1
0
Thursday 28 Aug 2014 15:40

دین واسطے سیاست یا سیاست واسطے دین

دین واسطے سیاست یا سیاست واسطے دین
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
 
2008ء میں مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ مجھے مولانا ڈیزل کہنا، میری تضحیک ہے۔ اس نام کو گھڑنے میں آئی ایس آئی کا کردار ہے جس میں نواز لیگ نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ مجھے ڈیزل کہنے والے معافی مانگیں کیونکہ میں نے ڈیزل کا کوئی پرمٹ نہیں لیا۔ نواز لیگ نے یقیناً مولانا سے ہاتھ جوڑ کے، پاؤں پکڑ کر معافی مانگی ہوگی جو مولانا آج حکومت میں شامل اور وزارتوں پر اپنے روحانی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اگر ان کا مطمع نظر ہمیشہ ہی حکومت، وزارت رہی تو اس حوالے سے کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہیئے۔ ہر کسی کے اپنے اپنے شوق ہوتے ہیں۔ اگر کل کلاں ان کا کوئی بھائی اپنے شہر کے بیچوں بیچ سرکاری کواٹرز کی دیواریں پھاندنے کی ناکام کوشش کرتا نظر آئے تو اس میں یقیناً مولانا کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ ان کے اپنے حلقے میں سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کی مد میں ان کی جماعت کے افراد پیش پیش نظر آئیں تو یہ ان کارکنان کا ذاتی فعل ہو سکتا ہے، مولانا کی خواہش نہیں۔ محمد رفیق خان کی بیوہ نسیم بیگم اپنا پانچ کنال رقبے کا پلاٹ جمعیت علماء اسلام سے واپس لینے کے لیے روزنامہ مشرق میں اشتہار بازی کریں تو اس میں قصور اس بیوہ کا ہو سکتا ہے جس نے پانچ کنال میں سے ایک کنال مسجد مدرسہ کے لیے مولانا کی جماعت کے سپرد کی اور باقی چار کنال جماعت نے اپنا خصوصی حق استعمال کرتے ہوئے خود ہی وصول کرلی۔ ایسے معاملات میں مولانا فضل الرحمٰن جیسی دینی، سیاسی، علمی شخصیت کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔

مولانا فضل الرحمٰن جیسا حدود اربعہ رکھنے والے دینی و سیاسی قد کاٹھ کے مالک وطن عزیز میں ویسے ہی ناپید ہیں۔ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کے خیال میں مولانا کے خیالات سے اختلاف، دین سے اختلاف کے زمرے میں آتا ہے۔ مولانا کے عقیدت مند سے ان سے جتنی بھی اندھی عقیدت رکھیں کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہیے، البتہ شکایت اس وقت ضرور پیدا ہوتی ہے جب دینی لبادے میں سیاسی شخصیت اپنے شخصی مفادکے مدنظر ایسے الفاظ و تراکیب کا استعمال کرے جس سے کسی کا عقیدے یا عقیدت پر حرف آئے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کے حوالے سے اپنے بیان میں جس طرح شام غریباں کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، اس سے کروڑوں فرزندان توحید کے جذبات مجروع ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن یا ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کے سیاسی سفر کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ جس طرح مولانا سیاسی مقاصد کے لیے دین کا استعمال کرتے ہیں اسی طرح مفادات کی خاطر دیگر مکاتب کی دل شکنی بھی کرتے ہیں۔

انتخابی جلسوں میں مولانا نے اپنے خطاب میں جو عظیم دینی فیصلے دیہات کی سادہ لوح عوام کو سنائے تھے ان سے مولانا کی سیاسی ضرورت میں دین کی اہمیت ضرور واضح ہو جاتی ہے۔

اول: تمہارے پاس دو راستے ہیں، ایک راستے پر مختلف چیزیں ہیں، تیر ہے، شیر ہے، وغیرہ وغیرہ، اور ایک طرف کتاب ہے، قرآن ہے۔ بتاؤ تم کس کے ساتھ ہو۔ یاد رکھو کبھی کتاب اللہ کو مت چھوڑنا۔
(مولانا کی جماعت کا انتخابی نشان کتاب ہے، جسے وہ قرآن مجید کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے کوشش کی کہ اس کتاب کو کھول کر اس کے صفحات پہ 2+2=4 لکھ کے بلٹ پیپر پر چھاپا جائے تو مولانا نے وہ ہنگامہ کیا کہ یہ فیصلہ واپس لینا پڑا اور کتاب کھل نہ سکی)۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مولانا کتاب رکھنے کے قائل ہیں، کھولنے کے یا کھول کے پڑھنے کے روادار ہرگز نہیں ہیں۔

دوم:  یہ کہ ہمارے خلاف کسی اور جماعت کو ووٹ دینا حرام ہے۔

(عوام ووٹ کے لیے کسی اور جماعت کا انتخاب کریں تو حرام ہے، مولانا اقتدار کے لیے سیاسی جماعت کے بجائے وردی میں ملبوس آمر کا بھی انتخاب کرلیں تو وہ بھی حلال ہے)۔

سوم: ہمارے مقابلے میں امیدوار سامنے لانا گناہ ہے۔
(انتخابات میں ان کے سامنے امیدوار لانا گناہ ہے مگر انتخابات کے بعد مولانا انہی گناہگاروں کی محافل کا حصہ بننا عین کارِ ثواب سمجھتے ہیں)۔

چہارم: جمعیت کے مقابلے میں جو آتا ہے وہ دین کے مقابلے میں آتا ہے۔
(انتخابات کے بعد مولانا اسلام کے انہی باغیوں سے اتحاد بھی کر لیتے ہیں، اور ان کو مضبوط کرنے میں ایڑی سے چوٹی تک کا زور بھی لگاتے ہیں، اسلام کے باغیوں کا ساتھ دینے اور ان کو مضبوط کرنے کی شریعت میں کتنی گنجائش ہے، یہ مولانا بہتر بتا سکتے ہیں)۔

ڈی آئی خان (جو کہ ان کا آبائی سیاسی حلقہ ہے) میں عمر رسیدہ بزرگ مولانا کے بخت کو بہت حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی جائے تو مسکرا کر کہتے ہیں، کل کے بالک ہو، تمہیں کیا پتہ جب ان کے والد مفتی محمود صاحب کو جامع مسجد اہلسنت (بڑی مسجد) میں پہلی مرتبہ لایا گیا تھا، تو غربت اور سادگی ان کے چہرے اور حلیے سے عیاں تھی۔ جب کہ آج مولانا کو اسی شہر میں سیاہ و سفید کا مالک سمجھا جاتا ہے۔

اپریل 2013ء میں لکھا گیا سید انور محمود کا مولانا کے حوالے سے ایک تفصیلی آرٹیکل میری نظر سے گزرا جس کا عنوان تھا ’’بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرا ہوگا‘‘ عنوان سے ایک بات تو طے ہے کہ بنیے کا بیٹا گرا ضرور ہے۔ اب گرنے کے اس عمل کو گری ہوئی حرکت قرار دینا مناسب ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آپ بہتر کر سکتے ہیں، لیکن باریش چہرے کے ساتھ جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت کا جو راگ الاپا جا رہا ہے اس کی حقیقت اس کالم میں بخوبی ملتی ہے۔ جنرل ایوب خان کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح سے تھا، عمومی رائے یہی تھی کہ اگر ایوب خان عہدے سے الگ ہو کر صدارتی انتخاب لڑے تو ہار جائیں گے، جبکہ آئین میں ترمیم کے لیے انہیں جن دو ووٹوں کی ضرورت تھی ان میں سے ایک مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود کا تھا۔ مفتی صاحب نے یہ ایک ووٹ دیکر ایوب خان کی راہ ہموار کی اور اعتراض کرنیوالوں کو ببانگ دہل کہا کہ اگر ایوب خان کو ووٹ نہ دیتا تو محترمہ فاطمہ جناح پاکستان کی صدر بن جاتی اور اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت کا سربراہ مملکت بننا جائز نہیں۔
(مولانا فضل الرحمٰن نے شہید بےنظیر بھٹو کو نہ صرف سربراہ تسلیم کیا بلکہ حصول وزارت میں ان سے روحانی عقیدت کا اظہار کیا)۔ 1970ء میں مفتی محمود صاحب نے خیبر پختونخوا کی چالیس کی اسمبلی میں چار نشستیں لیکر وزارت اعلٰی کا انوکھا مطالبہ کیا اور مجبور نیشنل عوامی پارٹی نے انہیں بطور وزیراعلٰی برداشت کیا۔ آج جمہوریت کی فکر میں کمزور ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کے والد نے آمر ایوب خان کو کندھا فراہم کیا، جبکہ جنرل ضیاءالحق کی حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی اور تین وزیر ضیاء حکومت میں جمعیت علماء اسلام کے شامل ہوئے۔

1994ء میں مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد مفتی محمود کے خیالات سے بغاوت کرتے ہوئے بے نظیر حکومت میں شامل ہوئے۔ جس کے انعام میں انہیں خارجہ کمیٹی کی چیئرمین شپ ملی۔ اسی دور میں افغانستان ڈیزل سپلائی کے لیے پرمٹ حاصل کرتے رہے جہاں سے نجی محافل میں انہیں "مولانا ڈیزل" کا خطاب ملا۔ 2008ء کے انتخابات میں مولانا کو ڈیرہ سے شکست ہوئی اور یہ سیٹ پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کو ملی (بقول مولانا، جمعیت سے مقابلے میں آنیوالا اسلام کے مقابلے میں آتا ہے، جمعیت کے خلاف امیدوار لانا گناہ ہے)۔ مولانا بنوں سے الیکشن جیت کر ایوان میں پہنچے اور (اسلام کے باغیوں، گناہ گاروں) پیپلز پارٹی کی حکومت کے اتحادی بنے اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے علاوہ کئی مراعات حاصل کیں۔

مئی 2013ء کے انتخابات میں مولانا کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی گئی، حالانکہ خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنانے کے لیے مولانا نے نون لیگ سمیت امریکی سفیر کے دروازے تک بھی دستک دی مگر شنوائی نہیں ہوئی، چونکہ وزارت، حکومت اور اقتدار سے دوری مولانا کے شرعی نظریئے کے خلاف ہے لہذٰا کچھ ہی عرصے میں مولانا نواز لیگ کے اتحادی بن کر وزارتیں کمانے میں کامیاب ہو گئے اور خالصتاً دین کی خدمت اور سربلندی کے لیے ناچ گانوں پر مبنی راتوں کو شام غریباں قرار دینے سے نہیں چوکے۔ مولانا نے اس سیاسی سفر میں اسلام کے وقار اور سربلندی کے لیے ہر حکومت میں شامل ہونا ضروری سمجھا۔ اس دوران انہوں نے روس پر اسلام کے جھنڈے گاڑنے والے محب وطن طالبان کی بھی ہر ممکنہ شرعی، اخلاقی، سفارتی مدد کی مگر ان پر بےجا تنقید کرنیوالے ان کے اس عمل کو سی آئی اے کی خدمت قرار دیکر مولانا کی شخصیت داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مولانا نے ہزارہ شہداء کے جنازوں کو جلد دفنانے کے شرعی حکم سے بھی قوم کو اس وقت آگاہ کیا، جب مولانا کی نظر میں عوام سردی سے لطف اندوز ہونے کے لیے سڑکوں پر جمہوریت کے لیے خطرہ محسوس کئے جا رہے تھے۔ مولانا نے جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں اور شرعی احکامات کی پاسداری کے لئے یہ موقف اختیار کیا۔ یہ ان کے دینی اور سیاسی ویژن کا ہی کمال ہے کہ اسلام اور طالبان سے محبت میں انہوں نے کتے کو بھی شہید کا درجہ دیا۔ اعتراض کرنیوالوں نے جب سوال کیا تو مولانا نے جواب دیا یہ کتے سے محبت نہیں امریکہ سے نفرت کا اظہار ہے، یہ اور بات ہے کہ انکی نفرت کا نشانہ صرف امریکہ بنتا ہے امریکی ڈالر نہیں، (کیونکہ روس کے خلاف امریکی ڈالر سے ہونیوالے جہاد سے مولانا کو عشق کی حد تک پیار جبکہ 2003ء میں دورہ بھارت کے دوران مولانا نے ان تمام کشمیری مجاہدین کی کاروائیوں کو جہاد کی بجائے دہشت گردی قرار دیا جو بھارت کے خلاف نبرد آزما تھے)۔ شائد کہ مولانا کی نظر میں حقیقی جہاد وہی ہے جس میں ڈالر کی چاشنی شامل ہو۔ مولانا اپنے سیاسی سفر میں مفادات کے روپے اٹھانے کے لیے کئی بار دانستہ گرے ہیں۔ اب اپنی وزارتیں کھری کرنے کے بعد مولانا صاحب نے ایوان اقتدار کے سامنے جاری دھرنے جس میں ناچ گانے کی محافل بھی جاری ہیں کو شام غریباں قرار دیا ہے۔ بنیئے کے بیٹے نے اقتدار کا روپیہ چھپانے کے ایک بار پھر عقیدت، احترام، نیک جذبات کا تیل زمین پر گرا دیا ہے۔ ملت ان جماعتوں کے ردعمل کی شدت سے منتظر ہے کہ جو مکتب اہلبیت سے تعلق داری کی دعویدار بھی ہیں اور بنیئے کے بیٹے کے ساتھ بھی کھڑی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 407001
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محترم ڈاکٹر صاحب ، میرئے مضمون پر تبصرہ کا شکریہ، مضمون کا صیح عنوان تھا:۔۔۔۔
"بنیے کا بیٹا اور مولانہ فضل الرحمان۔ ایک کہانی ایک حقیقت"
تحریر: سید انور محمود
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=31356
ہماری پیشکش