0
Monday 25 Apr 2011 12:17

امریکی ہاتھی اور خدائی ابابیلیں

امریکی ہاتھی اور خدائی ابابیلیں
 تحریر:محمد علی نقوی
پانچ اردیبہشت مطابق پچیس اپریل (1980) ایران کے وسطی علاقے طبس میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست کی سالگرہ کا دن ہے۔ اس دن امریکیوں کو اپنے ان یرغمالیوں کو چھڑانے میں جو تہران میں امریکہ کے جاسوسی کے اڈے میں انقلابی طلباء کے ہاتھوں قید تھے، اور ایران کے خلاف کاروائی کرنے میں انتہائي عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی رہ نے اس واقعہ کا تجزیہ اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا ''میں نے بارہا کہا ہے کہ کارٹر دوبارہ صدارتی انتخابات جیتنے کے لئے ہر طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے کو تیار ہے وہ پوری دنیا کو آگ میں جھونک دینا چاہتا ہے اور اس کے ثبوت یکے بعد ديگر سامنے بھی آ رہے ہيں۔ مگر کارٹر کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اس طرح کے احمقانہ اقدامات سے ایران کے عوام کو جس نے اپنی آزادی و خودمختاری اور دین کی حفاظت کے لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہيں کیا ہے، ان کو اپنے راستے سے جو انسانیت اور اللہ کا راستہ منحرف کر سکے گا۔ کارٹر اب بھی نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ اس نے کس قوم سے پنجہ ملایا ہے اور وہ کس مکتب فکر کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے، ہماری قوم خون و شہادت کی قوم ہے اور ہمارا مکتب جھاد و قربانی کا مکتب ہے۔" امام خمینی نے اپنے اس تجزیہ میں جو ایک پیغام کی صورت میں تھا، واقعہ طبس کی دونوں جانب کی خصوصیات کو بخوبی نمایاں کر دیا تھا کہ ایک طرف وہ لوگ تھے جو اپنا منصب و مقام باقی رکھنے کے لئے پوری دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دینے سے بھی گریز نہيں کر رہے تھے اور دوسری طرف وہ لوگ اور وہ قوم تھی جس نے اپنے دین کی حفاظت اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے اللہ کے راستے کا انتخاب کر رکھا تھا اور ایرانی قوم کی یہی خصوصیت تھی جس نے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور اسی پاک جذبہ نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی سرفروشوں کو فتح دلائی تھی اور دشمنوں کے سیاسی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کو غیرموثر بنا دیا تھا، یہی نہیں انقلاب اور اسلامی نظام کو ختم کرنے کی دشمنوں کی ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح کی ہر طرح کی سازشوں کو بےنقاب کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ناکام بنا دیا۔
رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں، وہ شیطان جس کو قرآن نے دین کی منطق میں برائیوں اور شر کا مظہر قرار دیا ہے، انقلاب کی منطق میں بھی (برائیوں اور شر کا مظہر) ہے۔ یہ شیطان استکبار اور سامراج ہے جو دشمن انقلاب ہے۔ تمام شیطانوں میں سب سے زیادہ پست اور خبیث امریکا ہے۔ ایرانی مرد، خواتین اور ملک کے تمام افراد قوم جان لیں کہ آج ان کا کوئی دشمن امریکی حکام سے زیادہ بدتر، خبیث اور خطرناک نہیں ہے۔ وہ آزاد اور مستقل اسلامی جمہوریہ ایران اور اس قوم کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ البتہ مستقل ناکامی سے ہی دوچار ہوتے ہیں، لیکن سدھر نہیں رہے ہیں۔ ایک امریکی صدر نے اس ملک میں ہیلی کاپٹر بھیجے اور اس کو طبس کا طوفان لے ڈوبا۔ یعنی خدا کی غیبی فوج اس پر ٹوٹ پڑی۔ 
بہر حال امریکہ کو ایک ایسی قوم کے مقابلے میں مشیت الہی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جو صحیح معنوں میں اسلام کی وفادار اور خدا کے دین اور اس کے رسول ص کی سچی پیرو ہے۔ امریکہ نے ایک ایسی قوم کے خلاف فوجی کاروائی کی بھول کی تھی جس نے خود کو اللہ کے سپرد کر رکھا تھا اور اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں جس قوم کا کارنامہ صرف رضای الہی کی خاطر انجام پایا تھا، وہ قوم جو صرف احکام الہی کی بجاآوری اور اس کے رسول ص کی سنت کو استحکام بخشنے میں مصروف تھی اور سامراجی اور اسلام دشمن طاقتوں کی اس طرح کی سازشوں سے بے خبر تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ارادہ الہی ایسی قوم کی مدد و نصرت کے لئے وارد عمل نہ ہوتا؟ کیونکہ یہ تو الہی وعدہ ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے یعنی اس کے لئے کام کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔
 یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ ارادہ خداوندی اسلام دشمن سازشوں کو ناکام اور بےنقاب نہ کرتا؟ یہ سنت الہی ہے کہ اللہ مومنوں کا دفاع اور ان کی حفاظت کرتا ہے اور غداروں اور خیانتکاروں کے کید ومکر کو خود ان کی ہی طرف پلٹا دیتا ہے۔ جب ہم اس واقعہ کا معنوی جا‏ئزہ لیتے ہیں تو کچھ اس طرح کی صورت حال سامنے آتی ہے کہ ایک طرف امریکہ تھا، جو فروری انیس اناسی سے قبل برسوں تک ایران کو اپنی ایک کالونی میں تبدیل کئے ہوئے تھا اور ایرانی عوام کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے تھا اور بلا روک ٹوک ایرانی عوام کے ذخائر اور ان کی دولت و ثروت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا۔ اور دوسری طرف وہ قوم تھی جس نے اپنے اسلامی انقلاب کے ذریعہ امریکی سامراج اور اس کے آلہ کاروں کے تسلط اور جبر و استبداد کی حکومت کی بساط لپیٹ دی تھی اور اب وہ ان امریکی جاسوسوں کو یرغمال بنائے ہوئی تھی، جو انقلاب کے بعد ایران کے اندر مختلف سازشیں کر کے حالات کو انقلاب سے پہلے والی پوزیشن میں لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
 امریکی حکومت ظلم وستم، لوٹ کھسوٹ اور بدتہذیبی و معاشرتی برائیوں کا مظہر بنی ہوئی تھی۔ اپنے تسلط کوب اقی رکھنے کے لئے وہ تمام مادی اور غیرانسانی وسائل سے استفادہ کر رہی تھی جبکہ دوسری طرف ایرانی عوام نے اپنے مذہبی و دینی عقائد پر بھروسہ اور جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کے تسلط کا خاتمہ کر کے دشمنان اسلام کی بساط ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایران سے لپیٹ دی تھی اور وہ ہرگز اس بات کے لئے تیار نہيں تھے کہ کسی بھی صورت امریکہ اور اس کے آلہ کار دوبارہ ایران کی سرزمین پر سرگرم ہوں، اور اپنے نام ونشان کا اعلان کر بھی سکیں۔ 
طبس کے واقعہ میں اللہ نے شیطان کے پیرووں کے مقابلے ميں اپنے مومن بندوں کا آشکارہ دفاع کیا۔ بالکل اسی طرح کی مدد و نصرت جس طرح سے خدا وند عالم نے ابرھہ یا اصحاب الفیل کے مقابلے میں خانہ کعبہ کی حفاظت کے سلسلے میں اپنے ارادے و مدد کی جلوہ نمائی کی تھی۔ طبس کے صحرا میں امریکہ کے ہیلی کاپٹرز کئی دنوں کی اپنی جنگی مشقوں کے بعد جیسے ہی اصل کاروائی انجام دینے کے لئے تہران اور قم کی جانب اڑا چاہتے تھے ریت کے طوفان نے انھیں آدبوچا اور سب آپس میں ٹکرا کر تباہ ہو گئے، جس کا علم ایران کے عوام اور حکام کو بعد میں ہوا۔  اس وقت کے امریکی صدر کارٹر نے طبس کے واقعہ میں شرمناک شکست کھانے کے بعد کہا تھا کہ جدید ترین اسلحے تو ہمارے پاس ہیں مگر خدا ایرانیوں کے ساتھ ہے اور آج بتیس سال کا عرصہ گذرنے کے بعد باراک اوبامہ اور ان کی انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایران کے عوام سے دھونس و دھمکی کی زبان میں ہرگز بات نہيں کی جاسکتی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وعدہ الہی پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ ان تنصرواللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم ۔
خبر کا کوڈ : 67684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش