0
Monday 2 Jan 2012 15:36

انقلاب اسلامی ایران سبق آموز ہے، اس سے روشنی لیکر ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں، رحمت خان وردگ

انقلاب اسلامی ایران سبق آموز ہے، اس سے روشنی لیکر ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں، رحمت خان وردگ
 تحریک استقلال کے مرکزی صدر اور ممتاز سیاست دان رحمت خان وردگ اپنی بے لاگ گفتگو اور بارعب شخصیت کی وجہ سے میڈیا اور عوام میں کافی مقبول ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عوام کے لیڈر عوام میں سے، رحمت وردگ صاحب سیلف میڈ آدمی اور درد دل رکھنے والے شفیق اور اصول پسند رہنما ہیں۔ رحمت وردگ محب وطن سیاست دان اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا۔ جس میں انہوں نے ملکی حالات، سیاسی صورتحال، افغانستان میں امریکہ کی شکست، دہشتگردی اور پاکستان کو درپیش بحرانوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی، جو قارئین ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ) 

اسلام ٹائمز:پاکستان اس وقت کن مسائل کا شکار ہے اور آپ کی نظر میں ان مسائل کا کیا حل ہے۔؟
رحمت خان وردگ: ہمارے ہاں غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اقربا پروری اور کرپشن بڑے مسائل ہیں اور بجلی و گیس کی قلت نے بھی عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ آپ خود دیکھیں کہ جب بچے بھوکے مر رہے ہونگے تو کون امن کو دیکھے گا، بچوں کو بلکتا ہوا کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے، اس وقت اگر ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے تو اسکی بنیادی وجہ کرپشن ہے اور اقربا پروری ہے۔ یہاں کوئی بڑا جرم کرتا ہے تو اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں اور کوئی غریب کسی جرم کا مرتکب ہو جائے تو اس کے لئے عدلیہ بھی ہے، جیلیں بھی ہیں اور سزا بھی ہے، یہ تضاد معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہے۔ اس تضاد کو ختم کرنا ہو گا۔ 

اس کے علاوہ ان مسائل کا حل میری نظر میں یہ ہے کہ پاکستان کو زرعی طور پر خود کفیل کر دیا جائے۔ پانی ذخیرہ کیا جائے، ڈیمز بنائے جائیں، اگر ہمارے پاس پانی ہو گا تو بجلی ہو گی، بجلی ہو گی تو ہماری زرعی ضرورتیں پوری ہوں گی، ضروری ہے کہ آبی وسائل پر توجہ دی جائے۔ اس کے لئے ہمیں بناؤ، آپریٹ کرو اور حوالے کر دو کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ ملک میں سبز انقلاب آیا تو خوشحالی آئے گی، پسماندہ علاقوں میں ترقی ہو گی۔ دیہی علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہاں انڈسٹریز لگانے سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور شہروں کی جانب جو آبادی کی نقل مکانی کا رجحان ہے کم ہو گا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیا ہے، حدیث ہے کہ جب شہروں کی آبادی بڑھ جائے تو نئے شہر بسائے جائیں، کیوں کہ آبادی بڑھنے سے مسائل بڑھتے ہیں۔ چیزیں خالص نہیں ملتیں۔ ہماری 75 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے لیکن ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے، 25 فیصد جو شہروں میں ہے تمام وسائل کا رخ ان کی طرف موڑ دیا ہے جو کہ زیادتی اور ناانصافی ہے۔
 
اسلام ٹائمز:پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں۔؟
رحمت خان وردگ: پاکستان میں دہشتگردی نائن الیون کے بعد باقاعدہ طور پر در آئی۔ اس سے قبل جب ہم نے افغانستان میں امریکہ کے ایجنٹ کے طور پر روس کے خلاف کام کیا اور امریکہ کے لئے ’’جہاد‘‘ کیا تب کلاشنکوف اور ہیروین کا تحفہ ہمیں ملا۔ امریکہ نے اپنے مفاد کے لئے مسلمانوں کو استعمال کیا، انہیں القاعدہ پھر طالبان اور پھر دہشتگرد کا نام دیا۔ طالبان صحیح ہیں یا غلط، یہ الگ بات ہے۔ طالبان دو قسم کے ہیں ایک محب وطن طالبان ہیں، میں ان کا احترام کرتا ہوں، دوسرے امریکی طالبان ہیں جو اب بھی امریکی مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں میں وہی ملوث ہیں۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے، امریکہ 35 برس سری لنکا میں رہا اور وہاں 35 برس تک دہشتگردی ہوتی رہی، جب امریکہ نے سری لنکا کو چھوڑا تو وہاں امن ہو گیا۔ 

اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو تو ہمیں امریکہ کو ملک سے نکال باہر کرنا ہو گا۔ آج آپ دیکھیں کہ عراق میں امریکہ آیا، افغانستان میں آیا اور دوسرے مسلمان ملکوں پر چڑھائی کی اور کئی ملکوں میں گھس کر بیٹھا ہے، کیا یہ ان کا کچھ بگاڑ سکا ہے؟ عراق کا نام تو تبدیل نہیں ہوا، افغانستان تو ویسے کا ویسا ہے، تو ثابت ہوا کہ امریکہ اپنے مفادات کے لئے آتا ہے، تباہی پھیلاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان جن مسائل و مشکلات کا شکار ہے ان کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا ایٹمی پاکستان میں امن ہو، امریکہ نہیں چاہتا ہمارے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں، اگر ہمسایوں سے ہمارے تعلقات اچھے ہو گئے تو اس کا اسلحہ کون خریدے گا۔ کشمیر کا مسئلہ اسی لئے حل نہیں ہونے دیا جاتا، بھارت کے خلاف ہمیں ابھارا جاتا ہے اور ہمارے حکمران اتنے بھولے ہیں کہ وہ ان سازشوں کا ادراک نہیں کر سکتے اور امریکی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم ہی نہیں بھارت بھی شکار ہو جاتا ہے۔ طالبان کی سرپرستی کرتے ہوئے امریکہ پاکستان میں دھماکے کرواتا ہے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ دہشتگردوں کی فہرست سے ملا عمر کا نام خارج کر دیا گیا ہے۔ 

اسلام ٹائمز:اب تو طالبان کو باقاعدہ دفتر کھولنے کی اجازت بھی دی جا رہی ہے۔؟
رحمت خان وردگ: امریکہ بہت بڑا شاطر ہے، وہ 25 سال پہلے ہی منصوبہ بنا لیتا ہے۔ اب جیسے طالبان کو اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ مصر میں اپنا دفتر کھولیں تو اس کا بھی ایک مقصد ہے۔ امریکہ اب طالبان قیادت کو تلاش نہیں کر سکا۔ وہ سب لیڈر روپوش ہیں۔ اس طرح دفتر بن جانے سے وہ منظر عام پر آ جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات اور دنیا سے رابطہ کے لئے طالبان کو دفتر کی ضرورت ہے اس مقصد کے لئے امریکہ نے کرزئی کو بھی رضامند کر لیا۔ اب ہو گا یہ کہ طالبان قیادت دفتر بن جانے سے ٹریس ہو جائے گی اور یہ بیت اللہ محسود کی طرح ملا عمر اور دیگر طالبان رہنماؤں کو بھی ٹارگٹ کر کے ہلاک کر دیں گے۔ یہ دفتر بہانہ ہے طالبان کو پھنسانے کا اور طالبان بھولے بھالے ہیں وہ ان کی چالوں میں آ جائیں گے۔ 

اسلام ٹائمز:شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے اور دشمن اپنے مقاصد حاصل کر لیتا ہے، مسلمان کیوں استعمال ہو جاتے ہیں۔؟
رحمت خان وردگ: اصل میں امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ ’’ڈیوائیڈ اینڈ رول‘‘ وہ ہمیں لڑاتا ہے اور ہم پر حکومت کرتا ہے۔ ہم استعمال ہو جاتے ہیں اور قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں۔ میں تمام مکاتب فکر کا احترام کرتا ہوں، سب کو مسلمان مانتا ہوں۔ حدیث ہے کہ میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، تو یہ فرقے تو ہونے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب متحد رہیں اور باہمی اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ اصل میں کم پڑھے لکھے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور استعمال ہو جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے عالم خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر کے ہوں وہ ڈی ٹریک نہیں ہوتے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر کسی کے عقائد کا احترام کرنا چاہیے۔ ایسے ہی کسی کو کافر نہیں قرار دینا چاہیے۔
 
آپ دیکھیں کہ جب ختم نبوت کانفرنس ہوتی ہے تو اس سٹیج پر شیعہ بھی ہوتے ہیں، سنی بھی، دیوبندی بھی اور بریلوی بھی، اس وقت تمام مسلمان ایک ہوتے ہیں، جب ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، ایک کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور ایک رسول کو مانتے ہیں تو پھر جھگڑا کس بات کا؟ آپ دیکھیں کہ نبی اکرم ص کے زمانے میں بھی یہ چیزیں موجود تھیں، کہتے ہیں کہ اس وقت بھی کوئی ہاتھ باندھ کر اور کوئی ہاتھ کھول کر نماز پڑھتا تھا لیکن حضور اکرم ص نے کسی کو منع نہیں فرمایا تھا، تو ثابت ہوا کہ طریقہ جو بھی اختیار کیا جائے، نماز رب کی پڑھی جائے۔ عبادت اسی پروردگار کی کی جائے۔ کعبہ میں سب جاتے ہیں تو یہاں کیوں لڑتے ہیں۔ یہ تو عوام کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ہمیں لڑایا جا رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز:امریکہ کے پاکستان میں اہداف کیا ہیں۔؟
رحمت خان وردگ: امریکہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے، آپ نے امریکی اخبارات میں وہ نقشے بھی دیکھے ہوں گے۔ جن میں پاکستان کے ٹکڑے دکھائے گئے ہیں تو امریکہ کے پاکستان میں یہی اہداف ہیں اور وہ انہی پر کام کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے بلوچستان آزاد ہو جائے۔ سندھو دیش بن جائے، پنجاب کے ٹکڑے ہو جائیں۔ بنگلہ دیشن کے معاملے میں بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ ادھر بھارت کو کہا گیا آپ کارروائی کریں، ہمیں بحری بیڑے کے لارے پہ رکھا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور بنگلہ دیشن ہم سے جدا ہو گیا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، صوبوں میں اختلافات پیدا کر کے انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بغاوت کو ہوا دی جا رہی ہے سندھ میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ 

اسلام ٹائمز:ان سازشوں کا توڑ کیا ہے۔؟؟
رحمت خان وردگ: صوبائی خودمختاری ۔۔۔۔ وفاقی حکومت صوبوں کو خودمختاری دے اور ان کے وسائل ان پر ہی خرچ کرئے، اس طرح سب بغاوتیں دم توڑ جائیں گی۔ وفاقی حکومت خارجہ، خزانہ، دفاع اور مواصلات کا شعبہ اپنے پاس رکھے اس کے علاوہ تمام شعبے صوبوں کو دے کر وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے، اس سے تمام صوبوں کو اطمینان ہو جائے گا۔ اب بلوچستان کہتا ہے کہ وہاں سے گیس نکلتی ہے لیکن انہیں کچھ نہیں ملتا، سونے اور کوئلہ کے علاوہ بھی معدنیات ہیں لیکن صوبے میں پسماندگی ہے، تو جب تک وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی تو امن قائم نہیں ہو گا۔ یہاں اصل میں جمہوریت نہیں۔ برطانیہ میں جمہوریت ہے، وہاں جنگ بھی ہو، اپنی مقررہ مدت میں الیکشن ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران جمہوریت کی نفی کر رہے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز:عمران خان جمہوریت کا علم اٹھائے وارد ہو رہے ہیں، تحریک انصاف کی مقبولیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
رحمت خان وردگ: عمران خان کو جنگ اور جیو گروپ نے لیڈر بنایا ہے۔ جنگ گروپ کی متاثرین کے لئے امداد ی مہم ’’پکار‘‘ میں عمران خان نے ساڑھے چار ارب روپے جمع کر کے دیئے تھے۔ اب جیو والوں نے اسے ٹی وی پر اتنا زیادہ دکھایا کہ ہر وقت عمران عمران ہونے لگا اور یہی وجہ ہے کہ جیو کی دیکھا دیکھی باقی ٹی وی چینلز بھی دکھانے لگ گئے اور عمران خان لیڈر بن گیا۔ میڈیا کی جانب سے پروموشن نے عمران کو بڑا لیڈر بنایا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے میڈیا آزاد نہیں۔ مفاداتی کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ میڈیا کے عمران سے بھی مفادات تھے تو اس نے اسے مقبول کروا دیا۔ 

اسلام ٹائمز:پاک امریکہ دوستی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
رحمت خان وردگ: دوستی اصولوں اور برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے، امریکہ اور ہماری برابری تو ہو نہیں سکتی، البتہ اصولوں کی بات کریں تو امریکہ کا کوئی اصول نہیں، وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے چڑھ دوڑتا ہے، ایران سے ڈرتا ہے۔ تو ایسے ملک سے کیسی دوستی جو اصولوں کو پامال کرتا ہو، جھوٹا ہو، فریبی ہو ۔۔۔۔ بھارت کے ساتھ جب ہماری جنگ ہوئی تو ہمیں بحری بیٹرے کا لالچ دے کر بہلاتا رہا یعنی دوسرے لفظوں میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ امریکہ سے دوستی میں ہمیں اپنا قومی و ملکی مفاد ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جہاں قوم کا فائدہ ہو وہ معاہدہ کیا جائے۔ غلامی نہ کی جائے، ہمارے حکمران امریکہ کی غلامی کر رہے ہیں۔ ان کی ہر پالیسی میں قومی کی بجائے امریکی مفاد ہوتا ہے۔
 
امریکہ نے ہماری معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں اور ہمارے بحران ختم ہو جائیں، جو کہ امریکہ کے پیدا کردہ ہیں تو ہمیں امریکہ کی بجائے اپنے ہمسایوں پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا لیں تو فائدے میں رہیں گے۔ ایران، افغانستان، چین، بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات سے ہمیں فائدہ ہے۔ اگر ہم ایران سے گیس اور بجلی لیتے ہیں تو کم خرچ سے ہمیں مل سکتی ہے، لیکن اگر یہی بجلی ہم امریکہ سے لیں گے تو لائن بچھانے پر ہی اربوں روپے لگ جائیں گے تو ایسی دوستی کا کیا فائدہ؟ ہاں ایران کے ساتھ دوستی سے ہمیں فائدہ ہے۔ ایران نے تو اپنی سرحد تک گیس کی پائپ لائن بھی بچھا دی ہے، اب ہماری باری ہے کہ ہم کب اس منصوبے کو مکمل کرتے ہیں۔ 

اس میں امریکہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ ایران سے گیس نہ لیں۔ بھئی اس میں پاکستان کا مفاد ہے۔ اب امریکہ سفیر ٹی وی چینل پر آ کر سرعام کہہ رہا ہے کہ ایران سے گیس نہ لی جائے۔ بندہ پوچھے کہ تم کون ہوتے ہو ہمیں اس طرح ڈکٹیشن دینے والے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ پاکستانی عوام اندھیروں میں ڈوبے رہیں؟ امریکہ اصل میں پاکستان کو ناکام ریاست بنانا چاہتا ہے۔ ہماری معاشی نظام میں اپنی پالیسیاں ٹھونس کر امریکہ نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا میں بینکوں کا منافع کم ہو گیا ہے، یہاں بڑھ گیا ہے۔ دنیا میں منافع کی شرح جو بینک لیتے ہیں وہ 0.5 ہے جب کہ پاکستان میں 18 فیصد ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تو عوام کو بینک اس طرح لوٹ رہے ہیں۔ عشرت حسین سٹیٹ بینک کے گورنر تھے، جب تک وہ رہے بینکوں کا منافع سنگل ڈیجٹ میں رہا وہ گئے تو ایک لوٹ مار کا طوفان برپا ہو گیا۔ 

اسلام ٹائمز:پاک ایران تعلقات میں کسی کو خاطر میں لانا چاہیے یا نہیں۔؟؟
رحمت خان وردگ: ہمیں ایران کے ساتھ اپنی دوستی کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔ اصل میں ایران ہمارا فطری دوست ہے۔ ہمارے حکومتی سطح پر ہزار اختلافات ہوں لیکن عوام میں جو بھائی چارے اور محبت کا رشتہ ہے وہ دائمی ہے، اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ ایران ہمارا دوست ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہم ایران کیساتھ دوستی نہ کریں، بلکہ وہ دیگر مسلمان ملکوں کو بھی ایران کے خلاف کرتا رہتا ہے۔ ایران پر سعودی سفیر کے قتل کا الزام بھی امریکی سازش ہے، جس کا مقصد ایران سعودی عرب تعلقات خراب کرنا ہے۔ امریکہ مشرق وسطٰی سے بادشاہت کو ختم کرنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں ایک لہر چل پڑی ہے، سب حکمرانوں کی باری آنی ہے کیونکہ امریکہ نے اپنے کٹھ پتلی حکمران تعینات کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ ایک دن سعودی عرب کیساتھ بھی ایسا ہی کرئے گا، دوستی کا دم تو بھرتا ہے لیکن باری آنے پر سعودی شاہی خاندان کو بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ لیبیا میں معمر قذافی کے ساتھ بھی امریکہ نے ہی سازش کی اور اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح سب ملکوں میں اس کی جارحیت جاری ہے۔ ایران ڈٹا ہوا ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ ایران کے ہاتھ مضبوط کریں اور اس امریکہ کی پروا کئے بغیر ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات مزید بہتر بنائے جائیں۔ 

اسلام ٹائمز:بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
رحمت علی وردگ: ہماری بھارت کے ساتھ نظریاتی جنگ ہے، 1947ء سے ہم دونوں آزاد ہوئے، اس پر بھارت کو سیخ پا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم کیوں الگ ہوئے بلکہ ہم دونوں نے انگریز سے آزادی حاصل کی اور اب ضرورت ہے کہ ہم دونوں ہی اس آزادی کی قدر کریں۔ ہم سات سمندر پار امریکہ سے تو دوستی کرتے ہیں، بھارت سے دوستی کرنے میں کیا حرج ہے، جو ہمارے دروازے پر موجود ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ سے دوستی کا صلہ یہ ملا کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں لوگ بندوقوں کے سائے میں نماز پڑھتے ہیں جب کہ بھارت میں تو ایسا نہیں، وہاں جب جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ بھارت نے کہہ دیا ہم پاکستان کو نہیں مانتے، ہم نے بھی کہہ دیا ہم بھارت کو نہیں مانتے، اس سے دونوں ملکوں کا نقصان ہے اور گزشتہ 64 برسوں سے ہم نقصان ہی اٹھا رہے ہیں۔ ایک مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے۔ ہمیں اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ ہمسایوں کیساتھ اچھے تعلقات ہوں گے تو ہم ترقی کر سکیں گے۔ ہم دونوں ملک جو دولت اسلحہ کی خریداری پر صرف کرتے ہیں اگر وہ عوامی فلاح اور ملکی ترقی پر خرچ کریں گے تو فائدہ ہو گا۔ یہ بات بھارت کی حکومت اور پاکستان کی حکومت دونوں کو سوچنی چاہیے۔ 

اسلام ٹائمز:سعودی عرب مسلم امہ کی قیادت کر سکتا ہے۔؟
رحمت خان وردگ: صرف پاکستان ایسا ملک ہے جو مسلم امہ کی قیادت کر سکتا ہے۔ ہم واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں۔ ہمارے پاس بہادر لیڈر شپ بھی ہے، ہاں سعودی عرب ایک اور اہم رول ادا کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنا سرمایہ غریب مسلمان ملکوں پر خرچ کر کے ان کو مستحکم کر کے خودکفیل بنائے۔ سعودی عرب کے پاس سرمائے کی کوئی کمی نہیں، امریکی و یورپی بینکوں کی بجائے یہ سرمایہ غریب مسلمان ملکوں میں خرچ کریں، وہاں منصوبے تعمیر کریں اور ان پر مناسب سا منافع بھی لیں۔ ہماری ایک پالیسی ہے (بی او ٹی) کہ’’ بناؤ، آپریٹ کرو اور حوالے کر دو‘‘ سعودی عرب پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرئے۔ پاکستان میں ڈیمز بنائے جائیں۔ کیوں کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی معاشی لحاظ سے مضبوط نہیں۔ سن 65ء کی مثال لے لیں اس وقت ہمارے پاس ایٹم بم نہیں تھا لیکن قوم میں جذبہ تھا وہ لاٹھیاں، ہاکیاں اور سوٹے لے کر نکل پڑی تھی اور بھارت کا جو خواب تھا کہ جم خانہ میں ناشتا کریں گے، چکنا چور کر دیا گیا۔ ایٹم بم ہم نے بنایا بھارت کو جواب دینے کے لئے، بھارت نے دھماکے کر کے حماقت کی۔ ایٹم بم تو ملکوں کو غربت دیتا ہے ترقی نہیں۔ تو سعودی عرب مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ اس لئے سعودی عرب توجہ دے مسلمانوں کی ترقی پر، تاکہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکے۔ پیٹ میں روٹی ہو گی تو معاشرے میں امن ہو گا۔ 

اسلام ٹائمز:دفاع پاکستان کونسل ایک مرتبہ پھر ایکٹو ہو گئی ہے اس کے اب کیا مقاصد ہیں؟
 
رحمت خان وردگ: امریکہ نے روس سے ویتنام کا بدلہ لینے کیلئے پاکستان کو استعمال کیا۔ جنرل حمید گل اور سمیع الحق صاحب نے اس وقت بھی ضیاءالحق کے کہنے پر یہ ذمہ داری لے لی تھی۔ سادہ لوح نوجوانوں کو استعمال کیا گیا، جہاد کی تربیت دی گئی اور پھر ہمیں اس کے صلہ میں دہشت گردی، منشیات اور کلاشنکوف کلچر ملا۔ اس معاہدے کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس وقت بھی ائیر مارشل اصغر خان نے حکومت پر واضح کیا تھا کہ روس کے خلاف امریکہ کے آلہ کار نہ بنیں، ہمیں مستقبل میں اس کا نقصان ہو گا، ہم منشیات اور کلاشنکوف کلچر میں پھنس جائیں گے، لیکن اس وقت ائیر مارشل اصغر خان پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ روس نواز ہیں اور آج جب دنیا نے دیکھا کہ اصغر خان نے درست کہا تھا تو تسلیم بھی کیا اور اپنے کئے پر پشیمان بھی ہوئے۔ ہو سکتا ہے جنرل حمید گل صاحب اب بھی کوئی ایجنڈا لے کر آئے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے ماضی میں ان سے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہ کئے ہوں، جس پر یہ لوگ صحیح معنوں میں امریکہ کے خلاف نکل پڑے ہوں۔ 

اسلام ٹائمز:بلوچستان میں مسائل کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا حل کیا ہے۔؟
رحمت خان وردگ: بلوچستان کے مسائل کی ذمہ دار میری نظر میں تمام حکومتیں ہیں۔ ہم نے آخر بلوچ بھائیوں کے لئے کیا کیا؟ ہر حکومت کو اس حوالے سے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ حکومتوں کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث وہاں کے لوگ پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ لاشیں مل رہی ہیں، اغوا ہو رہے ہیں، حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے، یہ سب باتیں اس لئے ہو رہی ہیں کہ ان کو ان کے حقوق نہیں مل رہے۔ اگر حکومت ان کو حقوق دے تو وہ قطعاً یہ لائن اختیار نہ کریں۔ وہاں کے سرداروں کے صورتحال یہ ہے کہ ہر حکومت میں آدھے سردار اقتدار میں آدھے اپوزیشن میں ہوتے ہیں، سرداروں کو کچھ ملے تو وہ چپ رہتے ہیں جبکہ عوام پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
 
اگر صوبوں کے وسائل ان کو دیئے جائیں تو بغاوتیں جنم ہی نہ لیں۔ ہمیں سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہمیں فوری طور پر صوبائی خودمختاری کا اعلان کر دینا چاہیے، تاکہ ملک دشمن قوتوں کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع ہی نہ ملے، ہم خود ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جس سے دشمن کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ آ کر اپنی سازشیں کرئے۔ اب کہا جاتا ہے کہ وہاں امریکہ اور بھارت ملوث ہیں جو حالات خراب کر رہے ہیں، تو کیا امریکہ اور بھارت پاکستانی حکمرانوں کو کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں کے حقوق نہ دو۔ تحریک استقلال کے پاس صوبائی خودمختاری کا بہترین منصوبہ ہے، ہم تمام صوبوں کو ان کے حقوق دے کر بغاوتوں کا جواز ہی ختم کر دیں گے۔ 

اسلام ٹائمز:آپ انقلاب اسلامی ایران کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
رحمت خان وردگ: میں ایران کے انقلاب اسلامی کو بہت سنجیدہ لیتا ہوں۔ اس انقلاب میں ہمارے لئے بہت سے سبق ہیں، جن کو سیکھ کر ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ انقلاب نے عوام کو بیدار کیا، ظالم شاہ کے خلاف۔ اسی شاہ کی طرح ہمارے وڈیرے ہیں، خان ہیں، چودھری ہیں، زرداری، جاگیر دار ہیں۔ ان کے خلاف بھی ایک خمینی (رہ ) کی ضرورت ہے۔ امام خمینی (رہ ) نے جلاوطنی اختیار کی، لیکن سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہ استقامت کام آئی اور ایرانی قوم بیدار ہوئی۔ امام خمینی (رہ) نے ایران میں انقلاب کے بعد انصاف کا بول بالا کیا۔ امریکہ کے جہاز آئے حملہ کرنے کے لئے، راستے میں ہی تباہ ہو گئے۔ امام کے قتل کی سازش کی گئی۔ سازش پکڑی گئی، تحقیقات میں تاخیر ہوئی تو امام خمینی (رہ) نے پوچھا تاخیر کیوں کی جا رہی ہے تو بتایا گیا کہ سازش میں آپ کے داماد قطب زادے شریک ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے اسے فوراً پھانسی کا حکم دیدیا، انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ میرے داماد ہیں، بیٹی بیوہ ہو جائے گی، نہیں انصاف کا تقاضا یہی تھا اس لئے اپنے داماد کو سزا دے کر سب پر واضح کر دیا کہ اسلام میں سب برابر ہیں کوئی کسی کا بھی رشتہ دار ہو اسے اس کے جرم کی سزا ضرور دی جائے گی۔ اس دن اسلامی انقلاب کا وجود مضبوط ہو گیا۔
 
ہمارے ہاں اقربا پروری ہے۔ کوئی بڑا جرم کرے تو چھوڑ دیا جاتا ہے غریب کرئے تو پکڑ لیا جاتا ہے، سزا دی جاتی ہے۔ ہمیں ایران کے انقلاب اور حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ان کا ساتھ دینا ہو گا۔ ایران ہماری اور ہم ایران کی ضرورت ہیں اور ہمیں اس حوالے سے امریکہ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ ایران سے دوستی کے بدلے ہمیں عزت ملتی ہے جبکہ امریکہ سے دوستی کے بدلے ہمیں غلامی ملتی ہے، جو ذلت ہے تو ذلت کے لئے کیوں ہم مرے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی شناخت کرنا ہو گی۔ اپنے آپ کو پہچاننا ہو گا۔ اسی میں ہماری اور ہمارے ملک کی بقا ہے۔
خبر کا کوڈ : 126777
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش