0
Sunday 20 Nov 2011 19:03

امریکہ کی دوستی نہیں غلامی ہوا کرتی ہے، الیکشن میں مظلوموں کے حامی امیدواروں کو سپورٹ کریں گے، علامہ ناصر عباس

امریکہ کی دوستی نہیں غلامی ہوا کرتی ہے، الیکشن میں مظلوموں کے حامی امیدواروں کو سپورٹ کریں گے، علامہ ناصر عباس
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل ہیں، آپ نے بہت کم عرصہ میں قیام کر کے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور کافی عرصہ سے ملت میں پائی جانیوالی عدم فعالیت اور سکوت کو توڑا، ملت تشیع کو میدان عمل اور سڑکوں پر لے آئے۔ شیعان پاکستان کی مجلس وحدت مسلمین اور علامہ ناصر صاحب سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز اُن سے آئندہ انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین کی حکمت عملی اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، مجلس وحدت مسلمین کی سیاست کے حوالے کیا حکمت عملی ہے، آیا انتخابی سیاست کی جائے گی یا کوئی اور لائحہ عمل ہو گا؟

علامہ ناصر عباس جعفری:یہ بات طے ہے کہ دین اور سیاست جدا نہیں ہیں، ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی نے جو گائیڈ لائن دی ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں گے، انتخابی سیاست کی بجائے شیعہ پارلیمنٹیرین کیساتھ تعاون کیا جائے گا بھلے اس کا کسی بھی جماعت سے تعلق ہو، ہماری خواہش ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں دس منتخب نمائندے شیعہ ہیں تو اگلی بار یہ تعداد پندرہ سے بیس ہو جائے۔ دوسرا معتدل اہل سنت حضرات کو بھی سپورٹ کیا جائے گا، وہ افراد جو معتدل ہیں اور استعمار دشمن ہیں، جو خطے سے امریکی مداخلت کے مخالف اور انخلا چاہتے ہیں، ہم مظلوموں کے حامی پارلیمنٹرینز کو مضبوط کریں گے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ وطن عزیز 80ء کی دہائی کے بعد سے فرقہ واریت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ قوتیں جو انتہا پسند ہیں، انحرافی ہیں، ان کے مدمقابل لوگوں کو سپورٹ کیا جائے گا تاکہ یہ انحرافی لوگ اہم اداروں تک نہ پہنچ سکیں، تاہم یہ تعاون مشروط ہو گا ہمارے لیے پارٹی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ افراد اہم ہیں، جہاں اچھے افراد ہوں گے، ان کو سپورٹ کریں گے۔ ہم اُن افراد سے ان شرائط پر تعاون کریں گے کہ وہ پارلیمنٹ میں وطن دوستی، ملت کی وحدت کیلئے طاقتور آواز اٹھائیں اور اہم ایشوز پر اسٹینڈ لیں۔
ایک بات واضح ہے کہ پاکستان کے عوام امریکہ مخالف ہیں، جو امریکہ کی دوستی اور غلامی دونوں کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ غلامی ہوا کرتی ہے۔ آج سیاست دان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں غلامی نہیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ امریکہ کی صرف غلامی ہوا کرتی ہے دوستی نہیں۔ لہٰذا جو لوگ تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں انہیں عوام کے جذبات اور احساسات کو سمجھنا چاہیئے۔ عوام چاہتے ہیں کہ وطن عزیز سے امریکہ کا اثر و نفوذ ختم ہونا چاہیئے۔ عوام کی خواہش ہے کہ ہر وہ اقدام جو امریکہ کو اس ریجن میں لے آئے اُسے روکا جائے اور اس کے خلاف اسٹینڈ لیا جائے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی، بھوک، افلاس، تنگ دستی، اقربا پروری، میرٹ کی پامالی، بے روزگاری اور کرپشن میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس جانب کوئی متوجہ نہیں ہو رہا ہے، مظلوموں کو اُن کا حق دلانے والا کوئی نظر نہیں آتا، کھوکھلے نعروں سے عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ ہم ان ایشوز پر الیکشن میں تعاون کریں گے۔
اس وقت آپ دیکھیں کہ کیا کچھ نہیں ہو رہا، آئے روز ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ قیمتی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے، حکمران خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو محض دکھاوے کیلئے، ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی پر حملے ہیں اس پر پوری قوم کو احتجاج کرنا چاہیئے اور اُن افراد کا گریبان پکڑنا چاہیئے جو ملک کی بقاء اور عوام کی خواہشات کو پیروں تلے روندتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:موجودہ پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں کیخلاف دو قراردادیں پاس کیں لیکن اس کے باوجود ڈرون حملے جاری ہیں، آپ جو کہہ رہے ہیں کہ ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجیں گے جو ان اقدامات کیخلاف آواز بلند کریں گے کیا وہ اِن چیزوں کو روک پائیں گے؟۔

علامہ ناصر عباس جعفری: جی دیکھیں رائے عامہ کا مقابلہ کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پارلیمنٹیرین اور حکمران اس معاملے میں منافقانہ رول ادا کر رہے ہیں اور سکیورٹی کے ادارے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ لوگ اندر سے امریکہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، خود وکی لیکس نے اس بار ے میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ سے ساز باز کی ہوئی ہے کہ آپ حملے جاری رکھو ہم اس کی مذمت کرتے رہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایوان میں بیٹھے لوگ مخلص ہوں اور وہ حقیقی آواز بلند کریں تو پوری قوم اُن کی پشت پر ہو گی اور پھر امریکہ کیلئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ آپ کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرے ۔

اسلام ٹائمز:مسلم لیگ نواز نے سینیٹ کے الیکشن سے قبل اجتماعی استعفوں کا اعلان کر رکھا ہے آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟۔

علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے اور جو ظاہری طور پر ہوتا ہے وہ حقیقت میں نہیں ہوتا۔ ایسی قوتیں آسانی سے تبدیلی نہیں آنے دیتیں۔ وہ اپنی مرضی کی تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی حوالے سے جو تبدیلیاں آتی ہیں ان میں اسٹیبلشمنٹ بھی ایک خاص رول ادا کرتی ہے اور اس حوالے سے ہمارا ماضی گواہ ہے کیونکہ انہوں نے ملک کے انتظام اور وسائل پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے، نواز شریف کا ماضی گواہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ تھا لیکن جب انہوں نے اپنی مرضی سے آرمی چیف کو تبدیل کرنا چاہا تو انہیں بھائی کے ہمراہ ملک بدر ہونا پڑ گیا، آٹھ سال وہ ملک سے باہر رہے۔ ایک دفعہ ملک میں آنے کی کوشش کی لیکن ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو جنم دیتی ہے، یہ پارٹیاں بناتے بھی ہیں اور توڑتے بھی ہیں، آپ دیکھیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا اور بھٹو کے خلاف جو تحریک، نظام مصطفی کے نام پر اُٹھی اس کے پیچھے بھی یہی لوگ تھے۔ یہ طاقتیں مختلف کھیل جاری رکھتی ہیں، ہر پارٹی میں ان کے بندے مضبوط پوزیشن پر ہوتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پارٹی کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں کوئی مرکزی لیڈر شپ وجود میں آئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے اہداف و مقاصد ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے میں آپ نے دیکھا کہ کتنی مشکلات پیش آئیں۔ اب سیاستدان بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ان سب کا ہدف اقتدار ہوتا ہے۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ وہ پرائم منسٹر بن جائے۔ اس وقت پی پی پی کی حکومت کو پونے چار سال ہو چکے ہیں۔ نواز شریف یہ سمجھتا ہے کہ اگر سینیٹ کے الیکشن ہو جاتے ہیں تو پھر یہ لوگ اگلے الیکشن میں بھی آ جائیں گے۔ میں نے جنرل حمید گل سے سنا ہے کہ امریکی نواز شریف سے ملے ہیں اور اُسے کہا گیا ہے کہ وہ زرداری کو ٹف ٹائم دے، کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب آ گیا ہے اور امریکہ کے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ ادھر نواز شریف کو کاونٹر کرنے کے لیے عمران خان کو آگے لایا گیا ہے۔ عمران خان نے خود کہا ہے کہ آرمی کے 99 فیصد لوگ میرے حامی ہیں، اس کیا مطلب ہے؟ لوگ سمجھ گئے ہیں کون کیا چاہتا ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ آگے جا کر نواز شریف کا دائرہ تنگ کر دیا جائے گا کیونکہ اس کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق اچھا نہیں رہا۔

اسلام ٹائمز:مجلس وحدت نے تشیع کی وحدت کیلئے ابتک کیا اقدامات کیے ہیں؟ شیعہ تنظیموں اور شخصیات کو قریب لانے کیلئے ابتک کیا اقدام کیے گئے ہیں اور اس میں کتنی کامیابی ملی ہے؟۔

علامہ ناصر عباس جعفری:مجلس وحدت مسلمین نے کوشش کی ہے کہ خطباء، ذاکرین، بانی مجالس اور عزاداروں کے ساتھ رابطے کیے جائیں جن میں الحمداللہ خاصی کامیابی ملی ہے۔ لوگ مجلس وحدت مسلمین کو کافی سپورٹ بھی کر رہے ہیں، جہاں تک شیعہ خواص اور جماعتوں کی بات ہے تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری طرف سے کوشش کی گئی ہے کہ رواداری کو قائم اور برقرار رکھا جائے، کوئٹہ میں مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے ایک پروگرام منعقد ہوا، اس میں تمام جماعتوں سے ایک ایک نمائندہ شریک ہوا اور مل کر متفقہ طور پر فیصلے کیے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے تمام شیعہ طبقات کیساتھ مل کر چلنے اور قومی نوعیت کے معاملات پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے عملی کوشش کی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز:شام کے حالات بہت زیادہ خراب کیے جا رہے ہیں اور اب عرب لیگ نے اس کی رکنیت معطل کر دی ہے، جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ کہتے ہیں کہ بشارالاسد مستعفی ہو جائیں، آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟۔
علامہ ناصر عباس:شام میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا کہ پیش کیا جارہا ہے۔ چیزیں واضح اور روشن ہیں، بشارالاسد مکالمہ البلاغ کا ایک اہم رکن ہے اور شام کا صدر بھی۔ بشارالاسد کا پورے عرب میں امیج بہت اچھا تھا۔ عرب دنیا امریکہ و اسرائیل سے سخت نفرت کرتی ہے مگر وہاں کے حکمران امریکہ و اسرائیل کے حامی ہیں، بشارالاسد عرب دنیا میں واحد حاکم ہے جو اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں سٹینڈ لیتا ہے۔ اسی لیے بشارالاسد عرب عوام میں مقبول بھی تھا۔ بشارالاسد نے ایران، فلسطین اور حزب اللہ( لبنان) کو سپورٹ کیا۔ نتیجة خطے میں امریکہ کے تمام منصوبے ناکام ہوئے۔ اب جبکہ عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی تو اس وقت ایک بات واضح تھی اور وہ یہ کہ لیڈرشپ کا فقدان تھا اور بشارالاسد اس حوالے سے ایک اہم رول ادا کر سکتے تھے لیکن اسے متنازعہ بنا دیا گیا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے یورپی اور امریکی لیڈر شپ کو ٹف ٹائم دیا، دوسرے الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا جس سے اس کا سارا امیج خراب ہو گیا، احمدی نژاد مظلوموں کے حقوق اور عالم بشریت کا پیغام بہترین انداز میں پیش کر رہا تھا اور عالمی استعمار کو رسوا کر رہا تھا لیکن جب الیکشن میں حالات خراب کئے گئے تو اُن پر بیرون ممالک سے انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ وہ خود تو غیر قانونی طریقے سے الیکشن جیت کر آئے ہیں، باقاعدہ سازش کے تحت یہ کام انجام دیا گیا۔ بشارالاسد کے ساتھ بھی ایسے ہی کیا گیا۔ بشارالاسد کا امیج سعودی عرب و دیگر ممالک کے ذریعے خراب کیا گیا۔ ان کے فوجی گروہوں کو اُکسایا گیا تاکہ وہ ٹکرائیں اور اس کے خلاف جوابی ایکشن ہو گا جس کے نتیجے میں بشارالاسد کو بدنام کیا جائے گا۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ شام میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ شام کے عوام کی اکثریت بشارالاسد کے ساتھ ہے۔ بشارالاسد کے حق میں لاکھوں کے اجتماعات اور بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں اب ملک کے اندر سے تو سازش ختم ہو گئی لہٰذا باہر سے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا گیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آمروں کو ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اردن کا صدر خود ایک آمر ہے، سعودی بادشاہ کو دیکھیں یہ خود ایک قاتل ہے وہ شام کیخلاف بات کرتا ہے، کیا یہ شاہ بحرین میں قتل عام نہیں کروا رہا؟ یہ سب خود قاتل ہیں جو بے گناہ اور نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں۔ سعودی عرب میں کسی نے اسلحہ نہیں اٹھایا، بحرین میں کسی نے اسلحہ نہیں اٹھایا لیکن ان بے گناہوں کو مارا جا رہا ہے۔ یہ سب خود قاتل ہیں اور امریکہ کے اہداف کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو ختم کرنے کیلئے امریکہ کی جانب سے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے، آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟

علامہ ناصر عباس:حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ امریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی نہ بنیں اور ملک کا فائدہ سوچیں، اگر وہ امریکی مفاد کے تحفظ میں لگے رہے تو پھر یہ حکمران باقی نہیں رہیں گے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ پاکستان کے عوام اسلامی جمہوریہ ایران سے محبت کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے آج تک پاکستان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ اگر پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے روابط ہو جائیں تو پاکستان امریکہ کے خلاف سٹینڈ لے سکتا ہے اور امریکہ کی من مانیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہمارا کلچر ایک ہے، تاریخ ایک اور مذہب ایک ہے، میرے خیال میں اگر یہ معاہدہ منسوخ ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے حق میں نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے عوام سخت برا منائیں گے اور حکمران عوام کی نظروں میں مزید گر جائیں گے۔

اسلام ٹائمز:کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو جیلوں سے چھوڑا جا رہا ہے، بہت سی تنظیمیں اور افراد پنجاب حکومت کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟۔

علامہ ناصر عباس جعفری: پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی اور بدامنی ہمارے لیے نقصان دہ ہے جو کسی طور پر ملکی اور قومی مفاد میں نہیں ہے، اس بدامنی کی وجہ سے لوگ فرار ہو رہے ہیں اور بیرونی انوسٹمنٹ نکلتی جا رہی ہے جس کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی یہ سوچے کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہماری مجالس، عزاداری رک جائے گی تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ حساب لگا لیں کہ پچھلے 20 سالوں سے کتنی دہشت گردی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود عزاداری میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ جب دو سال پہلے کراچی میں یوم عاشور کے جلوس پر حملہ ہوا تھا تو اس کے بعد کراچی میں اربعین (چہلم) کے جلوس میں ریکارڈ شرکت تھی اس سے پہلے اتنی بڑی شرکت نہیں دیکھی گئی۔ لوگوں کا امام حسینؑ کے ساتھ عقیدت اور عشق کا تعلق ہے اسے گولیوں کے خوف سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال ہمیں بھی محرم الحرام میں مجالس عزاء کے دوران سکیورٹی کا بندوبست کرنا چاہیئے اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی سکیورٹی فراہم کرے۔ گزشتہ سالوں میں بھی ہم نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ہمیں سکیورٹی دے اور انہوں نے ہمیں سکیورٹی فراہم کی ہے۔
جہاں تک پنجاب حکومت کا تعلق ہے، پنجاب حکومت واضح ہے، ہمارے سامنے ہے، پنجاب میں جگہ جگہ دہشت گردوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور انہیں سزا نہیں دی گئی۔ یہ گٹھ جوڑ پاکستان کے غیور شیعہ عوام محسوس کر رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ اہل تشیع جن کی آبادی اس وقت پاکستان میں 50 ملین سے زیادہ ہے کے دشمنوں کو اپنے ساتھ ملا کر اور انہیں کھلی چھوٹ دے کر ایک بڑے ہدف کو پا لے گی تو یہ ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کیخلاف تشیعُ میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے، پوری قوم دیکھتی ہے کہ پنجاب کا وزیر قانون رانا ثناءاللہ شیعہ اکابرین اور نہتے شہریوں کے قاتلوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھرتا ہے اور نعرے لگوا رہا ہے، جلسوں میں شرکت ہو رہی ہے۔ بدنام دہشتگردوں کو سزا کے بجائے ہار پہنائے جائیں گے تو ن لیگ کو امن پسند اور عام آدمی کی ہمدردی نہیں ملے گی، کیا انہیں سیاستدان کہتے ہیں جو دہشت گردوں کے ووٹوں سے جیت کر پارلیمنٹ میں آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کئی دہشت گردوں کو چھوڑا ہے۔ اگر دہشت گردوں کو چھوڑ دیا جائے تو وہ دہشت گردی کے سوا اور کیا کریں گے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کوئٹہ کے شہداء کا چہلم منایا جس میں مختلف تنظیموں کے نمائندگان اور اہم شخصیات شامل تھیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا اہم مسئلہ کیا ہے؟
علامہ ناصر عباس:بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرونی اور اندرونی دونوں قوتیں ملوث ہیں، اس حوالے سے صوبائی حکومت کے بعض افراد بھی اس بات پر متفق ہیں اور کھل کر بات کرتے ہیں۔ پاکستان کی بعض ریجنل قوتیں بھی ملوث ہیں، جو مختلف حوالوں سے کام کر رہی ہیں، جو ملک میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر فرقہ واریت کو بھڑکانا چاہتی ہیں، غرض کہ یہ قوتیں بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں کیونکہ گوادر کی اہمیت اور ایرانی سرحد کی وجہ سے امریکہ کے بلوچستان میں اپنے اہداف ہیں، سعودی عرب، یو اے ای اور بھارت کے اپنے مقاصد ہیں، ہر ملک کے مختلف گروہوں سے روابط ہیں اور بلوچستان کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے لیے وہ ان گروہوں کو سپورٹ کرتے ہیں، انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے، جس معاشرے میں استاد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہو، وہاں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں شیعہ مظلوم ہیں اور افسوس ہے کہ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ ان تمام کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس ساری قتل و غارت گری کا ذمہ اس کے سر ہے۔ ابتک جتنے بھی واقعات پیش آئے ہیں وزیراعلیٰ کسی ایک متاثرہ فرد کی حوصلہ افزائی کیلئے اس گھر تک نہیں گیا۔ وہ کم از کم دو بول تسلی کے ہی ادا کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، یہی وہ وجہ ہے کہ اس کے خلاف وہاں نفرت بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ ان تمام واقعات میں اُسے ملوث قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات اس سے اور زیادہ کیا خراب ہونگے کہ وہاں پر پاکستان کا پرچم تک نہیں لہرایا جا سکتا۔ ہماری ایجنسیوں کو اس پر سرجوڑ کر سوچنا چاہیئے۔ اب بہت ہو گیا، لڑاؤ، تقسیم کرو اور فرقہ پرست گروہوں کی سرپرستی ختم کی جائے۔ خدارا پاکستان کا سوچا جائے، ان گروہوں کو ختم کیا جائے اور انہیں سپورٹ کرنے والے عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

اسلام ٹائمز:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایجنسیوں میں ایسے لوگ ابھی ہیں جو ان گروہوں کو سپورٹ کرتے ہیں یا ان کیلئے ہمدردی رکھتے ہیں؟
اسلام ٹائمز:ان گروہوں کو افغان جہاد میں مکمل سپورٹ کیا گیا اور سرپرستی کی گئی، اس میں امریکہ اور سعودی عرب نے ڈالروں اور ریالوں کا سیلاب برپا کیا ان گروہوں کو سپورٹ کیا، اتنے مدارس قائم کئے گئے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، ہزاروں کی تعداد میں طالبان اور شدت پسند گروہوں میں سے کسی نہ کسی کی سپورٹ کی گئی۔ وہ عناصر اب بھی ایجنسیوں میں موجود ہیں جبکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان بنانے اور چلانے میں شیعہ مسلک کے لوگوں کا اہم کردار رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کو بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا، قائداعظم، نواب محمود آباد اور دیگر کئی بڑے قائدین شیعہ تھے، جن لوگوں نے پاکستان بننے کے بعد سرکاری اہلکاروں کو تنخواہیں تک دیں، اس وقت فوج اور دیگر اداروں کی تنخواہیں اپنی جیب سے ادا کرنے والے ملت جعفریہ کے سپوتوں کی اولادوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اتنی قتل و غارت اور یکطرفہ انتقامی کارروائیوں کے باوجود امام عالی مقام کے پیروکاروں نے کبھی پولیس، سکیورٹی اداروں پر ہاتھ نہیں اٹھایا، پاکستان دشمن قوتوں سے نہیں ملے اور نہ ہی وطن فروش بنے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ضیاءالحق کے زمانے سے شروع ہوا، سعودی اور امریکی ڈالروں کے عوض لوگوں کو اکٹھا کیا گیا۔ انہیں افغان جہاد کے نام پر تربیت دے کر پر امن نہتے شہریوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دی گئی۔ ایک اہم بات اس میں یہ ہے کہ فقط دو مکاتب فکر ایسے ملیں گے جنہیں مسلح تربیت دی گئی، وہ دیوبند اور اہل حدیث ہیں اس کے علاوہ تیسرا کوئی مکتب فکر دہشتگردی میں ملوث نہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ دیوبند دہشتگرد ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر دہشتگرد دیوبندی ہے۔ آج جتنی بھی ریاست کیخلاف اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلح کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں دیو بند فرقہ سے تعلق رکھنے والے پیش پیش ہیں، ان کارروائیوں میں کوئی سنی کوئی بریلوی اور کوئی شیعہ نہیں ملے گا۔

اسلام ٹائمز:سنی اتحاد کونسل 18 تنظیموں کا اتحاد ہے، ان کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین کوئی اتحاد قائم کیوں نہیں کرتی، جبکہ کافی حد تک ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے؟۔
علامہ ناصر عباس: سب سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ کراچی میں سنی اتحاد کونسل، جماعت اسلامی، جماعت الدعوۃ اور دیگر سنی گروہوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جن کے نتائج اگلے دو سے تین ماہ میں آئیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو جائیں، ایک چارٹر لکھ لیں، ایسا چارٹر جس میں پاکستان کے تمام مسالک کے حقوق کا تحفظ ہو حتیٰ کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلتیں مثلاً ہندو، عیسائی، سکھ وغیرہ کے حقوق کا بھی تحفظ ہو تاکہ وہ محسوس کریں کہ ہمارے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ ایک ایسا چارٹر لکھا جائے جس میں 6 مسالک درج ہوں اور کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو ان کے حقوق کے خلاف ہو اور ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو باقاعدہ تحقیق کرے گی جس کے ساتھ کوئی ظلم ہو تو اس کا ازالہ کرے گی اور دوسرے فریق کے خلاف اقدامات کرے گی۔ اگر ہم ایسا چارٹر لکھ لیں اور مل کر کام کریں اور گلی گلی، کوچہ کوچہ، محلہ محلہ جا کر وحدت کے لیے کام کریں تو تمام دینی و سیاسی جماعتیں مل کر پاکستان کے مسائل حل کر سکتی ہیں۔

اسلام ٹائمز:کیا مجلس وحدت مسلمین نے ایسی کوئی کمیٹی بنائی ہے جو دیگر مکاتب فکر سے مل کر اس ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی؟۔

علامہ ناصر عباس: اس پر کام ہو رہا ہے اور وقت آنے پر ہم اس کا اعلان کریں گے۔ ہماری ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور اجلاس چل رہے ہیں، ہم بڑے پیمانے پر اس کے لیے کام کر رہے ہیں اور جب وہ پختہ شکل میں تیار ہو جائے گی تو لوگوں کے سامنے بھی آ جائے گی۔ ہم ایک چارٹر لکھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بسنے والے تمام مسالک کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا اور یہ چارٹر انشاءاللہ پاکستان سے غربت اور ظلم و جبر کا خاتمہ کرنے میں مفید ثابت ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 115640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش