0
Wednesday 19 Mar 2014 00:28

پاک، ایران دوستی

پاک، ایران دوستی
تحریر: نصرت شہانی

مظلوم فلسطینیوں کے قاتل، قبلہء اول کے غاصب اسرائیل کی خوشنودی کیلئے ایک طرف امریکہ، سعودی عرب کے ذریعہ شام کے باغی دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے، دوسری طرف سعودی عرب پہ دباؤ ڈال کر قطر سے سفارتی تعلقات اس بہانہ سے ختم کرائے کہ وہ مصری اخوان المسلمون کا حامی ہے۔ مسلمانوں کو لڑانے کے اسی منصوبہ کے تحت اب تاریخی پاک، ایران مثالی تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران نہ صرف اس خطہ میں ہمارا واحد دوست مسلم ہمسایہ ہے بلکہ اس سے دیرینہ، پائیدار تہذیبی، ثقافتی، علمی و روحانی رشتے بھی ہیں۔ ماضی میں فارسی برصغیر کی سرکاری زبان رہی ہے۔ اب بھی دینی مدارس کے نصاب میں کسی نہ کسی شکل میں شامل نصاب ہے۔ ہمارا اصل دینی مرکز حجاز، مکہ و مدینہ ہے (جسے بدقسمتی سے سعود خاندان کی غیر اسلامی بادشاہت کی وجہ سے ’’سعودی‘‘عرب کہا جاتا ہے) مگر زمینی سرحد نہ ملنے کی وجہ سے فقط صاحبان حیثیت ہی وہاں کے مقدس مقامات کی زیارت سے فیضیاب ہوتے ہیں جبکہ کوئٹہ سے چند گھنٹے کے زمینی راستے پر واقع ایران میں کئی انبیاءکرام علیہم السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آل (ع) کے مزارات ہیں جن کی زیارت کے لئے وطن عزیز سے ہزاروں زائرین پورا سال جاتے رہتے ہیں۔

35 سال قبل علماء کی قیادت میں آئے اسلامی انقلاب کے بعد یہ رشتے زیادہ مستحکم ہوئے ہیں جسے اسلام دشمن طاقتیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 14 مارچ 2014ء کو لاہور سے شائع ہونے والے ایک روزنامے میں عالمی میڈیا سے ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ کے مضمون کا ترجمہ ’’پاک ایران اختلافات‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ مندرجات کا ہدف عنوان سے واضح ہے۔ مواد اپنا ہو یا ’’درآمد شدہ‘‘ قومی، ملکی مفاد پیش نظر رہنا چاہیئے، ورنہ عالمی میڈیا تو’’عظیم تر اسرائیل‘‘ میں مکہ، مدینہ اور آزاد کشمیر ۔۔۔۔ کو انڈیا کا حصہ دکھانے اور منوانے پر تلا ہوا ہے۔ جس قضیہ کے بہانے مضمون میں شرانگیزی کی گئی ہے، اس کے بارے دونوں ممالک کے حکام نے کوئٹہ میں بیٹھ کر مذاکرات کر لئے ہیں۔ در حقیقت اپنے سرحدی محافظوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں اغواء کے حوالے سے ایرانی عہدے دار کے بیان کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی تھا۔ نتیجے کے طور پر اسکا فائدہ ہمیں ہی پہنچنا تھا، البتہ اس طرح کے بیان میں مسلمہ قوانین و اخلاقیات کی پابندی لازم ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی نے ہمارے قومی وجود کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔

بلوچستان میں تو ہے ہی دہشت گردی کا راج۔ اگرچہ شیعہ مسلک تو ان کا بڑا ہدف رہا ہے مگر سکیورٹی اہلکار و دیگر شہری بھی لشکر جھنگوی وغیرہ کی سفاکیت کا شکار ہیں۔ خصوصاََ PP کی گذشتہ حکومت نے جس طرح دانستہ طور پر دہشت گردی سے چشم پوشی کی وہ اظہر من الشمس ہے۔ دوسری طرف ایران جیسا دوست ہمسایہ ملک ہے جو وطن عزیز میں ہونے والی دہشت گردی کا متاثرہ فریق ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں یہاں اس کے سفارتکار، طلباء، انجینئرز قتل کئے گئے۔ بحمدللہ اس دوست ملک میں ہمارے شہریوں کیساتھ ایسا کوئی سانحہ نہیں ہوا۔ ہماری سرزمین سے مبینہ طور پر دہشت گردوں نے ’’ جنداللہ ‘‘ کے نام سے سرحد پار ایرانی بلوچستان میں بربریت کی تاریخ رقم کی جس میں فقط سرکاری اہلکار ہی نہیں بلکہ شیعہ ،سنی عوام بھی شہید ہوئے۔ ہمارے میڈیا میں بھی آ چکا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ ’’جنداللہ ‘‘کا دہشت گرد عبدالمالک ریگی بدقسمتی سے ہمارے بلوچستان سے یہ کارروائیاں کرتا رہا۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہماری حکومت اپنے ہزاروں شہداء کے سفاک قاتلوں کے خلاف موثر کارروائی نہ کرسکی بلکہ عدالتی سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزا پر عمل، حکم قرآنی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منسوخ کر دیا تو ان حالات میں دہشت گردی کے متاثرہ دوست ہمسایہ ملک کی تشویش بجا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ امت مسلمہ کیلئے دیگر گراں قدر خدمات کے علاوہ ، ایران گزشتہ 35 سال سے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل و امریکہ کی مخالفت کر رہا ہے، حالانکہ فلسطین میں شیعہ نہیں رہتے جب کہ عرب مسلمان ممالک کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے میڈیا کو حد درجہ محتاط رہنا چاہیئے کہ اسلام دشمن طاقتیں اپنے مذموم عزائم کے لئے کہیں ہمیں ہی استعمال نہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 362488
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش