاور دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ کے پی کے کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی واشگاف الفاظ میں دہشت گردی کرنیوالے شدت پسندوں کیخلاف فوجی آپریشن کی حمایت کر دی ہے اور کہا ہے کہ جو لوگ افواج اور شہریوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس ہونی چاہئیں۔ مذاکرات کرنے والوں سے مذاکرات اور دہشت گردی میں ملوث طالبان کے خلاف آپریشن کیا جائے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں سنجیدگی ہونی چاہیے، وزیراعظم نواز شریف خود مذاکرات کی قیادت کریں۔ امریکہ دس سال سے افغانستان میں فوجی آپریشن کر رہا ہے مگر کامیاب نہیں ہوا۔ تحریک انصاف مذاکرات کے ذریعے امن لانا چاہتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ آپریشن کرنا ہے تو پہلے ان علاقوں سے شہریوں کو نکالا جائے۔ جب کہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ دہشتگردانہ حملوں سے مذاکرات کا عمل متاثر ہوا ہے، مگر ابھی مذاکرات کا آپشن ختم نہیں ہوا۔ ان کے مطابق شمالی وزیرستان میں مکمل آپریشن کیلئے مشاورت ہو رہی ہے، کابینہ کے اجلاس میں مکمل فوجی آپریشن اور فضائی حملوں سمیت دیگر آپشن پر غور کیا جائے گا اور اس بارے میں سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ گذشتہ 60 دن سے کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا، پاکستان کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی نہیں۔ تاہم وزیر خارجہ نے یہ کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی کہ پچھلے دو ماہ سے ڈرون حملے نہ ہونا حکومت کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے کیونکہ امریکی طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کئے جانے پر امریکی حکام پاکستان کو باور کرا چکے تھے کہ اگر اس بات چیت کے عمل کے دوران سی آئی اے کو کسی اہم ہدف کے بارے میں اطلاع موصول ہوئی تو امریکہ اسے نشانہ بنانے سے نہیں چوکے گا۔

اب خدا جانے کہ کیا حکمت ہے کہ مذاکرات کے دوران کسی ڈرون حملے کی بجائے افغانستان میں یرغمال بنائے گئے ایف سی اہلکاروں کی شہادت کی خبر جاری کر دی گئی، جس سے بات چیت میں خلل واقع ہوگیا۔ یہ حادثہ کئی ماہ پہلے رونما ہوا تھا مگر اس کی عین مذاکرات کے دوران اطلاع نے وہی کام کیا جو کسی ڈرون نے کرنا تھا، لہذا گمان کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی مبینہ طور پر افغانستان، سی آئی اے اور طالبان میں امریکی گماشتوں کی باہمی سازش کا شاخسانہ ہے۔ جس سے پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا اور اب طالبان کی جانب سے نمائندگی کرنے والے پروفیسر ابراہیم حکومت کی جانب سے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے کے اعلان کے باوجود ناامید ہیں، جبکہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم نے مذاکرات کی حمایت کی تھی، آپریشن کی نہیں۔ وزیراعظم ایوان میں آ کر بتائیں کہ مذاکراتی عمل کس نے سبوتاژ کیا، خارجہ پالیسی پر حکومتی یوٹرن نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بتائے پاکستان شام میں مداخلت کرنے کیوں جا رہا ہے۔؟ حکومت نے اہم معاملات میں اعتماد میں نہ لیا تو استعفٰی دیدیں گے۔ اپوزیشن پارلیمنٹ کا بائیکاٹ بھی کر دے گی۔

یہ صورت حال یقیناً ان لوگوں کیلئے سخت تشویشناک ہے جو ہر صورت ملک میں امن کا دور دورہ دیکھنے کے متمنی ہیں مگر حالات کا رُخ بتا رہا ہے کہ منزل ابھی بہت دور ہے اور بے سمت چلنے سے اس کا حصول کیسے ممکن ہے؟ خاص طور پر جب ہمارے اکابرین اس شدید ترین بحران میں بھی یکسو ہونے میں نہیں آ رہے۔ کہا جاتا ہے کہ حالات کی خرابی میں قیادت کی اہلیت اور صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ قوموں پر آزمائش اور ابتلا کے ادوار آتے ہیں، وہ قومیں خوش قسمت ہوتی ہیں جنہیں امتحان کی گھڑی میں دور اندیش اور فیصلہ ساز قیادت نصیب ہوتی ہے اور وہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر ہر قسم کے ذاتی مفاد اور مصلحتوں سے بالا تر ہو کر وسیع تر قومی مفاد کے تحت بعض اوقات ایسے اقدام بھی کر جاتی ہیں، جن کے بظاہر غیر مقبول ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، مگر اس کے نتائج دیرپا اور مثبت ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے ہمیں ایک ایسے ہی جرأتمند، مدبر اور فیصلہ ساز قائد کی ضرورت ہے جو قوم کو دہشت گردی اور مسائل کے بھنور سے کامیابی کے ساتھ نکال لے جائے۔ سید خورشید شاہ، وزیراعظم کو ایک طرح سے چیلنج دے رہے ہیں کہ وہ لیڈر بن کر دکھائیں تو قوم کو اپنے ساتھ پائیں گے، اب یہ نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی و دانش کا امتحان ہے کہ وہ ساری سیاسی قیادت کی رہنمائی کا فرض کیسے ادا کرتے ہیں۔

پیش منظر کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال ان کیلئے سازگار ہے، عسکری و قومی سیاسی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے، بے شک دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے مگر اس تیرگی میں روشنی کی کرن بن کر ابھرنے والی یہ خبر خوش آئند ہے کہ طالبان کے درمیان بھی اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ طالبان کے ایک اہم کمانڈر عصمت اللہ شاہین کی ساتھیوں سمیت ہلاکت بہت مثبت اشارہ ہے کہ ہمیں تباہ کرنیوالے آپس میں ہی ٹکرا کر ہمیں موقع فراہم کر رہے ہیں کہ ہم بھی ان کے درمیان پڑنے والی پھوٹ کو اپنے حق میں کیسے مہارت سے استعمال کرکے انہیں مزید کمزور کرکے اپنے راستے آسان کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عصمت اللہ شاہین طالبان کے ان سینیئر رہنماؤں میں سے ایک تھا جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایف سی اہلکاروں کے اغوا اور محرم کے جلوسوں پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی وہی تھا، جس نے محسود قبیلے سے طالبان کی قیادت سوات کے شدت پسند فضل اللہ کو سونپنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی موت سے طالبان کی قیادت کو جو ضعف پہنچا ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ شدت پسندوں کی کمر توڑنے کیلئے وزیراعظم کو دلیرانہ اور تاریخ ساز فیصلہ کر لینا چاہئے۔ اقوام عالم کی تاریخ بنانے والوں کے شمارے میں یادگار فتح مندی کا ایک باب ان کے نام سے موسوم ہونے کو بے تاب ہے!
خبر کا کوڈ : 355695
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش