1
0
Friday 3 Feb 2012 01:12

طالبان کی پہلی حکومت اچھی نہ تھی، یہی صورتحال آئندہ بھی ہو گی، رحیم اللہ یوسفزئی

طالبان کی پہلی حکومت اچھی نہ تھی، یہی صورتحال آئندہ بھی ہو گی، رحیم اللہ یوسفزئی
بنیادی طور پر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے رحیم اللہ یوسفزئی تجربہ کار صحافی، تجزیہ کار اور ماہر امور افغانستان ہیں۔ پاکستان کے معروف اشاعتی ادارے جنگ کے انگریزی روزنامہ دی نیوز پشاور کے بیوروچیف رحیم اللہ یوسفزئی نے خود متعدد بار افغانستان کے حالات کی رپورٹنگ کی۔ طالبان اور القاعدہ سمیت تمام افغان مسلح گروہوں کے رہنماوں کے انٹرویوز کئے اور ان گروہوں کی اندرونی سیاست اور بیرونی معاملات پر گہری رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے طالبان اور امریکہ کے حالیہ مذاکرات سے متعلق انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کہاں تک پہنچے ہیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: میرے خیال میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، یہی بڑی بات ہے کہ بات ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں، جیسا کہ طالبان کہہ بھی رہے ہیں کہ ان کا اصل مقصد طالبان قیدیوں کی رہائی ہے۔ اور اس کے لئے وہ اپنے پاس موجود مغوی امریکی فوجی سے تبادلہ کرانا چاہتے ہیں۔ امریکی بھی یہی چاہتے ہیں کہ اپنے ساتھی کو رہا کرائیں، جو اڑھائی سال سے طالبان کے پاس ہے اور لاہور سے جو ان کا ایک ایڈ ورکر (وارن وائن سٹائن) اغوا ہوا تھا۔ امریکہ کا خیال ہے کہ وہ بھی افغان طالبان یا حقانی نیٹ ورک کے پاس ہی موجود ہے  اور اگر پاکستانی طالبان کے پاس ہے تو ان پر بھی افغان طالبان کا ہی اثر ہے اور اس کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ڈیل ہو جائے۔ ان قیدیوں کا تبادلہ ہو گیا تو میرا خیال ہے کہ اعتماد سازی یا confidence building measures کیلئے ایک اچھا قدم ہو گا۔ اور پھر ممکن ہے کہ امن مذاکرات آگے بڑھ سکیں۔

اسلام ٹائمز: پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان کہتے ہیں کہ جن افراد کے پاس وارن وائن سٹائن ہے۔ انہیں کے پاس سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر بھی ہیں، تو کیا انہیں بھی افغان طالبان نے ہی اغوا کیا ہوا ہے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: ہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ شہباز تاثیر تحریک طالبان پاکستان کے پاس ہیں اور ٹی ٹی پی کے لیڈر حکیم محسود ہیں، جو شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیر ستان میں موثر ہیں۔ تو اگر یہ بھی وہیں قید ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی طالبان اپنے مطالبات منوائیں گے۔ تو یہ اطلاع میرے خیال میں صحیح ہے کہ وہ انکو اغوا کے بعد وزیرستان کی طرف ہی لے آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان اور امریکہ کے درمیان کون سے بڑے اختلافات ہیں جو حل نہیں ہو پار ہے اور مذاکراتی عمل طویل ہوتا جا رہا ہے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: انکے درمیان اختلافات تو بے شمار ہیں، جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ انکے درمیان بات چیت کا شروع ہونا ہی بڑی مثبت پیشرفت ہے۔ یہ بڑی بات ہے، کیونکہ پہلے امریکہ کہتا تھا کہ یہ طالبان دہشتگرد ہیں ان سے تو بات نہیں ہو گی، انکو فوجی شکست ہو چکی ہے اور ہم نے انکو ختم کر دیا ہے۔ امریکہ دس سال سے طالبان کے خلاف فوجی کارروائیاں کر رہا ہے لیکن انکو ختم نہیں کر سکا۔ اب وہ مجبور ہیں کہ وہ طالبان سے بات کریں۔ ابھی میرے خیال میں انہوں نے اپنی رائے قائم کر لی ہے کہ افغانستان کا فوجی حل ممکن نہیں ہے اسلئے کوئی سیاسی حل نکالا جائے، اسطرح امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔
 
دوسر ی طرف طالبان بھی پہلے کہتے تھے کہ ہم بات نہیں کریں گے۔ جب تک کہ امریکہ اور دیگر غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل نہ جائیں۔ تو اب انکی پالیسی میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ یہ امریکی فوجوں کے نکلنے سے پہلے ہی مذاکرات پر تیار ہو گئے ہیں۔ پھر یہ تھا کہ پہلے امریکہ کی تین شرائط تھیں کہ جو طالبان مانیں گے تو وہ ان سے مذاکرات کریں گے، لیکن ابھی وہ بھی اس پر اصرار نہیں کر رہے۔
شرائط یہ تھیں کہ:
(1 ) طالبان جنگ ختم کر دیں، ہتھیار ڈال دیں۔
( 2) طالبان القاعدہ سے علیحدہ ہو جائیں۔ اور
( 3) طالبان افغانستان کے آئین کو مانیں۔
 
لیکن اس کے بغیر ہی امریکہ بات چیت کے لئے تیار ہے کہ ابھی شرائط نہیں ہوں گی۔ البتہ بات چیت کے یہ تین مقاصد ہوں گے، جو ہم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور طالبان کی پالیسی میں بھی تبدیلی آ گئی ہے کہ وہ بھی جو عالمی طاقتیں جن کی فوجیں افغانستان میں ہیں، ان سے بات چیت کے لئے راضی ہیں اور بات چیت کر رہے ہیں۔
 
لیکن ابھی طالبان کے ایک stand میں تبدیلی نہیں آئی کہ وہ کہتے ہیں کہ افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے، کیونکہ وہ تو ایک پٹھو حکومت ہے تو امریکہ سے ہی کیوں نہ بات کریں، جو کہ اصلی طاقت ہے۔ اور اس حوالے سے یہ بھی بڑی پیشرفت ہے کہ دونوں فریق اپنی پالیسی میں تبدیلی لے آئے اور بات چیت کر رہے ہیں، لیکن ان کے درمیان موجود اختلافات بہت زیادہ ہیں، اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ بات چیت میں اگر کوئی پیشرفت ہو گی تو وہ بہت آہستہ ہو گی۔ اس کے لئے ٹائم لگے گا۔ آپ دیکھیں ویتنام کی جنگ کے خاتمہ کیلئے امریکہ اور ویت قوم میں 5 سال تک بات چیت ہوئی تھی۔ یہاں تو ابھی ان کی بات چیت شروع ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: ویتنام اور افغانستان کا تقابل کریں تو فریقین کے مذاکرات میں کتنا عرصہ لگے گا۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: کہتے ہیں کہ 2014ء تک امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان سے نکلیں گی، یوں تقریباً تین سال تو اس کے لئے ہیں، امریکی تو یہی چاہیں گے کہ ان کے نکلنے سے پہلے کوئی بات چیت ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ پہلے قطر اور اب سعودی عرب میں مذاکرات کئے جا رہے ہیں؟ حقیقت کیا ہے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: سعودی عرب میں مذاکرات والی بات میرے خیال میں کوئی اتنی وزنی نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ غیر مصدقہ خبریں ہیں۔ قطر والی بات تو حقیقت ہے۔ قطر میں طالبان کے نمائندے کئی مہینوں سے موجود ہیں، غیر رسمی دفتر بھی کام کر رہا ہے۔ عنقریب اس کو رسمی حیثیت دے دی جائے گی۔ اس بات کو امریکہ مان گیا ہے، قطر مان گیا ہے اور  افغان حکومت بھی مان گئی ہے۔ اور جب یہ دفتر باقاعدہ قائم ہو جائے گا اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو گیا تو اس کے بعد میرے خیال میں باضابطہ امن مذاکرات ہوں گے۔ اس میں ظاہراً ابھی کافی رکاوٹیں ہیں۔ فی الحال وہ دفتر عملی طور پر کام نہیں کر رہا، نہ قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے لیکن بات چیت ضرور ہو رہی ہے۔ سعودی عرب میں مذاکرات کی بات میرے خیال میں افغان حکومت کے لوگوں نے اڑائی ہے، کیونکہ وہ ان مذاکرت سے خوش نہیں ہیں، امریکہ طالبان سے بات چیت کر رہا ہے، وہ کرزئی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر کر رہا ہے، تو اس طرح کی ان کی ناراضگی ہے اس لئے وہ یہ باتیں اڑا رہے ہیں کہ طالبان سے بات کریں گے۔ طالبان تو ان سے بات کرتے ہی نہیں، تو وہ کیسے بات کریں گے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب پر طالبان اعتماد کیوں نہیں کر رہے تھے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: سعودی عرب، امریکہ اور طالبان کی بات چیت فی الحال نہیں کروا رہا۔ ثالثی نہیں کروا رہا، کیونکہ اس کی کچھ شرائط ہیں۔ سعودی عرب کی دو بڑی شرطیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے خود دونوں ایک دوسرے کو قابل اعتماد ثابت کریں۔ ہم تب بیچ میں پڑیں گے جب کامیابی کے امکانات ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ طالبان publically اپنے آپ کو القاعدہ سے علیحدہ کرنے کا اعلان کریں۔ جب ان کی شرائط پوری ہی نہیں ہوئیں تو کیسے مذاکرات کروائے گا۔ مجھے تو سعودی عرب میں مذاکرات کرنے کی خبر میں کوئی حقیقت نہیں لگتی۔ یہ بات چیت قطر میں ہو رہی ہے اور طالبان نے ایک نیا اعلان کیا ہے کہ وہ افغان حکومت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان افغان جنگ کا اہم فریق رہا ہے، اب مذاکراتی عمل سے باہر کیوں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: امریکہ چاہ رہا تھا کہ وہ طالبان سے براہ راست بات چیت کرے۔ جرمن انٹیلی جنس نے طالبان سے رابطہ کیا تھا اور ان کے ذریعے کچھ بات چیت آگے بڑھی ہے۔ جو طالبان بات چیت کرنا چاہ رہے ہیں وہ پاکستان کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے۔ لیکن ابھی نہیں تو بعد میں پاکستان کو مذاکرات کی کامیابی کے لئے بیچ میں لانا پڑے گا۔ یہ مذاکرات پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہوں گے۔ دوسرا طالبان کے جو لوگ مذاکرات کے لئے گئے ہیں ان کا پاکستان کو علم بھی ہے۔ کہ کون گیا ہے، کہاں سے گیا ہے۔ انہوں نے سفر بھی کرنا ہے۔ ان کو پاسپورٹ بھی چاہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کا اس میں کردار کافی بنتا ہے، لیکن چونکہ پاکستان سے امریکہ کے تعلقات خراب ہیں۔ اسلئے فی الحال پاکستان کا وہ رول نہیں، جو ہونا چاہیے تھا۔

اسلام ٹائمز: افغان حکومت کو مذاکرات میں شامل نہ کرنے کے پیچھے کیا حکمت کار فرما ہے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ افغان حکومت بہت کمزور ہے اس کی کیا حیثیت ہے۔؟ اس کو تو نیٹو نے حکومت میں رکھا ہوا ہے۔ وہ انکا دفاع کر رہے ہیں۔ اب تو امریکی جانیں بھی دے رہے ہیں اور پیسہ بھی، تو پھر ظاہر ہے کہ فیصلے بھی وہیکریں گے۔ ایسی صورتحال میں نہیں ہو سکتا کہ فیصلے افغان حکومت کی مرضی سے ہوں۔ افغان حکومت کو کون سنبھال رہا ہے؟ کون ان کو بچار ہا ہے۔؟ وہ امریکہ ہی ہے جو یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ کرزئی حکومت کی حیثیت بہت کمزور ہے، ان کی طاقت اور معیشت کمزور ہے۔ ان کا سارا بجٹ مغربی ممالک دے رہے ہیں تو پھر انکی کیا حیثیت ہے کہ وہ ان کو شامل کریں، ادھر طالبان کی یہ بھی شرط تھی کہ ہم افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے۔ کلی طور پر افغان حکومت کو امریکہ نے مذاکرات سے باہر رکھا ہوا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کامیاب ہو گئے تو مستقبل کے افغانستان کا نقشہ کیا ہو گا۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: ایسا ہونا تو خیر ابھی بہت دور کی بات ہے۔ پہلا امکان تو یہ ہے کہ انکے مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے، کیونکہ جب تک غیر ملکی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں انکے درمیان مسئلہ رہے گا اور یہ جنگ وغیرہ بھی جاری رہے گی۔ جس میں کبھی تیزی اور کبھی کمی آئے گی، اس لئے فی الحال ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ کیا نقشہ ہو گا۔ افغان حکومت کے پاس وہ طاقت نہیں ہے۔ وہ مضبوط فوج نہیں ہے، جو افغان حکومت کو بچا سکے۔

اسلام ٹائمز: طالبان نے دس سالہ جنگ سے کیا سبق سیکھا ہے۔؟ طالبان کیا پھر تنگ نظری کا مظاہرہ کریں گے یا ان میں اتنی وسعت نظری پیدا ہو گئی ہے کہ مخالف مذاہب، فرقوں اور سیاسی گروہوں کو برداشت کر لیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: دیکھیں طالبان ایک مسلح گروہ ہے اور اس کو صرف جنگ کرنے کا کام آتا ہے جو وہ اچھے انداز میں کر رہا ہے۔ وہ پہلے بھی حکومت اچھے انداز سے نہیں کر سکے اور میرے خیال میں آئندہ بھی یہی صورتحال ہو گی۔ اگر یہ جنگ جیتتے ہیں، انکو فتح ملتی ہے تو پھر ان کی پالیسی میں بہت کم تبدیلی آئے گی۔ کیونکہ یہ تو دعویٰ کریں گے کہ ہم تو جیت کر آئے ہیں، ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور یوں وہ اسلام اور جہاد کی باتیں کریں گے۔
 
لیکن اگر کوئی سیاسی سمجھوتہ ہوتا ہے، کوئی سیاسی حل نکلتا ہے تو پھر شاید طالبان بھی کچھ پابندیاں مان لیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ تو وقت آنے پر دیکھنا پڑے گا، ابھی تو صورتحال واضح نہیں ہے۔ البتہ یہ ہے کہ طالبان میں بھی کچھ نئے لوگ آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور پروفیشنلز کے ذریعے حکومت کریں۔ ادارے قائم کریں، خواتین کی تعلیم کے بارے میں پالیسی تبدیل کریں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ذہن تبدیل ہو رہا ہے، لیکن ابھی تو حکومت بنی نہیں ہے، جب یہ لوگ حکومت میں آئیں گے تو پھر ان کے پاس طاقت ہو گی، زور ہو گا، تو پھر دیکھیں گے کہ تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا طالبان کے پاس اتنی سیاسی افرادی قوت موجود ہے کہ افغانستان میں عالمی برادری کو قابل قبول حکومت قائم کر سکیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: عالمی برادری کا مسئلہ تو کچھ اور ہے۔ عالمی برادری کا مطلب ہے امریکہ، اور سارے بین الاقوامی ادارے اس کے قبضے میں ہیں۔ اقوام متحدہ ہے، ورلڈ بینک ہے، آئی ایم ایف ہے۔ امریکہ کیلئے تو اپنی مرضی کی حکومت کے بغیر کچھ بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ اب مسئلہ یہ ہو گا کہ افغانستان اگر اقوام متحدہ کا رکن ہے تو وہ اس ادارے کے فیصلے بھی مانے۔ اور ظاہراً پہلے بھی طالبان نے اقوام متحدہ کے فیصلے نہیں مانے تھے۔ اب اگر وہ دوبارہ زور اور طاقت کی بنیاد پر اقتدار میں آتے ہیں، انہیں فتح ملتی ہے تو وہ پھر بھی اقوام متحدہ کے فیصلے نہیں مانیں گے۔ جس طرح ایران یا کوئی اور ملک نہیں مانتا، تو وہ اور بات ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ کسی ملک میں ایسی حکومت ہو جو سب کو قابل قبول ہو، یہ بڑا مشکل مرحلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا مستقبل کے افغانستان کی طالبان حکومت، ایران اور پاکستان سے اچھے تعلقات قائم رکھ سکے گی۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: ظاہر ہے کہ طالبان حکومت کو اچھے تعلقات اپنے ہمسائیوں سے اچھے تعلقات رکھنے پڑیں گے۔ طالبان سے پاکستان کے پہلے بھی تعلقات رہے ہیں۔ لیکن پاکستان سے اختلافات بھی رہے ہیں اور ایران سے تو ان کے کافی مسئلے پیدا ہو گئے تھے۔ اگر صرف طالبان کی حکومت ہوتی ہے اس میں اور کوئی گروہ شامل نہیں ہوتا تو میرے خیال میں پھر تو کافی مسئلے ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: یعنی ایران سے ان کی پہلے والی Tensionرہے گی۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: ہاں، ایران تو اس لئے بھی طالبان کو تھوڑی بہت support دے رہا ہے کہ وہ امریکہ کا دشمن ہے اور طالبان بھی امریکہ کے دشمن ہیں، تو امریکہ ان کا مشترکہ دشمن ہے، اسلئے ایران تھوڑا بہت طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن ایران یہ نہیں چاہے کہ افغانستان میں پہلے کی طرح طالبان کی حکومت قائم ہو۔ اور پاکستان کو بھی بڑے مسئلے پیش آئیں گے۔ اس لئے میرے خیال میں مسئلے کافی ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری تصادم کے تناظر میں طالبان سے امریکی مذاکرات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: امریکہ کا تو ہر جگہ کیلئے ایک ایجنڈا ہے۔ ایران کے لئے اس کا ایک ایجنڈا ہے اور افغانستان کے لئے اس کا علیحدہ ایجنڈا ہے۔ ایران امریکہ کیلئے اس لئے مشکلات پیدا کرنا چاہ رہا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے فارغ ہو گیا تو اس کی توجہ اسکی طرف مرکوز ہو جائے گی۔ امریکہ اور پوری مغربی دنیا اس وقت ایران کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ ایران تو چاہے گا کہ امریکہ افغانستان میں پھنسا رہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قائم کریں۔ جس کی ایران مخالفت کر چکا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں ایران اور امریکہ کے تعلقات تو پہلے ہی خراب ہیں اور اب افغانستان کا مسئلہ بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ عراق کے بارے میں ان میں اختلاف ہے، ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی اختلاف ہے اور اب افغان ایشو کا بھی اس میں اضافہ ہو جائے گا۔ اور یوں میرا خیال ہے کہ انکے درمیان تو اختلافات رہیں گے۔
 
ایران چاہے گا کہ امریکہ افغانستان میں الجھا رہے اور امریکہ چاہے گا کہ افغانستان کی سرزمین کو وہ ایران کے خلاف استعمال کرے۔ دیکھیں کہ امریکہ کا ایک ڈرون طیارہ افغانستان سے اڑا تھا تو ایران نے اسے اتار لیا تھا اور ایران نے امریکی جاسوس بھی پکڑے ہیں جو افغانستان سے ایران گئے تھے۔ ایران کو خطرہ تو ہے کہ امریکہ افغانستان کے راستے اس کے لئے مسائل پیدا کرے گا۔ عراق کے راستے بھی امریکہ نے ایسی کوشش کی تھی اور پاکستان کے راستے بھی امریکہ چاہتا ہے کہ جنداللہ وغیرہ کو استعمال کر کے ایران کیلئے مسائل پیدا کرے۔ تو یہ تمام چیزیں تو رہیں گی۔ امریکہ تو کھلے عام کہتا ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے، اسلئے ایسے مسائل تو رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 134941
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہترین انٹرویو کیا گیا ہے۔اللہ جزا دے۔
ہماری پیشکش