0
Sunday 20 Jan 2013 18:43

مولانا فضل الرحمان اس وقت کہاں تھے جب کوئٹہ میں قتل عام جاری تھا، علامہ صادق رضا تقوی

مولانا فضل الرحمان اس وقت کہاں تھے جب کوئٹہ میں قتل عام جاری تھا، علامہ صادق رضا تقوی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ سید صادق رضا تقوی اپنے زمانہ طالبعلمی سے ہی اجتماعی معاملات میں فعال ہیں، آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی مختلف ذمہ داریوں پر فائض رہنے کے علاوہ کراچی ڈویژن کے صدر بھی رہے ہیں۔ اس وقت آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف مجلوں کے مدیر بھی ہیں اور کراچی میں شیعہ قومیات اور ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے بھی فعال ہیں۔ اسلام ٹائمز نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے دیئے گئے دھرنے کے بعد علامہ سید صادق رضا تقوی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی، اس سلسلے میں آپ سے کیا گیا انٹرویو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا تشخص فرقہ وارانہ ہے یا اس سے بالاتر ہے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: مجلس وحدت مسلمین نے ڈھائی سال قبل اپنے تنظیمی و سیاسی سفر کا آغاز کیا، درحقیقت مجلس وحدت مسلمین شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ کے روحانی و معنوی بیٹوں کا سفر ہے اور شہید قائد عارف الحسینی رہ رہبر کبیر حضرت امام خمینی رہ کے ان فرزندِ صادقوں میں سے ایک فرزند ہیں کہ جنہوں نے خالص اسلام محمدی کیلئے اور اسے پورے جہان میں پھیلانے کیلئے قرآن و اپنے مکتب سے حلف اٹھایا تھا۔ یہ وہ حلف ہے جو ہر زمانے میں اسلام کے معنوی فرزند اٹھاتے ہیں اور اس کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں اور جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں، کچھ شہید ہو جاتے ہیں۔ الغرض یہ کہ جس طرح امام خمینی رہ کی ذات تھی جیسا کہ وہ ایک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی سوچ عالمگیر سوچ تھی، ان کی کسی بات، کسی فکر یا زندگی کے کسی لمحے میں بھی فرقہ واریت نظر نہیں آتی تھی۔

اسی طرح مجلس وحدت مسلمین بھی جس کا تعلق درحقیقت مکتب تشیع سے ہے لیکن ہم اسلام ناب محمدی کیلئے، اسلام کے فروغ، نشر و اشاعت کیلئے، استحکام پاکستان کیلئے کام کر رہے ہیں۔ اصل میں فرقہ واریت اس وقت ہوتی ہے یا فرقہ وارانہ سوچ اس ماحول میں پنپتی ہے جب ایک دوسرے کو قبول نہ کیا جائے، اپنی بات تشدد و ظلم کے ذریعے منوائی جائے، ایک خاص فکر کو لوگوں پر تھوپنے کیلئے ظلم و ستم و تشدد کا راستہ اپنایا جائے۔ لہٰذا ہم ایسی کسی قسم کی سوچ و فکر نہیں رکھتے اور ایم ڈبلیو ایم کی ڈھائی سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم اسلام پسند، محب وطن و جمہوریت پسند پاکستانی ہیں۔ جمہوریت پسند ہونے کے ناتے، مکتب تشیع سے وابستہ ہونے کے ناتے ہمارا مکتب ہمیں اجازت دیتا ہے کہ دلیل و برہان کی راہوں کو اپنایا جائے، اپنی باتوں کو زبردستی کسی پر نہ تھوپا جائے، ہمارے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں۔

ہم دلیل و برہان سے، قرآن و سنت حضرت محمد ص و اہل بیت سے اپنی باتوں کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں اتحاد بین المسلین کے فروغ، جمہوریت کے فروغ، استحکام پاکستان کیلئے جدوجہد اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر میں نظریاتی ہم آہنگی اور اسی طریقے سے ملت تشیع پاکستان کو متحد و منظم کرتے ہوئے ایک اعلیٰ ہدف کہ جس کا قرآن نے امت واحدہ کا تصور دیا ہے، کی جانب بڑھ رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین و دیگر تنظیموں نے جو احتجاجی و مطالباتی مہم چلائی، اس کا کیا فائدہ ہوا؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کوئٹہ کے مومنین کی استقامت نے، شہداء کے وارثین کی استقامت نے پورے پاکستان کو بیدار کیا اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پورے پاکستان میں احتجاج و دھرنے کی کال دی جس پر پورے پاکستان میں عمل درآمد کیا گیا، ایسا منظر جسے پاکستانی تاریخ میں پہلے نہیں دیکھا گیا۔ جہاں تک بات مطالبات کی ہے تو ان میں سب سے بڑا مطالبہ گورنر راج کا تھا، یعنی اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پاکستان میں جمہوری اقدار کے خلاف ہیں لیکن جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیر باقی ہی نہیں رہی تھی اس ہی لئے ہم مجبور ہوئے اور یہ مطالبہ کیا، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا فروغ و استحکام ہو۔ وہاں وزیراعلیٰ کی ہٹ دھرمی کو پوری دنیا نے دیکھا اور جو حالات وہاں پیدا ہوگئے تھے ان حالات میں وہاں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، چنانچہ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ نااہل وزیراعلیٰ کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کیا جائے۔

دوسرا بڑا مطالبہ تھا کہ کوئٹہ میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جائے تو انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ کوئٹہ میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن کیا جائے گیا اور جیسا کہ خبریں آرہی ہیں کہ کوئٹہ میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں خصوصا لشکر جھنگوی و دیگر کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن گورنر بلوچستان کی ہدایت پر شروع ہو چکا ہے۔ بہرحال کوئٹہ کے شیعہ نمائندگان نے فی الحال اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والا یہ آپریشن دہشت گرد عناصر کے خاتمہ تک جاری رہے گا۔

یہاں پر میں اس منفی تصور کہ جس کا تذکرہ بار بار میڈیا و سیاسی تنظیموں و حکومت کی جانب سے کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک ہزارہ برادری کا مسئلہ ہے یہ شیعہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ظلم و زیادتی ہے مکتب تشیع کے ساتھ، صحیح ہے ان کیلئے ہزارہ ہونا فخر نہیں، ان کیلئے شیعہ ہونا فخر ہے، انہیں حضرت محمد (ص) و آل محمد (ع) سے وابستگی پر فخر ہے۔ لیکن اس کے باوجود جان بوجھ کر اس ایشو کو پیدا کیا جا رہا ہے تا کہ ملت تشیع میں انتشار و تفرقہ ایجاد کیا جائے اور کوئٹہ میں جاری شیعہ نسل کشی کو ایک قبیلے تک محدود کر دیا جائے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ میں آپ کے توسط سے میڈیا سے درخواست کروں گا کہ وہ آئندہ ہزارہ قبیلے کا لفظ استعمال نہ کرے۔ وہاں کچھ قوم پرست جماعتیں ہیں جو وہاں اس صورتحال کو پنپنے نہیں دے رہی ہیں اور ان کی نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے یہ صورتحال یہاں تک پہنچی ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین نے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس مطالبے کو اسٹیبلشنمٹ کی حمایت حاصل ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: دیکھیں فوج ہمیشہ رنگ و نسل و فرقوں سے بالاتر ہوتی ہے اور وہی افراد ملکی سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں جو وطن کی سربلندی کیلئے لڑیں۔ الحمد اللہ پاک فوج نے اب تک اپنے اس کردار کو باقی رکھا ہے۔ اگر کہیں ہمیں اونچ نیچ و آمریت نظر آتی ہے تو آمر ضیاءالحق کی نظر میں، یا مثال کے طور پر پرویز مشرف کچھ دنوں کا کہہ کر دس گیارہ سال اقتدار پر بیٹھ گئے اور اس کے علاوہ ایوب خان اور یحییٰ خان کا دور سب کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود مجموعی طور پر پاک فوج کا کردار قابل ستائش ہے۔ جہاں تک بات ہے فوج کو بلانے کی تو دیکھیں جنہیں آپ قوم کا نمائندہ کہتے ہیں یا جو اپنے آپ کو قوم کا نمائندہ کہتے ہیں اگر وہ مکمل طور پر عوامی مسائل کے حال میں ناصرف یہ کہ ناکام ہو جائیں بلکہ عوام کی جان، مال، عزت و آبرو لٹتی دیکھیں اور بے حسی کا شکار ہوں اور اپنی عیاشیوں میں مصروف رہیں، لوٹ مار کرپشن میں ڈوبے ہوں یا جب نام نہاد جمہوری ادارے، اسمبلیاں قوم کے مسائل حل نہ کریں، قاتل بن جائیں، دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے نظر آئیں، دہشت گردوں کے پشت پناہ بن جائیں، اس قسم کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کریں کہ میں ٹشو کا ایک ٹرک بھیج دیتا ہوں یا یہ کہیں کہ اسّی لاکھ کی آبادی میں اگر چالیس لوگ مر جائیں تو فوج نہیں بلائی جاتی وغیرہ وغیرہ۔ صوبہ خانہ جنگی کا شکار ہو چکا ہو اور ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جائے تو عوام کے پاس اس صورتحال میں فوج کو بلانے کے مطالبہ کے علاوہ کیا آپشن رہ جاتا ہے۔

پاکستانی ایجنسیز، ادارے، سیاسی و مذہبی جماعتیں جانتی ہیں کہ ملت تشیع پاکستان ایک پرامن ملت ہے، جس نے پاکستان کو بنانے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ ہم ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتے۔ رہی بات یہ کہ ہم نے فوج کو بلانے کا مطالبہ اسٹیبلشنٹ کی ایماء پر کیا تو اس کی حقیقت صرف ایک بے بنیاد الزام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حالیہ سانحہ کوئٹہ سے پہلے کیا پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت خصوصاََ کراچی و کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنے کا نہیں کہہ رہی تھی، کیا ان کا مطالبہ یہ نہیں تھا بلکہ ابھی بھی ان سب کا مطالبہ یہی ہے کہ کراچی اور کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں دہشت گرد عناصر کے خاتمے میں کیلئے بھرپور فوجی آپریشن کیا جائے جس کی وجہ سے پاکستانی سالمیت خطرے میں پڑی ہوئی ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ ہم حقیقی جمہوری لوگ ہیں اور صرف حقیقی جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان نے حالیہ گورنر راج کی مخالفت کی ہے اور ساتھ ساتھ کہا ہے کہ کشمیر و افغان سرحد کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی فرقہ وارانہ ہوا چل رہی ہے، آپ اس کے جواب میں کیا کہنا چاہیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: دیکھیں جہاں تک مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران سے بھی پاکستان میں مداخلت کی جا رہی ہے تو مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے کس کے اشارے پر، کن بیرونی و اندرونی قوتوں کے اشارے پر اچانک اس قسم کی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی ایران کی جانب سے سارے عالم اسلام میں اتحاد بین المسلمین کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو سرہاتے رہے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے ساری دنیا کے علم میں ہے کہ دہشت گرد گروہ جنداللہ اور اس کا سرغنہ دہشت گرد عبد المالک ریگی پاکستان میں رہتے ہوئے امریکی مالی و تیکنیکی مدد سے ایران کے اندر لا تعداد دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھا مگر کبھی مولانا نے اس کی مذمت نہیں کی جبکہ خود دہشت گرد ریگی نے اپنی گرفتاری کے بعد پاکستان سے ایران کے اندر امریکی ایماء پر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کو قبول کیا تھا جس کے وڈیو ثبوت دنیا میں عام ہو چکے ہیں۔ پھر بھی اگر مولانا فضل الرحمان کے پاس اگر پاکستان میں ایرانی مداخلت کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے، کوئی دلیل ہے تو وہ اسے منظر عام پر لائیں کہ جس طرح انہوں نے ان الزامات کا برملا اظہار کیا ہے۔ ان الزامات کے ثبوت وہ حکومت پاکستان و عدلیہ کو دیں تا کہ مولانا فضل الرحمان کے اس دعوے کہ ایران پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے کے سلسلے میں حکومت اسلامی ایران سے بات کی جا سکے۔

جہاں تک مولانا نے کہا کہ گورنر راج غیر آئینی اقدام ہے تو مجھے بتائیں کہ انہیں آئین یاد کب آیا، اتنی قتل و غارت گری ہو رہی ہے، اس وقت آپ اور آپ کی جماعت کہاں تھی۔ وہاں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت برادران کا بھی قتل عام جاری تھا، اس وقت یہ خاموش رہتے ہیں، اس وقت انہیں فرقہ واریت یاد نہیں آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کی نظر میں جمہوریت یہ ہے کہ لوگوں پر ظلم و ستم ہوتا رہے، عوام کو قتل کیا جاتا رہے، ان کی جان و مال و عزت و آبرو لٹتی رہے مگر وہ خاموش رہیں، کوئی آواز بلند نہ کریں، اپنے دفاع کیلئے نہ اٹھیں، یہ معنی ہیں جمہوریت کے اور اگر اس کے برعکس وہ اپنے دفاع میں پر امن رہتے ہوئے آواز بلنگ کریں تو یہ مولانا کی نظر میں غیر جمہوری طرز عمل ہے، غیر آئینی اقدامات ہیں۔

مولانا بتائیں کہ ایسا نا اہل وزیراعلیٰ کہ جس کے صوبے میں عوام کا قتل عام جاری ہے اور وہ بیرون ملک عیاشیاں کرتا پھرے، ایسا نااہل شخص کہ جس سے خود اس کی جماعت اور کارکنان ناراض ہیں، ایسے شخص کے خلاف اگر عوام آواز بلند کریں تو یہ مولانا کی نظر میں غیر آئینی و غیر جمہوری ہے۔ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے در اصل خود مولانا فضل الرحمان کی سیاسی و مذہبی حیثیت کو نقصان پہنچے گا، وہ دہشت گرد عناصر جو پاکستانی آئین و پاکستان کے استحکام کے خلاف، اپنی تکفیری سوچ کو دہشت گردی و ظلم و زیادتی و تشدد کے ذریعے پاکستان اور پاکستانی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یعنی یہ دہشت گردانہ طرز عمل مولانا کی نظر میں جمہوری ہے اور اس دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانا غیر جمہوری و غیر آئینی ہے۔ ملت تشیع پاکستان نے ہمیشہ دلیل و برہان کا راستہ اختیار کیا، ہم نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت کی اور اسی لئے آج تک سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ کوئٹہ میں حالیہ ہونے والی دہشت گردی میں حکومتی بے حسی کی انتہاء ہوگئی، چھیاسی سے زائد لاشوں کے ساتھ ہزاروں خواتین و بچوں کے ساتھ پاکستانی عوام چار دن شدید سردی، برف باری و بارشوں کے عالم میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور نااہل وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی تھی اور اس پر ظلم کی انتہا کہ نااہل ترین وزیر اعلیٰ بلوچستان ظلم و ستم کی چکی میں پسی عوام کو چھوڑ کر بیرون ملک عیاشی میں اب تک مصروف ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ کوئٹہ کے خلاف احتجاجی دھرنوں کو پورے پاکستان میں برادران اہل سنت سمیت سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے، آیا دہشت گردی و تکفیری سوچ کے خلاف جدوجہد میں اس تعاون میں مستقل بنیادوں پر مزید اضافہ ہونا چاہئیے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: ملت تشیع کی جانب سے سانحہ کوئٹہ کے خلاف احتجاجی تحریک و دھرنوں کو ہمارے برادران اہلسنت و اہل سنت تنظیموں کی پورے پاکستان میں حمایت و شمولیت حاصل رہی اور یہ خود اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مخصوص تکفیری سوچ کا حامل گروہ ہے جو شیطان بزرگ امریکا و صیہونی اسرائیل کے اشاروں پر پاکستان کے اندر تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت کو بھی کافر قرار دے کر ان کے قتل میں بھی ملوث ہے اور وہ پاکستان کی سالمیت کے بھی خلاف ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان میں اتحاد بین مسلمین کی مثالی فضاء کو نقصان پہنچا کر اسلام و پاکستان کو نقصان پہنچا سکے۔ مگر الحمد اللہ پاکستان میں اہل تشیع و اہل سنت بیدار ہیں اور وہ ماضی کی طرح تکفیری سوچ کو پاکستان میں ناکام بناتے رہیں گے کہ جس کا مشاہدہ دنیا نے سانحہ کوئٹہ کے خلاف پورے ملک میں ملت تشیع کے احتجاجی دھرنوں میں اہل سنت برادران و تنظیمات کی شمولیت و حمایت کی صورت میں کیا ہے۔

جہاں تک بات ہے سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کی حمایت کی تو اس سلسلے میں بتاتا چلوں کے ہم نے تو مسلم لیگ نواز کہ جو پنجاب میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے، جب وہ نمائش چورنگی پر دھرنے میں شرکت کرتی ہے تو ہم ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف نے خطاب کیا، ان کی جماعت کا وفد دھرنے میں آیا، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پاکستان سنی تحریک، پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)، مسلم لیگ فنکشنل، ان کے علاوہ کراچی کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے حمایت کی، اقلیتی برادری و تنظیمیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، مختلف جامعات کے اساتذہ، ٹی وی اداکار الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد و تنظیموں نے شہداء اور ان کے وارثوں سے اظہار یکجہتی کیا، اپنی حمایت کا یقین دلایا، یہ سب ہمارے دکھ درد کو بانٹنے آتے تھے، ہماری آواز میں آواز ملانے آئے تھے۔ میں آج اسلام ٹائمز کے توسط سے پھر تمام افراد و تنظیموں و جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں خصوصاََ تمام برادران اہل سنت کا۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ و دھرنے کی حمایت تو کی لیکن عملی شمولیت کا فقدان نظر آیا، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: سب سے پہلے تو میں واضح کردوں کہ بات طاہر القادری یا کسی اور کی حمایت کی نہیں، بلکہ ہم پاکستان میں ہر اس جمہوری آواز کی حمایت کریں گے جو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو فروغ دینا چاہے گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جن ایشوز کو ہمارے سامنے رکھا، ہمیں ان کی باتوں میں، ان کی اصلاحات کے مطالبوں میں خلوص نظر آیا ہے، پاکستان کی بقاء و سالمیت نظر آئی، حقیقی جمہوریت کا فروغ نظر آیا اس لئے ہم نے ان کے ایشوز کی، ان کے اصلاحات کے پروگرام کی تائید کی۔ اگر ہمیں پہلے سے اعتماد میں لیا جاتا تو شاید ہم پورے ملک سے اس میں شمولیت کا اعلان بھی کرتے جو کہ منطقی بھی ہوتا۔ تو ہم پہلے کہ طرح اب بھی ان کے اصلاحات کے پروگرام کی حمایت کرتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ خود حکومت نے بھی ان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے ان کے اصلاحات کے پروگرام کی تائید کی ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم شرکاء کیلئے کیمپس لگائیں گے، ان کیلئے کھانے پینے کا اہتمام کریں گے تاکہ ہمارے ان بھائیوں بہنوں کو تنہائی کا احساس نہ ہوکہ جو پاکستانی سالمیت و بقاء و جمہوریت کے فروغ کیلئے اٹھے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دھرنا وغیرہ ملت کو درپیش مسائل کا مستقل حل ہے یا ملی تنظیموں کا اتحاد ہی واحد حل ہے؟ اگر نہیں تو آپ ملت کے مسائل کا کیا مستقل حل پیش کرتے ہیں؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: یہ حقیقت ہے کہ دھرنا جو ہے وہ کوئی منطقی راہ حل نہیں ہے لیکن جب قوم کو مارا جائے، نسل کشی کی جائے، ظالموں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی حکومتی سطح پر کی جائے، جان مال محفوظ نہ رہے، حکومت ٹس سے مس نہ ہو، میڈیا بھی مسائل کو اجاگر نہ کرے، تو ان حالات میں سڑکوں پر آنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ سڑکوں پر آکر اپنی آواز ساری ملک اور ساری دنیا تک پہنچائی جائے۔ ہمیں پتہ ہے کہ بہرحال یہ منطقی حل نہیں ہے، مگر اس کے علاوہ کیا آپشن رہ جاتا ہے ہمیں بتایا جائے، ہم اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جہاں تک بات ہے مستقل حل کی تو ہمیں تمام ملی تنظیموں کو منظم کرنا ہوگا تاکہ ملت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اتحاد و وحدت کے ساتھ جدوجہد کی جائے۔ لہٰذا ہم میدان میں موجود ہیں سب کو اتحاد و وحدت کی مسلسل پرخلوص دعوت دیتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔

ہر تنظیم کو چاہئیے پرخلوص طریقے سے ملی مسائل کے حل کیلئے مل جل کر جدوجہد کرے۔ ایک مشہور عربی مقولہ ہے کہ قوم کا سردار وہی ہوتا ہے کہ جو قوم کا خادم ہوتا ہے۔ ہر ایک مسائل کے حل کیلئے پرخلوص کوشش کرے، جو جتنا قوم و ملت کی خدمت کرے گا اتنا ہی آگے آئے گا۔ ہمارے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔ ہم نے تمام مواقع پر ہر تنظیم کو یاد رکھا ہے، باقاعدہ دعوت دی ہے اور جب کسی نے ہمیں بلایا تو ہم نے خلوص کے ساتھ ان کے پاس گئے اور مسائل کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کی۔ مجھے اس موقع پر آیت اللہ شہید ڈاکٹر بہشتی رہ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے کہ ہم خدمت کے عاشق و دلدادہ ہیں نہ کہ قدرت و سلطنت کے۔ مجلس وحدت مسلمین کے ڈھائی سال اس بات کے گواہ ہیں کہ اس کی پر خلوص کوششوں و کاوشوں کو جو سیاسی حوالے سے ہوں یا مذہبی و دینی حوالے سے، قوم کی جانب سے ہمیں بہت پزیرائی ملی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ مجلس وحدت مسلمین قوم و ملت کی آواز بن چکی ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ ہمارا ہر چھوٹی بڑی تنظیم سے رابطہ ہے اور قومی مسائل کے مستقل حل کیلئے ہماری جانب سے پرخلوص کوششیں جاری و ساری ہیں کہ تمام تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔ انشاءاللہ یہ کاوشیں جلد بار آور ثابت ہونگی۔

اسلام ٹائمز: کیا جن سیاسی و مذہبی تنظیموں نے دھرنے میں آپ سے رابطہ کیا اور شرکت بھی کی، ان کے ساتھ بیٹھ کر روابط کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاکستان سے تکفیری سوچ کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: بالکل یہ ہمارے پروگرام میں شامل ہے او ر ہر سیاسی و مذہبی جماعت خصوصاََ جنہوں نے ہمارے دھرنوں میں شرکت کی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے، ہم ان سے مستقل رابطے میں ہیں اور بہت جلد ان سب کے ساتھ مستقل بنیادوں پر نشستیں کی جائیں گی، سب کے پاس جائیں گے اور اپنا مجلس وحدت مسلمین کا الٰہی منشور دیں گے، لائحہ عمل دیں گے اور ان سے حقیقی جمہوریت کے فروغ کیلئے مجلس وحدت مسلمین کا جو کردار ہے اس کو بھی پیش کریں گے اور انشاءاللہ وہ سب بھی ہمارے ساتھ ہونگے۔ خصوصاََ دینی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو فرقہ واریت کی سازش سے نجات دلانے اور تکفیری سوچ کے خاتمے کیلئے ان سے تعاون چاہیں گے۔

اسلام ٹائمز: ماہ مبارک ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے، قوم و ملت کو کیا پیغام دینا چاہئیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: دیکھیں چونکہ ایام عزاء آٹھ ربیع الاول تک ہوتے ہیں اور ہم جشن کا آغاز نو ربیع الاول سے کرتے ہیں جو کہ عالم انسانیت کے نجات دہندہ، خدا کی آخری حجت حضرت امام مہدی عج کی امامت کا پہلا دن ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارے برادران اہل سنت نے جشن عید میلاد النبی ص کا آغاز کر دیا ہے تو میں ان سب کو اور تمام عالم اسلام کو ختمی مرتبت رحمت الالعالمین حضرت رسول اکرم ص کی ولادت باسعادت پر ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تمام شیعہ سنی مسلمان حضرت رسول اکرم کی ذات مقدسہ کو مرکز و محور بنا کر پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کو مزید فروغ دیں گے اور پاکستان سے تکفیری سوچ و دہشت گردی کا خاتمہ کرکے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ بنائیں گے اور مملکت خداد پاکستان کو امان و آشتی کا گہوارہ بنائیں گے۔ اس موقع پر یہ بتاتا چلوں کہ انشاءاللہ نو ربیع الاول سے تمام جلوسوں میں سبیلیں لگائی جائیں گی، کیمپس و اسٹال لگا کر وحدت کے اعلامیے تقسیم کئے جائیں گے، اتحاد و وحدت کی فضاء کے فروغ کیلئے مشترکہ جلسے، میلاد، کانفرسنز وغیرہ منعقد کی جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 232689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش