1
Wednesday 5 Dec 2012 23:59
افغان حکومت کی بجائے طالبان امریکہ کیساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں

طالبان کو احساس ہے کہ وہ اکیلے افغانستان پر قبضہ یا حکومت نہیں کرسکتے، رحیم اللہ یوسفزئی

طالبان کو احساس ہے کہ وہ اکیلے افغانستان پر قبضہ یا حکومت نہیں کرسکتے، رحیم اللہ یوسفزئی
رحیم اللہ خان یوسفزئی کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے ہے، آپ کا شمار ملک کے نامور تجربہ کار اور سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے، اس کے علاوہ آپ افغانستان امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ سمیت مختلف مسلح گروہوں کے رہنماوں کے انٹرویوز کرچکے ہیں اور ان گروہوں کی اندرونی سیاست اور بیرونی معاملات پر گہری رکھتے ہیں۔ اکثر افغان امور پر منعقدہ مذاکروں اور مباحثوں میں شرکت کرتے ہیں، رحیم اللہ صاحب آج کل قومی انگریزی روزنامے دی نیوز پشاور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر بھی فرائض ادا کر رہے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے افغانستان کی موجود صورتحال، طالبان امریکہ مذاکرات کے نتائج، افغان اور پاکستان حکومت کی بات چیت اور خطہ کے مستقبل سے متعلق رحیم اللہ یوسفزئی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جیسا کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں مختلف بیسز مستقل طور پر حاصل کرنے کا مطالبہ سامنے رہا ہے، اس تناظر میں کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہے گا، یا پھر انخلاء قریب ہے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: دیکھیں، امریکی تو اب خود کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں، ان کے سیکرٹری دفاع پنیٹا بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں رہیں گے، معاملہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ مستقل طور پر یہاں رہتا ہے تو اس پر افغان قانون لاگو ہونا چاہئے، مگر امریکی اسے نہیں مانتے، اب یہ بھی بات چل رہی ہے کہ یہ بیسز جو ہوں گی وہ کونسی ہوں گی، اس پر کنٹرول کس کا ہوگا، کتنے لوگ یہاں رہیں گے, یہ ابھی تک واضح نہیں ہے، مختلف فگرز آئی ہیں، سپشل فورسز ہوں گی جو فضائی طاقت استعمال کریں گی، یعنی ہیلی کاپٹرز، جیٹ فائٹرز اور ڈرونز، اس کے علاوہ ٹریننگ کیلئے ان کے افسر موجود ہوں گے، جو افغان فورسز کو ٹریننگ دیں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی فوجی یہاں رہیں گے، امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے غلطی کی تھی جب روسی فوجی چلے گئے اور ہم بھی چلے گئے، لیکن اب وہ غلطی نہیں دہرائیں گے، اور میرے خیال میں وہ یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ افغان حکومت گر جائے، تو اس کو سہارا دینے کیلئے یہ لوگ یہاں رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور طالبان کے مابین جو مذاکرات ہو رہے تھے وہ کس نوعیت کے تھے، ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکل سکا، یا پھر یہ بات چیت کا عمل قیدیوں کے تبادلے تک ہی محدود رہا۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: طالبان تو کہتے ہیں کہ ہمارا صرف ایک ہی مقصد تھا قیدیوں کا تبادلہ۔ چونکہ ایسا نہیں ہو سکا، تو ہم نے مذاکرات کو معطل کر دیا، ختم نہیں کیا، تو میرے خیال میں آئندہ بھی امکان ہے کہ یہ مذاکرات پھر سے شروع ہو جائیں، چونکہ امریکی انتخابات ہو رہے تھے تو اوبامہ کیلئے مشکل تھا کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ کرتا، اگر وہ طالبان قیدیوں کو رہا کرتا تو اس پر کافی تنقید ہوتی، اس لئے اس نے اس وقت یہ فیصلہ نہیں کیا، لیکن اب اسے چار سال مل گئے ہیں تو میرے خیال میں اب وہ شائد یہ فیصلہ کر لے گا، اور اگر قیدیوں کا تبادلہ ہوگیا ، 5 طالبان قیدیوں کے بدلے ایک امریکی فوجی کو رہا کر دیا گیا تو پھر یہ ہوگا کہ کچھ اعتماد کی فضاء بن جائے گی، اور ممکن ہے کہ بعد میں امن مذاکرات ہوں اور باقی ایشوز پر بات ہو، تو وہ جو مذاکرات ہوئے اس پر افغان حکومت نے کافی شور مچایا کہ ہمیں بھی شامل کریں، لیکن طالبان نہیں مان رہے تھے تو امریکیوں نے طالبان کی اس بات کو مان لیا، اور افغان حکومت کو اس میں شامل نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: یوسفزئی صاحب گزشتہ دنوں افغان وفد نے جو پاکستان کا دورہ کیا، جس کے بعد پاکستان نے بعض طالبان رہنماوں کو رہا کیا، اور ملا برادر کی رہائی کی بھی بات ہوئی، ان مذاکرات کے نتیجے میں کسی قسم کی پیش رفت نظر آتی ہے افغانستان کے مسئلہ پر۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: وہ تو پاکستان اور افغان حکومتوں کے مذاکرات ہیں، جس میں طالبان یا امریکہ شامل نہیں ہیں، افغان حکومت اور امن کونسل کی یہ خواہش تھی، ایک وفد یہاں آیا کہ پاکستان کی حکومت کا طالبان پر اثر ہے، تو ان کو منایا جائے یا مجبور کیا جائے کہ وہ ہم سے بات کریں، تو پاکستان نے ان سے کہا کہ آپ خود ان سے بات کرلیں، ہم کچھ لوگوں کو رہا کرتے ہیں، اور اگر یہ لوگ راضی ہوگئے تو مزید لوگوں کو رہا کر دیں گے، افغان حکومت نے تین چار لوگوں کے نام لئے تھے، جس میں ملا برادر کا نام بھی شامل تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی ہمارے لئے کافی ہے، تاہم اس کو فی الحال رہا نہیں کیا گیا، میرے خیال میں پاکستان امریکہ کی رضا مندی پر اس کو رہا کر دے گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے بات آگے نہیں بڑھے گی، کیونکہ وہ رہا ہوں یا قید ہوں وہ افغان حکومت کیساتھ بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، جو لوگ قید ہیں، ان کے پاس اختیار نہیں ہیں، طالبان کی جو شوریٰ ہے ملاعمر والی، جب تک وہ راضی نہیں ہوگی کوئی اس کی نمائندگی نہیں کرسکتا، چاہئے وہ برادر ہو یا کوئی اور، جب تک ملا عمر اور اس کی شوریٰ نہیں کہیں گے کہ یہ ہمارا نمائندہ ہے یہ بات کرے گا، اس کے علاوہ یہ فضول کام ہے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان کے دیگر گروپس حقانی نیٹ ورک، گلبدین حکمت یار اور شمالی اتحاد کا مستقبل کی صورتحال میں کیا کردار دیکھ رہے ہیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: شمالی اتحاد تو نہیں ہے، البتہ اس کے جو پرانے دھڑے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی بات چیت میں شامل کیا جائے، کرزئی حکومت صرف خود بات چیت نہ کرے، جبکہ کرزئی کا کہنا ہے کہ میں تو منتخب صدر ہوں تو میری حکومت کو بات چیت کرنے کا اختیار ہے، تو ان میں بھی اختلافات ہیں، پرانے شمالی اتحاد کے لوگ جو غیر پشتون ہیں، وہ طالبان کیساتھ کسی قسم کے مذاکرات یا ڈیل کے حق میں نہیں ہیں، باقی لوگ بھی جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور طالبان کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ طالبان کی شرائط نہ مانیں، ان سے کہیں کہ وہ آئیں اور انتخابات میں حصہ لیں، طالبان کیساتھ معاملات طے کرنے کیلئے وہاں بھی مختلف آراء ہیں، طالبان کے اندر بھی کچھ لوگ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں، اختلافات کافی ہیں، اس وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ رہی، طالبان امریکہ سے بات کرنے کو تیار ہیں اور بات کی بھی ہے، لیکن وہ افغان حکومت سے نہ تو بات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کو ماننے کو تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ طالبان کو اس بات پر راضی کیا جا رہا ہے کہ وہ افغان حکومت کیساتھ ملکر حکومتی معاملات سنبھالیں، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: پہلی بات تو یہ ہے کہ طالبان راضی ہوں اور بات چیت کریں افغان حکومت کیساتھ، وہ راضی نہیں ہیں، تو یہ تو دور کی بات ہے کہ ان کو اقتدار میں حصہ دیا جائے، فی الحال پاکستان کی حکومت افغان حکومت کی درخواست پر ان کو راضی کرنے کی کوشش کرے گی، طالبان مان گئے تو پھر بات ہوگی کہ کوئی جنگ بندی ہو اور طالبان سیاسی میدان میں آئیں، انتخابات میں حصہ لیں یا ان کو انتخابات کے بغیر اقتدار میں حصہ دیا جائے، تو یہ باتیں قبل از وقت ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل افغانستان میں غیر ملکی فورسز کا کافی جانی نقصان ہوا، تاہم اب طالبان کے حملوں میں کچھ کمی دیکھی جا رہی ہے، یہ کسی بات چیت کا حصہ ہے یا کوئی حکمت عملی۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: اصل میں وہاں سردیوں میں جنگ میں کچھ کمی آتی ہے اور گرمیوں میں تیزی آتی ہے، وہاں شدید سردی پڑتی ہے، یہ موسم کی وجہ بھی ہے، ایسا نہیں ہے، بڑے بڑے حملوں کی خبریں آتی ہیں، یعنی اگر کوئی کابل میں ہو جائے، باقی روزانہ مختلف صوبوں میں ان پر کافی حملے ہوتے ہیں، آپ یہ سمجھ لیں کہ روزانہ تیس چالیس حملے مختلف جگہوں پر وہاں ہوتے ہیں، تو اس میں موسم کی وجہ سے کمی آئی ہے، باقی ایسا نہیں ہے کہ ان کی طاقت کم پڑ گئی ہے یا کچھ اور، میرے خیال میں ان کی بھی حکمت عملی ہوتی ہے کہ کب بات کرنی ہے، کب حملہ کرنا ہے، کب بڑا حملہ کرنا ہے، یہ ان کی حکمت عملی ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے علاوہ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک یعنی ایران اور چین افغان صورتحال کے حوالے سے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: ایران چاہتا ہے کہ نیٹو یہاں سے نکل جائے، چین بھی چاہتا ہے کہ یہ لوگ نکل جائیں، باقی ہمسایہ ممالک اور پاکستان کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ یہ چلے جائیں، لیکن سب کی یہ خواہش ہے کہ اس سے پہلے کوئی انتظامات کئے جائیں، کوئی سیاسی حل نکالا جائے، کوئی علاقائی حل نکالا جائے، تاکہ پھر کہیں حالات خراب نہ ہو جائیں، تو یہ سب کی خواہش ہے، باقی تو یہ ہے کہ ایران نیٹو کا سب سے زیادہ مخالف ہے، اور وہ چاہے گا کہ یہ نکل جائیں یہاں سے، کیونکہ اس کو کافی خطرات ہیں، جب تک امریکہ یہاں ہوگا، اسے خطرہ رہے گا۔

اسلام ٹائمز: افغان صورتحال کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے، کیا افغانستان میں امریکی فورسز کی موجودگی تک پاکستان میں بھی دہشتگردی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: بالکل، ان دونوں ممالک کا آپس میں لنک ہے، افغانستان میں جب تک امن نہیں آئے گا یہاں پر بھی مسئلے رہیں گے، کیونکہ افغان طالبان یہاں پر آ کر چھپے ہوئے ہیں اور وہ وہاں پر جا کر حملے کرتے ہیں، اسکے علاوہ پاکستانی بھی جنگ میں حصہ لینے کے لئے افغانستان جاتے ہیں۔ اور پھر امریکہ ان پر ڈرون حملے کرتا ہے، جس کا ردعمل ہوتا ہے، دھماکے اور خودکش حملے ہوتے ہیں، تو اس صورتحال کا آپس میں واسطہ ہے، افغانستان میں جنگ کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہوا، اور اگر مذاکرت کے ذریعے بھی حل نہیں ہوتا تو پاکستان کے لئے مشکلات رہیں گی، کیونکہ امریکہ پاکستان کو کہتا ہے کہ آپ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو نکالیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں، دراندازی کو روکیں، جب کہ پاکستان کہتا ہے کہ پاکستانی طالبان افغانستان چلے گئے ہیں اور امریکہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا، یہ سلسلہ جاری رہے گا، تاہم اس میں کمی بیشی ہوتی رہے گی، لیکن مکمل امن بحال نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہاں دہشتگردی کی کارروائیوں کرنے والے پاکستانی طالبان افغان طالبان کا تسلسل ہیں، یا پھر ان کی اپنی الگ سوچ اور پالیسی ہے۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: ان کی تو اپنی تحریک ہے، تحریک طالبان پاکستان، اور پھر اس کے ہم خیال گروپ ہیں، ان کی جائے پناہ بھی ہے وزیرستان اور باجوڑ وغیرہ میں، تو ان کا اپنا سسٹم ہے، تاہم یہ افغان طالبان سے متاثر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ملا عمر ہمارا رہبر ہے، ان کے آپس میں بھی تعلقات ہیں، لیکن افغان طالبان کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ فاصلہ رکھیں اور پاکستان میں کوئی کارروائی نہ کریں، یہ افغان طالبان کی پالیسی ہے، اور ان کا فوکس افغانستان پر ہے، لیکن تعلقات کے اوپر وہ پاکستان کو استعمال کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مستقبل میں طالبان کے رویہ میں ماضی کے مقابلہ میں کیا کوئی تبدیلی متوقع ہے یا پھر پرانی صورتحال برقرار رہے گی۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: وہ کہتے تو ہیں کہ ہم نے سیکھا ہے سمجھا ہے، لیکن جب ان کی حکومت آئے گی تب دیکھا جائے گا، طالبان تسلیم کرتے ہیں کہ ان سے غلطیاں ہوئیں، لیکن اپنی پالیسیوں کے بارے میں آج تک انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے کوئی بہت بڑی غلطی کی ہے، ان کو یہ بھی احساس ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ اکیلے افغانستان پر قبضہ یا حکومت کریں، لہذا انہیں لوگوں کو ساتھ ملا کر رکھنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ افغانستان کی صورتحال کی تبدیلی اور خطہ میں امن کا قیام کب تک دیکھ رہے ہیں۔؟
رحیم اللہ یوسفزئی: غیر ملکی فوج کی موجودگی عدم استحکام کی ایک وجہ ہے، اگر غیر ملکی وہاں رہیں گے تو جنگ ختم نہیں ہوگی، اگر 2014ء کے بعد بھی امریکی رہیں گے تو جنگ ختم نہیں ہوگی، اور سیاسی حل کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے، سیاسی حل نکالنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی، ساری توجہ فوجی حل پر مرکوز تھی، جو ناکام ہوگئی، تو مجھے اتنی امید نہیں ہے کہ وہاں پر جلد امن قائم ہو جائے، خانہ جنگی تو شائد نہ ہو، لیکن مسئلے افغانستان میں رہیں گے، اور افغانستان میں اقتدار کی جنگ کافی عرصہ تک رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 217845
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش