0
Monday 6 Feb 2012 10:52

خانہ جنگی سے بچنے کیلئے افغانستان کی آئندہ حکومت میں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا، سراج الحق

خانہ جنگی سے بچنے کیلئے افغانستان کی آئندہ حکومت میں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا، سراج الحق

جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر سراج الحق کا بنیادی تعلق دیر پائین سے ہے، آپ نے میٹرک تک بنیادی تعلیم مختلف مقامی سکولوں میں حاصل کی، جس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج تیمر گرہ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ اور پھر ایم اے تک تعلیم حاصل کی، آپ آٹھویں جماعت سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ کیساتھ وابستہ ہوگئے، تین سال صوبائی سطح پر جمعیت کے ناظم رہے، بعد ازاں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلٰی بنے، تعلیمی مراحل سے فراغت کے بعد جب عملی میدان میں آئے تو تقریبا ً ایک سال جماعت اسلامی کے کارکن کے طور پر کام کیا، بعد ازاں باقاعدہ رکن بن گئے، ایک سال ضلع دیر کے علاقہ جندول میں رکن کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے، پھر جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری سنبھال لی، اکتوبر 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایم ایم اے کی حکومت کے قیام کے ساتھ بطور سینئر صوبائی وزیر حکومت میں چار سال فرائض سرانجام دیئے، بعد ازاں 2003ء میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر بنے، اپریل 2009ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی انتخاب کے بعد آپ کو نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ذمہ داری سونپی گئی، سراج الحق کو درویش صفت طبیعت اور مجاہدانہ اوصاف کی بدولت جماعت اسلامی میں منفرد مقام حاصل ہے، دینی جماعت کے اہم رکن اور سیاستدان ہونے کیساتھ آپ ملکی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے افغانستان کی بدلتی صورتحال اور امریکہ، طالبان مذاکرات کے تناظر میں آپ کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ امریکہ اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات سے اس خطہ کے عوام کس حد تک امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔؟
سراج الحق: پاکستانی تو چاہتے ہیں کہ امریکہ کسی بھی طریقہ سے افغانستان سے نکل جائے، کیونکہ امریکہ کے یہاں آنے کے بعد سے یہ خطہ بری طرح متاثر ہے، یہاں خون سستا اور لاشوں کے ڈھیر ہیں، بستیاں برباد اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں، پورے خطے میں شدید پریشانی کا عالم ہے، جس طرح افغانستان متاثر ہو رہا ہے اسی طرح پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے، اس ملک کے ہر بچے، بوڑھے کا یہی مطالبہ اور دعا ہے کہ اس خطہ سے امریکی نکل جائیں، تاکہ لوگ سکھ اور چین کا سانس لیں، جہاں تک طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ گیارہ سال کے قتل عام سے امریکہ کو کچھ نہیں ملا، اس نے ایک ملک کو تباہ و برباد کیا، جس ایجنڈے کا اعلان کر کے امریکی یہاں آئے تھے اس میں انہیں 100 فیصد ناکامی ہوئی ہے، افغانستان میں نہ امن قائم ہوا نہ افیون کی کاشت میں کمی ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا، اب امریکہ اور نیٹو افواج تھک گئی ہیں اور شکست تسلیم کر رہی ہیں تو انہوں نے طالبان کو اس فہرست سے نکال دیا جن سے ان کا اعلان جنگ تھا، دوسرے مرحلے میں طالبان سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں، بحیثیت پاکستانی ہم چاہتے ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں اور جنگ کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں اس مذاکراتی عمل میں پاکستان کو اعتماد میں لیا گیا ہے یا پھر امریکہ اپنے طور پر طالبان کیساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔؟
سراج الحق: مسئلہ پڑوسیوں کا نہیں ہے، افغانستان کا پڑوسی صرف پاکستان ہی نہیں ہے، ایران، چین، روس اور تاجکستان بھی اس کے پڑوسی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایشو یہ نہیں ہے کہ پاکستان بھی اس معاملہ میں فریق بنے، اصل بات یہ ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں، پاکستان کو اس معاملے میں اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہئے کہ یہ مذاکراتی عمل کامیابی کی طرف بڑھے اور کسی بھی طریقہ سے اس مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں دوست حکومت ہو، جس کیساتھ کوئی کشیدگی نہ ہو، جو افغانستان کو بھارت کیلئے وہ اڈہ نہ بنائے، جس کی وجہ سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے، یہ تب ہی ممکن ہے جب پاکستان اپنے رویہ سے ثابت کر دے کہ ہم مداخلت نہیں کر رہے بلکہ ہم دوستی اور بھائی چارے کی فضاء چاہتے ہیں، پاکستان کے افغانستان کو صوبے کے طور پر ڈیل کرنے سے معاملات خراب ہو رہے ہیں اور کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، حکومت پاکستان تو چاہتی ہے کہ ان مذاکرات میں اس کو بھی شریک کیا جائے، لیکن عام پاکستانی صرف امن چاہتا ہے، امن یہاں پر ہر شہری کی ضرورت ہے، ہم سمجھتے ہیں اور تجربات نے بھی ثابت کر دیا کہ امریکہ کے ہوتے ہوئے یہاں پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں طالبان کے علاوہ دیگر جنگجو گروپس بھی امریکہ اور نیٹو کیخلاف برسر پیکار ہیں، کیا گلبدین حکمتیار اور جلال الدین حقانی بھی ان مذاکرات کا حصہ ہیں یا یہ بات چیت صرف طالبان تک محدود ہے۔؟
سراج الحق: امریکہ کے رابطے تو گلبدین حکمتیار کی تنظیم حزب اسلامی کیساتھ بھی ہیں کیونکہ حزب اسلامی بھی ایک موثر گروپ ہے، اسے بڑی سیاسی سپورٹ بھی حاصل ہے اور نوجوان نسل پر اس کا بہت اثر ہے، اس لئے حزب اسلامی کو کسی بھی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس وقت اہم بات یہ ہے کہ امریکیوں کے جانے کے بعد افغانستان کا سیٹ اپ کیسا ہو گا، کیا ان کے جانے کے بعد وہاں پھر خانہ جنگی ہو گی اور کیا طالبان کا وہی طرز عمل ہو گا جو روس کے جانے کے بعد تھا۔؟
 ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں اسلام کو نظام کے طور پر قبول کرنے اور اسے اپنانے والی جتنی بھی قوتیں ہیں وہ متحد اور ایک نظام پر متفق ہو جائیں، المیہ یہی ہے کہ افغانیوں نے میدان جنگ میں تو کامیابی حاصل کی تھی لیکن جب ملکر نظام چلانے کا مرحلہ آیا تو اس میں وہ ناکام ہو گئے، اس لئے ہمیں تشویش ہے کہ ایسا نہ ہو کہ پھر ماضی کے مناظر سامنے آ جائیں، گو کہ طالبان کہہ رہے ہیں کہ ہم نے گیارہ سال کے اس طویل عرصہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور کئی معاملات میں ہمارے نظریات میں تبدیلی، وسعت نظری اور وسعت قلبی آئی ہے، اور اگر طالبان نے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی صلاحیت پیدا کی ہے تو یہ بہت خوش آئند بات ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض امریکی رہنماوں کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ 2024ء تک افغانستان میں موجود رہے گا، آپ کے خیال میں امریکہ متعین کردہ وقت سے قبل افغانستان سے کیونکر انخلاء کرے گا۔؟
سراج الحق: امریکہ افغانستان سے انخلاء کر کے کوئی احسان نہیں کر رہا بلکہ اس کے اپنے معاشی مسائل ہیں، خود امریکی اکتا گئے ہیں کہ اس جنگ سے ہمیں کیا فائدہ ہے؟ افغانستان سے مسلسل جو تابوت اور لاشیں جا رہی ہیں اس وجہ سے امریکی حکومت پر دبائو بھی ہے، لہٰذا امریکہ اپنے مسائل کی وجہ سے یہاں سے جا رہا ہے، وہ محبت یا اس خطہ پر رحم کر کے نہیں جا رہا، امریکہ اس وقت شدید زخم خوردہ ہے، اور وہ ان زخموں کا بوجھ مزید برداشت نہیں کر سکتا۔

اسلام ٹائمز: امریکی انخلاء کے بعد مستقبل میں افغانستان میں طالبان کی حکومت ہی برسر اقتدار آ سکتی ہے یا پھر دیگر گروپس کیساتھ ملکر کوئی ملا جلا سیٹ اپ بن سکتا ہے۔؟
سراج الحق: میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایک فریق غالب آئے گا اور حکومت سنبھالے گا، اگر اس طرح ہوا تو وہاں آپس کے اختلافات اور مسائل موجود رہیں گے، اس لئے سب سے زیادہ ذمہ داری طالبان کی قیادت پر ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلے، اور ایک مستحکم نظام کیلئے کوشش کرے، اگر انہوں نے ابھی سے ایسا کر لیا تو مجھے یقین ہے کہ افغانستان میں ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قائم ہو سکتی ہے، ظاہر ہے کہ اگر اتفاق رائے سے ایسا کوئی سیٹ اپ بنتا ہے تو مسلم ممالک اور ساری دنیا اسے سپورٹ بھی کرے گی، تاکہ 30 سال جنگ و جدل کی وجہ سے افغان سرزمین اور افغانوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ہو سکے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی طالبان کی سابق حکومت کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اگر آئندہ طالبان برسراقتدار آتے ہیں تو آپ کے خیال میں ان کے رویئے میں کسی قسم کی تبدیلی آ سکتی ہے۔؟
سراج الحق: طالبان تو اس مقصد کیساتھ ہیں کہ افغانستان کو آزاد ہونا چاہئے، اور ہم اس مطالبہ کے حامی ہیں کہ افغانستان میں اسلامی حکومت ہونی چاہئے، اس وجہ سے ہم طالبان کے کسی جزوی عمل پر تبصرہ نہیں کرتے کہ انہوں نے سکولوں یا ہسپتالوں کے حوالے سے کیا کیا، اس معاملہ میں زیادہ تر پراپیگنڈا بھی ہو سکتا ہے، طالبان کے دور حکومت میں تو ایک بھی دن ایسا نہیں آیا کہ جب جنگ نہ ہو، شمالی اتحاد کیساتھ مسلسل ان کی جنگ تھی، کشیدگی کی فضاء میں وہ ادارے نہیں بنا سکے اور نہ ہی استحکام حاصل کر سکے، تعلیمی، معاشی، صحت کے شعبوں پر توجہ دینے اور سماج کو ریلیف دینے کے حوالے سے انہیں ایک دن کا موقع بھی نہیں ملا، طالبان کے ماضی پر اب تبصرے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
 چند روز قبل پشاور میں قاضی حسین احمد صاحب کی جانب سے بلائی گئی مجلس جس میں افغانستان کے کئی نمائندے اور ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شریک تھے، میں مولانا فضل الرحمان صاحب نے فرمایا کہ افغانستان میں جو طالبان کی حکومت تھی وہ حکومت نہیں بلکہ قبضہ تھا، انہوں نے بندوق کے زور پر قبضہ کیا تھا اس لئے وہ اداروں کو نہیں بنا سکے، بہرحال ماضی کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم روشن اور منور مستقبل کی طرف کیوں نہ دیکھیں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کی جانب سے پاکستان اور ایران پر افغان جنگجوئوں کی مدد کرنے کے الزامات پر آپ کیا کہیں گے۔؟
سراج الحق: جب کوئی قوم خود لڑنے پر آمادہ نہ ہو تو کسی کی سپورٹ سے کچھ نہیں ہوتا، البتہ ایران اور پاکستان دونوں افغانستان کے پڑوسی ہیں اور دونوں پر افغانستان کا حق ہے، ہمیشہ ان دونوں پڑوسیوں نے یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، افغانی مہاجر بن کر یہاں آئے تو انہیں یہاں پناہ ملی، یہاں ان کے بچوں کو تعلیم، علاج اور دوسری سہولیات ملیں، معاشرہ میں یہ ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق ہے کہ اگر کسی کو پناہ کی تلاش ہے تو وہ دوسرے انسان کے پاس پناہ لے لے، میں سمجھتا ہوں کہ افغانوں کیساتھ تعاون کرنا ہمارا دینی اور ملی فرض ہے، پھر یہ ہے کہ جب تک طالبان، افغان اور مجاہدین امریکہ، نیٹو اور لادین فورسز کیخلاف لڑ رہے ہیں ملت اسلامیہ کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کرے، اور اگر وہ آپس میں لڑتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ان کے درمیان صلح کرائی جائے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ افغان صورتحال میں شمالی اتحاد کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں۔؟
سراج الحق: شمالی اتحاد چونکہ ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک اتحاد ہے، وہ بھی افغانستان کے شہری اور اس کا ایک حصہ ہیں، اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی مسلک یا نسل کی بنیاد پر افغانستان کی تقسیم ہو، ہم یہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں امریکیوں کے جانے کے بعد اگر افغانستان میں کوئی حکومت بنتی ہے تو اس میں مشرق، مغرب، شمال اور جنوب سب کا خیال رکھا جائے، سب لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے، تاکہ آپس میں جنگ کی فضاء ختم ہو۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مکمل طور پر شکست ہو گئی ہے اور افغان سرزمین سے امریکی انخلاء کب تک دیکھ رہے ہیں۔؟
سراج الحق: اب حالات تو ایسے بن گئے ہیں کہ امریکیوں کے واپس جانے میں اب اگر کوئی رکاوٹ ہو گی تو وہ خود افغان ہونگے، اگر افغان آپس میں مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر کوئی پیغام دیدیں تو ساری دنیا امریکہ سے یہی کہے گی کہ اب آپ کو افغانستان سے نکل جانا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے۔؟
سراج الحق: 5 فروری کو پاکستانی قوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتی ہے، اور آج بھی اس عزم اور ارادے کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ جب تک کشمیر کو آزادی نہیں ملتی ہم اس کا ساتھ دیں گے، کشمیر کی آزادی پاکستان کی سالمیت اور استحکام ہے، کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان نامکمل ہے، قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اور آج شہ رگ ہندئووں کے پنجے میں ہے تو اپنی شہ رگ کیلئے زندگی کے آخری لمحہ اور خون کے آخری قطرے تک جدوجہد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔
 آج 18 کروڑ عوام ایک بار پھر کشمیریوں کی جدوجہد اور ان کے مقاصد میں شرکت کا اعلان کرتے ہیں، جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد صاحب نے سب سے پہلے یہ دن منانے کی اپیل کی تھی، پھر اس اپیل اور دن کو پوری قوم نے قومی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے، اس لئے یہ دن ایک عزم نو اور جہاد کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کشمیری قوم کیساتھ ایک وعدہ بھی ہے۔

خبر کا کوڈ : 135713
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش