0
Friday 19 Oct 2012 21:43

تکفیریوں کا راستہ روکیں گے، اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کرینگے، علامہ امین شہیدی

تکفیریوں کا راستہ روکیں گے، اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کرینگے، علامہ امین شہیدی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے اسلام ٹائمز سے ملک میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ، اس کے حل اور ایم ڈبلیو ایم کے سیاسی کردار، سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے متعلق لائحہ عمل، ناموس رسالت (ص) تحریک اور اس کے آئندہ کے پروگرام اور آئندہ انتخابات کی تیاریوں، اور ایم ڈبلیو ایم کس انداز سے انتخابات میں وارد ہوگی؟ پر مفصل گفتگو کی ہے، جو آپ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان میں شیعہ ہی کو کیوں مارا جا رہا ہے، حکومت، عسکری قیادت، عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس ساری صورتحال کا حل کیا سمجھتے ہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں، لیکن صرف ان قوموں کی زندگی میں جو زندہ ہوتی ہیں۔ جن قوموں میں حمیت نہ ہو، آئیڈیالوجی نہ ہو، جن قوموں کی زندگی میں ہیروز نہ ہوں، جن قوموں کے پاس تہذیبی و تمدنی سرمایہ نہ ہو، ایسے لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہم مکتب اہل بیت (ع) سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور مکتب اہل بیت (ع) ابتداء سے لے کر آج تک ہر زمانے اور ہر سرزمین میں ہمیشہ مسائل اور مشکلات کا شکار رہا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ آج صرف پاکستان میں ہی یہ مشکل ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد گن لیں، عراق میں صدام کے پانچ سالہ دور حکومت میں شہید ہونے والے افراد کئی گنا ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے پاکستان ہو، عراق، ایران، بحرین، لبنان، بھارت، افغانستان ہو یا کوئی اور ملک، جہاں پر آپ مکتب اہلبیت (ع) کی بات کریں گے تو آپ کو یقینی طور پر اس بات کی توقع رکھنی چاہیے کہ آپ کے مکتب پر حملے ہوں گے اور وہ حملے مختلف صورتوں میں ہوں گے۔ جس کی ایک شکل ٹارگٹ کلنگ ہے۔ 

اس میں فزیکلی لوگوں کو میدان سے نکال دیا جاتا ہے اور مار دیا جاتا ہے لیکن یہ صرف ایک شکل ہے، اس کے علاوہ حملے کی سینکڑوں شکلیں ہیں، اس کی طرف ہماری توجہ کیوں نہیں جاتی؟ اس لیے کہ بدن نہیں مرتا، ان حملوں میں روح مر جاتی ہے لیکن بدن نہیں مرتا۔ جب بدن نہیں مرتا تو توجہ نہیں ہوتی، لیکن روح مرتی ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔
پس ہمیں ساری صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے کہ مکتب اہل بیت (ع)، مکتب تشیع کو کیا کیا چیلنجز درپیش ہیں۔ انہی چیلنجز میں سے ایک چیلنج ٹارگٹ کلنگ ہے۔ جبکہ دوسری طرف شیعہ قوم کے مورال کو اپ سیٹ رکھنا اور ان کے اندر سے امید کو ختم کرنا، ان کو افراتفری کا شکار کرنا، ان کو گروہوں میں توڑنا، ان کے اندر انحرافی چیزوں کو رواج دینا اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو عنوان بنا کر انہیں آپس میں اس طرح سے دست و گریباں کرنا کہ پوری قوم ٹولیوں میں بٹ جائے اور پوری قوم کے اندر قوم کا تصور ناپید نظر آئے، کیا یہ چیزیں کلنگ نہیں ہیں۔؟
 
فیصلہ آپ خود کریں کہ یہ چیزیں زیادہ خطرناک ہیں یا قوم کے چند نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ۔؟ جب خون بہتا ہے تو اس کے نتیجے میں قوم زندہ ہوتی ہے، قوم کے اندر حرارت پیدا ہوتی ہے، خون سے قوم کے اندر جرات پیدا ہوتی ہے۔ اگر صالح قیادت موجود ہو، اگر صالح رہنمائی موجود ہو اور اس قوم کے خون کے بہنے سے جو اثرات اس معاشرے پر مرتب ہونے چاہیں، ان اثرات کو کوئی جمع کرنے اور سمیٹنے والا ہو تو خون سے قومیں زندہ ہوتی ہیں، مرتی نہیں ہیں۔ دوسری جانب وہ چیزیں جس سے شیعہ اہل بیت (ع) کی ثقافت دم توڑ رہی ہے، وہ چیزیں جس کے نتیجے میں کربلا کی روح مر رہی ہے، مکتب اہل بیت (ع) پوری دنیا پر چھانے کے لیے آیا ہے، اس مکتب کو گلی گلی میں روکا جا رہا ہے۔ پس ہمیں ان چیزوں اور ان حملوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ مزید خاموش نہیں رہ سکتے، قوم کال کا انتظار کرے، ایم ڈبلیو ایم شیعہ ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: گزشتہ دو دہائیوں میں بڑے مسائل پیدا ہوئے۔ کوئٹہ سے لے کر پارا چنار تک، ہماری قوم کا جو المیہ رہا، مثلاً دہشت گردی کی بات کی جائے تو ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی سے شہید ہونے والوں کے خاندان کی کفالت اور ان کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کسی نے نہیں سوچا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کی مایوسی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کہیں پر کوئی شخص قتل ہوتا تھا تو لوگ خوف میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ ان کے اندر ملی جذبہ، ملی حمیت، اپنے آپ پر بھروسہ اور اسی طرح کی چیزیں کمزور پڑتی چلی گئیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے اپنے آپ کو چھپانا شروع کر دیا۔ ہمیں اپنے آپ کو چھپانا نہیں چاہیے اور ہمیں شیعہ ہونے پر فخر ہے، ہم اہل بیت (ع) کے ماننے والے ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ ہم نے اگر اس راستے کا انتخاب کیا ہے تو وہ شعوری طور پر کیا ہے نہ کہ صرف پیدائشی طور پر کیا ہے۔ ہمارے پاس سارے دلائل موجود ہیں۔ ہم نے اس راستے کو اللہ، انبیاء (ع)، محمد (ص) کا راستہ سمجھ کر منتخب کیا ہے۔ اہل بیت (ع) کا راستہ انہی انبیاء (ع) کے راستے کا تسلسل ہے اور جب ہمیں اس پر کامل یقین ہے تو پھر ہمیں نہ شرمانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی چھپانے کی ضرورت ہے۔

ہمارا المیہ یہ تھا کہ معاشرے کے اندر یہ جذبہ ناپید ہو رہا تھا۔ جہاں جہاں خون گرتا تھا وہاں لوگ مایوس ہو رہے تھے۔ گرفتاریوں کے خوف سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ٹارگٹ کلنگ، حملہ آوروں اور طالبان کے خوف سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ان مسائل اور خصوصی طور پارا چنار کے پانچ سالہ محاصرے کو سامنے رکھتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین نے میدان میں قدم رکھا۔ ایم ڈبلیو ایم کے قیام کو اڑھائی سال ہوچکے ہیں اور ان اڑھائی سالوں میں گزشتہ دو دہائیوں یعنی بیس سالوں کی مایوسی کو امید میں بدلنے کے لیے ایم ڈبلیو ایم نے کام شروع کیا۔ ابتداء میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات کیے گئے اور لوگوں کو شعور دیا۔ اس کے بعد کراچی اور لاہور میں بڑے بڑے اجتماعات کیے۔ اسی تناظر میں پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں بھی اجتماعات کیے گئے، تاکہ لوگوں کے اندر حوصلہ، حمیت کو زندہ کیا جا سکے، لوگوں کے اندر مایوسی کو امید میں بدلا جا سکے اور لوگوں میں یہ شعور پیدا ہو کہ ہم من حیث الملت تین حیثیتیں، ہمارا اسلام، ہمارا مکتب، ہمارا وطن، ان تین چیزوں کی حفاظت کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
 
خواہ حالات کیسے بھی ہوں۔ آپ نے دیکھا کہ ان اڑھائی سالوں میں مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور لوگ اس کارواں میں شامل ہوتے چلے گئے، بالآخر مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں یکم جولائی کو ایک بڑا قومی اجتماع منعقد کیا گیا۔ ہم نے دہشت گردوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیا اور لوگوں کو دہشت گردوں اور امن پسند لوگوں میں تمیز کرائی۔ ہم نے اپنے پرامن احتجاج اور پرامن جلسے جلوسوں کے ذریعے سے اسلام کی بھی ترجمانی کی، ملت اسلامیہ کی بھی ترجمانی کی اور مکتب اہل بیت (ع) کی روح کو بھی بیان کیا۔ مثلاً گزشتہ ایک واقعہ جس میں ملعون ٹیری جونز نے کی توہین رسالت (ص) کی، اس میں ہم نے اسلام کی ترجمانی کی، ہم نے عالم اسلام کی نمائندگی کی، ہم نے قرآنی حکم کو زندہ کیا، ہم نے اس شعور کو زندہ کیا کہ چاہے کوئی بھی نبی ہو، اس کی عزت ہمارے لیے محترم ہے اور اس کے لیے ہم جان دینا جانتے ہیں۔
 
لہٰذا آپ نے دیکھا کہ اسلام آباد ہو، کراچی یا لاہور ہو، مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے بھرپور احتجاج ہوئے۔ ہم نے اہل تشیع کے افراد کے اندر وحدت کی فضاء پیدا کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ پروگرام کیے، بالکل اسی طرح اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے اور اسلام کی حفاظت کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے ہم نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں جو مظاہرے کیے اور امریکی ایمبیسی تک لانگ مارچ ہوا اور اس کے نتیجے میں اپنی جان بھی دی اور ہم پرامن رہتے ہوئے اور اپنا خون دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ جہاں ہم مکتب تشیع کے محافظ ہیں، وہیں ہم اسلام کے محافظ ہیں اور ہم اسلامی اقدار کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ہمارا تیسرا ہدف پاکستان ہے اور پاکستان کی سالمیت اور اس کا دفاع ہے اور اس کے لئے ہم سیاسی حوالے سے میدان میں اتریں گے اور ان اشاءاللہ ہم پاکستان کو اس کا امن لوٹائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا تھا، اس حوالے سے کیا اپ ڈیٹ ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: جی بالکل! ہم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم سپریم کورٹ جائیں گے اور اس حوالے سے ہم تقریباً تمام دستاویزی ثبوت اکٹھے کرچکے ہیں۔ جب ہم مکمل طور پر تمام دستاویزی ثبوت اکٹھے کر لیں گے تو اس کے اگلے دن ہی ہم انشاءاللہ عدالت میں کھڑے ہوں گے۔ پھر ہم چیف جسٹس صاحب سے پوچھیں کہ آپ کا بہانہ بھی ختم ہوا۔ دہشت گردی اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے ٹھوس اقدامات کریں اور اس میں ملوث افراد اور اداروں کو کورٹ میں طلب کریں اور اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تحفظ ناموس رسالت (ص) تحریک میں ایم ڈبلیو ایم کا کردار ہراول دستے کا رہا، کیا مزید بھی آپ اس تحریک کو جاری رکھیں گے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: جب یہ مسئلہ اسلامی بن کر سامنے آیا اور ساری امت مسلمہ یکجا ہو کر صدائے احتجاج بلند کرنے لگی تو پاکستان کی حکومت نے یوم عشق رسول (ص) منانے کا اعلان کیا، حکومت مجبور ہوگئی کہ اس دن چھٹی بھی کرے اور یوم مصطفٰی (ص) منائے ورنہ حکومت یہ کب چاہتی تھی۔ دوسری طرف جب یہ تحریک پورے ملک میں چلی تو جن لوگوں نے یہ فلم بنائی تھی اور ان کے سرپرستوں نے اس تحریک کے رخ کو بدلنے کے لیے سوچا اور اس پر عمل بھی کیا۔ جس کے نتیجے میں جب یوم مصطفٰی (ص) منایا جا رہا تھا، اس سے ایک دن قبل تمام میڈیا ایک طرح کی گفتگو کر رہا تھا اور جس دن یوم مصطفٰی (ص) منایا گیا۔ اسی دن امریکہ کے اہلکاروں نے استعماری سازش کو پورا کرنے کے لیے اس تحریک کے رخ کو اس طرح بدل دیا کہ جلاؤ، گھیراؤ، قتل، ڈاکے اور لوٹ مار کو عام کیا۔ 

احتجاج کے پاکیزہ ترین چہرے کو اس شکل میں پیش کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ تمام میڈیا کی خبریں دیکھیں، ٹاک شوز اور جتنے بھی پروگرام میڈیا میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس میں اس جلاؤ گھیراؤ کی مذمت نہ کی ہو۔ کیا انصاف یہ نہیں تھا کہ جہاں جہاں ایسے واقعات ہوئے، ان کو الگ طور پر دیکھا جاتا اور جہاں جہاں پرامن طور پر احتجاجی پروگرام ہوئے اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں آئے ان کو الگ دیکھا جاتا، میرے خیال میں تو انصاف یہ تھا۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ ایک ہی سازش کے کئی حصے تھے، جس میں میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا اور پرامن ترین تحریک کو سبوتاژ کر دیا۔ اس میں حکومت اور امریکہ نے اپنی اپنی جگہ کردار ادا کیا۔ نتیجتاً اس تحریک کا رخ اسلام مخالف ہو گیا۔ لیکن یہ تحریک ختم نہیں ہوئی اور نہ ہوگی انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: ملالہ پر حملہ کے بعد تحریک تحفظ ناموس رسالت (ص) کچھ کمزور پڑتی دیکھائی دے رہی ہے، اس ساری صورتحال میں تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: ملالہ کے حوالے سے مسلمان کیا بلکہ ہر انسان یہی کہتا ہے کہ یہ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ملالہ قوم کی بیٹی تھی، ایک مستضعف علاقے کی بیٹی تھی، جس نے طالبائنزیشن اور طالبان و علم دشمن کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ لہٰذا اس بچی پر حملہ علم، سکول اور روشنیوں پر حملہ ہے، تمام لوگوں کا یہی کہنا ہے، کہنا بھی چاہیے، لیکن جس طرح سے ملالہ پر حملے کو استعمال کرکے پینٹاگون سے لے کر یونائیٹڈ سٹیٹس تک، یونائیٹڈ سٹیٹس سے لے کر پاکستان تک، پاکستانی صدر سے لے کر تمام میڈیا کے اینکر پرسن تک، سب نے ملالہ کے مسئلے کو جس طرح سے اٹھا کر اس نبی پاک (ص) کی حرمت اور ان کی شان پر حملے کے اور فلم کے موضوع کو جس طرح دفنانے کی کوشش کی، یہ سب ایک بہت بڑی سازش ہے۔ پورا ہفتہ گزر گیا اور سارے میڈیا پر ملالہ ہی چھائی ہوئی ہے، جبکہ دوسری جانب رسول پاک (ص) کی حرمت بھول ہی گئے۔ یہ اسی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔ 

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ ہر چیز کو بین الاقوامی سازش کہتے ہیں۔ میرے خیال میں یا تو وہ خود اس سازش کا حصہ ہیں یا ان بے چاروں کو نہیں پتہ کہ امریکی پنجے پاکستان میں کس حد تک گڑھے ہوئے ہیں۔ یہاں پر ایک بیان آتا ہے تو اس بیان کے پیچھے بھی ایک پس منظر ہوتا ہے، یہاں پر جب ایک اینکر پرسن بولتا ہے تو اس کے پیچھے بھی ایک پس منظر ہوتا ہے۔ جب ہمارا کوئی سیاستدان بیان دے رہا ہوتا ہے تو اس بیان کے پیچھے بھی ایک پس منظر ہوتا ہے۔ ہر ایک جب اپنی بات کرتا ہے تو وہ اپنی وابستگیوں اور اپنی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتا ہے، جن خواہش کے حامل لوگ ان کی فنڈنگ کرتے ہیں، لہٰذا اس ناموس رسالت (ص) کی تحریک کو دفنانے کی کوشش کی گئی۔
 
اسی لیے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے 15 اکتوبر سے 25 اکتوبر تک عشرہ تحفظ ناموس رسالت (ص) کے منانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں پورے پاکستان کے تمام بڑے و چھوٹے شہروں میں پروگرام ہو رہے ہیں۔ اسی حوالے سے 20 اکتوبر کو کراچی میں بہت بڑا پروگرام ہوگا۔ اسی طرح ملک کے دیگر شہروں میں بھی پروگرام ہو رہے ہیں، تاکہ لوگوں کو دوبارہ سے بیدار کیا جائے اور میدان میں حاضر رکھا جائے اور لوگوں کے اندر یہ شعور زندہ رہے کہ ہمارے رسول پاک (ص) کی توہین کرنے والے کو ہم کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کس طرح سیاسی میدان میں وارد ہوگی اور آپ کس پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: ہمارا ہدف پاکستان کا استحکام ہے اور اس لئے ہم نے بڑی سیاسی طاقتوں سے ملاقاتیں کیں۔ عمران خان صاب ہمارے دفتر آئے، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ہم خیال گروپ سمیت کافی ساری سیاسی پارٹیاں ہمارے پاس آئیں ہیں اور رابطے میں ہیں۔ ہم نے تمام بڑی سیاسی قوتوں کو اپنا منشور بتایا اور کہا کہ اگر آپ ان چیزوں پر ہمارے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں تو ہم بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور آپ ہمارے ساتھ چلیں ہم مل کر پاکستان کے اندر سے امریکی اثرات کو ختم کریں گے اور پاکستان کو امریکہ کے پنجوں سے آزاد کرانے کے لیے، پاکستان کو کرپشن کی لعنت سے آزادی دلانے کے لیے، مہنگائی، دہشت گردی جیسی لعنتوں سے نجات دلانے کے لیے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

ہم چاہتے کہ امت محمد (ص) کا ساتھ دیں، چاہے اس کا کوئی بھی پلیٹ فارم ہو۔ ہم نے اسمبلی میں پہنچنے کو اپنا ہدف نہیں بنایا۔ ہم پاور پالیٹکس نہیں بلکہ ولیوز کی سیاست کریں گے۔ مطلب ہم اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کریں گے۔ ہم نے ایم این اے یا سینیٹر شپ وغیرہ کو اپنا یا اپنی تنظیم کا ہدف نہیں بنایا، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے صالح لوگوں کو وہاں تک پہنچایا جائے، تاکہ وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ایسے صالح افراد ہوں جو وہاں جا کر تفرقے کی بجائے وحدت اور کرپشن کی بجائے ایمانداری کی بات کریں۔ ان کے وہاں جانے سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے میں مدد ملے۔ بس ہم ایسے لوگوں کی سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سپورٹ کرکے اگر چند برے لوگوں سے ہم اسمبلی کو بچا سکتے ہیں تو یہ بہت بڑی خدمت ہے۔ بس ہم نے اسی انداز سے سوچا اور اسی سوچ کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جھنگ ایک حساس ایریا ہے، الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کس کا ساتھ دے گی، کیونکہ ایم ڈبلیو ایم کا کسی طرف بھی جھکاؤ تکفیری گروپ کے جیتنے، ہارنے کا باعث بن سکتا ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: جھنگ کے معاملے میں ہم پہلے دن سے بالکل واضح اور کلیئر ہیں اور ہمارا موقف بھی بالکل واضح ہے کہ ہم تکفیریوں کا راستہ روکیں گے اور اس کے مقابلے میں معتدل اہل سنت افراد کی مدد کریں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کبھی بھی معتدل اہل سنت کے ہارنے کا باعث نہیں بنیں گے۔
خبر کا کوڈ : 204799
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش