0
Wednesday 9 Apr 2014 23:20

پاکستان طالبان کے محاصرے میں

پاکستان طالبان کے محاصرے میں
تحریر: زاہد حسین

ستمبر 1938ء میں برطانوی وزیراعظم نویل چیمبرلین نے میونخ معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد اپنی لندن واپسی کے موقع پر ایک پرمسرت مجمع سے کہا تھا، ''مجھے یقین ہے کہ ہم نے امن حاصل کر لیا ہے۔" وہ "امن" جسے چیمبرلین نے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اس کا مطلب چیکوسلواکیہ کو ایک پلیٹ میں رکھ کر ہٹلر کے حوالے کر دینا تھا۔ چیمبرلین کی اس خوشامدانہ پالیسی سے امن نہیں حاصل ہوا بلکہ اس نے پوری دنیا کو جنگ کی بھیانک آگ میں جھونک دیا۔ ہمارے پاس بھی میونخ سے ملتے جلتے لمحات ہیں، ریاست کو للکارنے والے تشدد پسندوں سے جنگ میں واسطہ پڑا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے سے انکار کرتے ہیں۔ یاد رہے چند سال پہلے سوات میں کیا ہوا تھا؟ 2008ء میں ایک امن معاہدے کے تحت تمام تشدد پسند کمانڈروں کو رہا کر دیا گیا جو فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کئے گئے تھے۔ وہ اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے اور اپنے مخالفین کو بےدردی سے قتل کر دیا۔ وہ پورا علاقہ ملا فضل اللہ کے وحشیانہ دور حکومت کا حصہ تھا۔ اس کے باوجود ہمارے قائدین اس امن کے دھوکہ کو دوسرا موقع دینے سے باز نہ آئے اور 2009ء میں ایک اور امن معاہدہ کے ذریعہ انکو آس پاس کے تمام علاقوں میں مزید پیش قدمی کا موقع دیا۔

لیکن ہمیں تو اپنی غلطیوں کو دہرانے کی عادت ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر ہم انہیں نام نہاد امن مذاکرات میں انہیں دہشتگردوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں، جو اس خوں ریزی کے ذمہ دار تھے، جس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ پچھلے ہفتے حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے بیچ براہ راست مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کی تفصیلات کا انکشاف میڈیا پر اس طرح ہوا جیسے کہ کوئی مزاحیہ ڈراما ہو۔ قبائلی علاقہ میں ٹی ٹی پی کے ایک دور افتادہ مقام پر منعقد کئے گئے یہ مذاکرات دراصل طالبان کے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک بہانہ تھے، اپنے "قابل احترام استاد" مولانا سمیع الحق کی معیت میں۔ لیکن ان کے سخت رویہ میں کسی طرح کی لچک کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔
بات بظاہر ایک جگہ پر آکر رک سی گئی، جب کہ طالبان نے پاکستان کی سکیورٹی افواج کی قید میں 300 سے 400 افراد، جن میں زیادہ تر سخت گیر قسم کے دہشت گرد/ تشدد پسند شامل ہیں، کی رہائی کے ساتھ ساتھ، جنوبی وزیرستان سے فوجوں کے انخلا کا مطالبہ بھی کیا۔
 
اگر مذاکرات تعطل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، تو بھی طالبان نے اپنے کچھ مقاصد تو حاصل کر ہی لئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی ہے اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ان کے نیٹ ورک کے خلاف ہر قسم کی کارروائی روک دی گئی ہے۔ میڈیا نے کچھ رپورٹیں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ جنگ بندی کی آڑ میں دراصل طالبان نے اپنا اسلحہ اور اپنے جنگجوؤں کو شمالی وزیرستان سے ہٹا کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ فوج نے اس سال کے شروع میں تشدد پسندوں کے کیمپوں اور اسلحہ خانوں کو تباہ کرکے جو فائدے حاصل کئے تھے، اس صلح نامے کے بعد وہ سب کھو دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی سب سے بڑی فتح یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت نے ان کی سرگرمیوں کو قانونی جواز دے دیا ہے۔ دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رہنے کی وجہ سے امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ ایک قانونی جواز کے ساتھ ایک مزید طاقتور ٹی ٹی پی ایک کمزور ریاست کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو اپنے زوال پذیر نظریوں کو بزور طاقت پھیلانے اور نافذ کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

پچھلے مہینے مذاکرات کے دوران اسلام آباد عدالت پر حملے نے ان کے ارادوں کو صاف صاف ظاہر کر دیا ہے۔ اگرچہ کہ نیٹ ورک نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے جو رپورٹیں ملی ہیں، ان سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ اس حملہ کا حکم ملا فضل اللہ نے دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس حملہ کا مقصد مذاکرات شروع ہونے سے پہلے حکومت کو دباؤ میں لانا تھا، لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات، بہرحال، وزیر داخلہ کا رویہ تھا، جس سے انہوں نے ٹی ٹی پی کی اس حملے سے مکمل لاتعلقی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اگر دونوں جانبین میں کسی قسم کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے، تو دہشت گرد تشدد کا راستہ نہیں چھوڑیں گے۔ ڈر کی بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے کی قتل و غارت گری کی بجائے یہ دہشت گرد اپنے مخالفین اور نقادوں کو نشانہ بنانا شروع کرسکتے ہیں۔ صحافی رضا رومی پر حملہ، جس میں ان کا ڈرائیور مارا گیا، آئندہ ہونے والے واقعات کا محض ایک ٹریلر ہے۔

جو بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے، وہ بہرحال یہ ہے کہ حکومت کی انہیں خوش کرنے کی پالیسی نے ملک کو صوبائی، نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے، جس کا اتنا شور تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے۔ بہت ساری سیاسی جماعتیں آل پارٹی کانفرنس کے ریزولوشن سے اعلانیہ اپنے آپ کو لاتعلق کرنا شاید پسند نہ کریں، لیکن انہیں بہت کم امید ہے کہ مذاکرات ملک میں امن لاسکیں گے۔ جہاں سندھ کی ساری سیاسی جماعتیں ایک سخت موقف کی حامی ہیں، پنجاب کی پارٹیوں نے تشدد پسندی کی جانب مفاہمانہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔ عسکریت پسند نہایت چالاکی سے اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر صرف ان سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو ان کی سرگرمی سے مخالفت کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے مرحوم گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ پی پی پی کی حکومت سندھ میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن میں مصروف ہے۔

ٹی ٹی پی کو جائز قرار دینے سے، درحقیقت نہ صرف اقلیتی فرقوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے بلکہ اکثریتی سُنّی فرقہ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو زیادہ روادار اور متحمل اسلام میں یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی معاہدہ جو ٹی ٹی پی کی شرطوں پر ہوگا، وہ ملک کو خانہ جنگی کے خطرے میں ڈال کر اس کے سماجی تار و پود کو بکھیر دے گا۔ ہر سال 30 اپریل کو فوج اپنے شہیدوں کا دن مناتی ہے، اپنے سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جنہوں نے تشدد پسندوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ انکے پس ماندگان کی تعداد ہر سال بڑھ جاتی ہے، مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے جو اگلی صفوں میں شہید ہوتے ہیں۔ نئے فوجی سربراہ دہشتگردوں کے شکار جوانوں کے خاندانوں کا سامنا کیونکر کریں گے، جنکے سامنے ریاست ہتھیار ڈالنے جا رہی ہے؟ یہ امن تو نہیں ہے بلکہ ملک کی تباہی ہے، جس کا سودا ہمارے قائدین کرنے جا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 371193
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش