1
0
Wednesday 19 Mar 2014 01:13

سعودی و بحرینی بادشاہوں کی آمد، خدا خیر کرے

سعودی و بحرینی بادشاہوں کی آمد، خدا خیر کرے
تحریر: میثم ساجدی

بحرین کی نہتی مسلم عوام کے قاتل، ان کے حقوق کو پامال کرنے والے، اہل تشیع کے علاقوں پر حملے کرنے والے، ہزاروں کی تعداد میں اہل تشیع کو نوکریوں سے بے دخل کرنے والے، منامہ کی مرکزی جگہوں پر موجود مساجد اور امام باگاہوں کو شہید کرنے والے، بے رحم سنگدل آل سعود کے پٹھو، بحرین کا ظالم بادشاہ، آج پاک سرزمین کو نجس کر رہا ہے۔ ان مڈل ایسٹ والوں نے ہمارے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی ہے۔ آج جتنے دہشت گرد گروپ موجود ہیں، سب انہی کے بنائے ہوئے ہیں، آج جب یہ ختم ہو رہے ہیں، ان کے دن گنے جا چکے ہیں تو پھر ہمیں اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کے لیے ہمارے پاس آ رہے ہیں، اور ہم ہمیشہ کی طرح اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو کچلنے کے لیے اسلحہ بھی دیں گے اور بندے بھی دیں گے۔

میری پاکستانیت ہمیشہ مجھ پر غالب رہتی ہے، جانے کیوں جب میں نے یہ پڑھا تھا کہ ایمل کانسی کے کیس کی سماعت کے دوران جب جج کو بتایا گیا کہ اسے گرفتار کرنے کے لیے بہت بڑی رقم ادا کرنی پڑی ہے تو جج نے کہا تھا، اتنی رقم کیوں ادا کی گئی، پاکستانی تو سو ڈالر میں اپنی ماں بیچ دیتے ہیں، یقین جانئے میرے بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ اگر وہ جج اس وقت میرے سامنے ہوتا تو یقیناً میں اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتا، مگر اب جب میں اپنی حکومتوں کے کردار کو دیکھتا ہوں کہ ہم کس قدر جلدی میں اپنے فلسطینی بھائیوں کو مارنے کے لیے اپنے بندے اسلحہ سمیت اردن بھیج دیتے ہیں، جہاں وہ بدترین قتل عام کرتے ہیں اور ہم فقط چند ڈالروں پر خوش ہو جاتے ہیں۔
سعودی ہمارے ساتھ کس ذلت کا سلوک کرتے ہیں، یہ کسی بھی وہاں کام کرنے والے سے پوچھ لیں، ابھی بھی ہزاروں پاکستانی ان کی جیلوں میں قید ہیں، جن سے انسانیت سوز سلوک ہوتاہے، روضہ نبی کو سلام کرنا جرم بنا دیا گیا ہے، بزرگ مسلمانوں سے جس قدر توہیں آمیز سلوک کیا جاتا ہے خدا کی پناہ۔ مگر ہم ان کی خدمت میں ہر وقت بچھے جا رہے ہیں، ان کی حالت یہ ہے کہ چند لوگوں نے گڑ بڑ کر دی تو بھی ہمارے لوگ جاکر اس گڑ بڑ کو درست کرتے ہیں۔

اب گریٹر گیم چل رہی ہے، سعودی عرب کو اندرونی اور بیرونی ہر دو طرح کے خطرات کا سامنا ہے، عوام بادشاہی نظام سے تنگ آچکی ہے، امریکہ بہادر بھی تھوڑا سا دور ہوگیا، شام میں بہت بڑی ناکامی ہوئی، مگر اسے قبول کرنا مشکل ہے، ہزاروں لوگ اور اربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں، عالمی ساکھ داو پر لگی ہے، اپنے بندے بھیج نہیں سکتے، ان کو ٹریننگ نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ لوگ جب سعودی عرب واپس جائیں گے تو جن بنیادوں پر بشار کے خلاف لڑیں گے کہ وہ ایک ڈکٹیٹر ہے، وہاں جمہوریت نہیں ہے، اس نے عوام پر ظلم کئے ہیں، وہ امریکی ایجنٹ ہے، یہ تمام چیزیں مملکت سعودی عرب کے اندر بھی موجود ہیں۔ وہاں عوام پر ظلم ڈھایا  جا رہا  ہے، شام میں چلیں ان کے بقول دکھانے کی حد تک انتخابات تو ہوتے ہیں، شام میں چلیں ایک جماعت کی حکومت ہے، مگر سعودی عرب میں ایک خاندان کی حکومت ہے۔ عوام  کی بات چھوڑیں شاہی خاندان کی خواتین نے اقوام متحدہ کو خطوط لکھے ہیں کہ ہمارے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کی دوستی تو ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنیاد پر انہوں سعودی نوجوانوں کو محاذ جنگ سے دور رکھنا ہے، ابھی سعودی عرب نے جنگ میں جانے والے کو پندرہ دن میں وطن واپس آنے کا کہا تھا، ورنہ نیا قانون بنا دیا کہ اگر نہ آئے تو بیس سال قید ہوگی، کیا مذاق ہے، پوری مسلم دنیا میں نوجوانوں کو جہاد کے نام پر اسرائیل کے تحفظ کے لیے جمع کیا، ہزاروں گھروں کو برباد کیا اور کر رہے ہیں، ایک اسلامی ملک کو تباہ برباد کر دیا اور اب اپنے نوجوانوں کو واپس بلایا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کے پاس پیسے بھی ہیں، اسلحہ بھی ہے، محاذ جنگ بھی ہے، مگر لڑنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے ڈیڑھ عرب ڈالر دیا ہے، اسلحہ خریدنے کے نام پر اور پیسے بھی دیں گے، مطالبہ شام جنگجو بھجوائیں، سعودی عرب کو استحکام کے لئے آرمی کو سٹینڈ بائی رکھیں، بحرین کی حکومت کے تحفظ کے لئے مزید فوجی دیں، طالبان سے مذاکرات کو اسی پیرائے میں دیکھیں۔ ہم ان مطالبات کو سنیں گے، اپنے پیسے وصول کریں گے، نتائج سے بے پرواہ، جیسے روس کے خلاف لڑنے کی سزا آج تک بگھت رہے ہیں، وہی مجاہد ہمارے گلے پڑگئے ہیں، ہم پھر دوسروں کی آگ میں کودیں گے، اپنے پڑوسیوں کو ناراض کریں گے اور ان کے ساتھ رشتہ بنائیں گے جو اپنے وجود کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، جنہوں نے ہمارے گھروں میں آگ لگائی ہے، خود آرام سے سوتے ہیں، ہمیں بے آرام کیا ہے اور جب ان کا مقصد پورا ہوجائے گا تو استعمال ہوئے ٹشو پیپر کی طرح ہمیں پھینک دیں گے۔

بحرین کے بادشاہ کا دورہ بھی اسی تناظر میں ہے، لیکن شام میں ان کو شکست ہوچکی ہے، اسی طرح عراق میں بھی ان لوگوں کے آخری دن ہیں، اس کے بعد یوم حساب شروع ہونے والا ہے، ان مظلوم ماوں کی آہ و بکا، ان بچوں کی چیخ و پکار، وہ بہنوں کی گریہ و زاری سب اللہ کے ہاں پہنچ چکا ہے۔ مہلت شاید ختم ہونے والی ہے، ملک حماد بن عیسٰی کا دورہ شاید خود کو بچانے کی کوشش کا یک حصہ ہے، مگر اب سب تدبیریں الٹی ہوں گی، کیوں اب خدا نے حساب لینا ہے، جو اس میں زیادہ الجھے گا، ان کو تو نہ بچا پائے گا، خود بھسم ہو جائے گا۔ ہمیں عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اس آگ سے دور کر لینا چاہیے، ورنہ اس کے آفٹر شاکس بہت شدید ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 363338
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

zinda baad
so feesad muhibe watan ho
jeety raho
tahffuze watan e azeez pakistan k liye
aap ki koshishoon pr salam kety hen
ہماری پیشکش