1
0
Wednesday 14 Apr 2010 16:59

امریکہ کے ماضی کو دیکھ کر اس سے خیر کی توقع رکھنا حماقت ہے،حمید گل

امریکہ کے ماضی کو دیکھ کر اس سے خیر کی توقع رکھنا حماقت ہے،حمید گل
واشنگٹن میں منعقدہ ایٹمی سیکوریٹی کانفرنس کے بارے میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کا انٹرویو 
اسلام ٹائمز:واشنگٹن میں ایٹمی سیکوریٹی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے،اس میں مختلف سینتالیس ممالک کے سربراہ اور اہم حکام شرکت کر رہے ہیں،اس کانفرنس میں اس بات پر زور دیا جائیگا کہ ایٹمی ہتھیار اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد انتہا پسندوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے،آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟
حمید گل:امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو اپنی نظر میں رکھے اور اس نے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے پاکستان کو ایٹمی سیکوریٹی کانفرنس میں دعوت دی ہے۔میرے خیال میں یہ سب کچھ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اپنے قبضے میں لینے کی منصوبہ بندی ہے۔پاکستان اور ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اسرائیل کے لئے مسئلہ ہے اور اسرائیل اس کو برداشت نہیں کر سکتا کہ کسی اسلامی ملک کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی موجود ہو۔اگرچہ اوباما کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کا اعلان ایک اچھا قدم ہے اور امریکی صدر نے روسی صدر کے ساتھ " اسٹارٹ معاہدہ " پر بھی دستخط کئے ہیں،لیکن اوباما نے اپنی سال ڈیڑھ سال کی مدت صدارت میں اپنے آپ کو بہت کمزور ثابت کیا ہے۔لہذا اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ اس سلسلے میں کامیاب ہو سکے کیونکہ اسکو عمل کرنے میں بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں،ویسے بھی اس سال امریکہ میں کانگریس،سینیٹ اور گورنروں کے انتخابات ہونے والے ہیں،اس بات کا امکان نہیں کہ اوباما اپنی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکیں۔عراق،افغانستان، فلسطین اور اپنی اپوزیشن کے بارے میں بھی وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
مجموعی طور پر میں واشنگٹن میں منعقدہ ایٹمی سیکوریٹی کانفرنس سے زیادہ امیدوار نہیں ہوں اور میرا یہ یقین ہے کہ یہ کانفرنس پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تسلط حاصل کرنے کے لئے منعقد ہو رہی ہے۔
اسلام ٹائمز:آپ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ نہیں ہیں اور انکے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے۔کیا یہ کانفرنس ایسے افراد کی موجودگي میں مزید شکوک نہیں ہو جاتی۔؟
حمید گل:جی ہاں اس کانفرنس کا اصلی ہدف پاکستان ہے۔جہاں تک من موہن سنگھ کے الزامات کا تعلق ہے تو ہندوستان میں ایک سو ترپن ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بھارت کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہیں ان واقعات میں ہندوستانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا ہے اور ایٹمی مواد بھی چوری ہوا ہے۔بھارت کے ایٹمی پلانٹ سے خطرناک ایٹمی مواد بھی باہر آیا ہے،جس سے علاقائي نقصانات ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں ایٹمی پروگرام اور ایٹمی سائنس دانوں کے حوالے سے اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ان تمام حقائق کے باوجود اگر پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے تو اس سے بدنیتی ظاہر ہو جاتی ہے، پس ہدف اسلامی ممالک ہیں۔اسرائیل نے کئی بار اعلان کیا ہے کہ وہ اسلامی ملکوں کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی کو برداشت نہیں کر سکتا۔
اسلام ٹائمز:امریکی وزير خارجہ ہیلری کلنٹن نے چند دن پہلے واشنگٹن میں ایک یونیورسٹی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ تنظیم بغیر کسی شور شرابے کے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے،لہذا دہشت گردوں کی طرف سے ایٹمی حملے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے،جسکے انتہائي خطرناک نتائج برآمد ہونگے،لہذا تمام ممالک ایٹمی حملے کے خطرے کے پیش نظر اکھٹے ہو جائیں۔آپ امریکی وزير خارجہ کے اس بیان پر کیا تبصرہ کریں گے۔؟
حمید گل:امریکیوں نے القاعدہ کو ایک بہانہ بنا رکھا ہے اگر القاعدہ نے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے ہیں تو انہیں ایران اور پاکستان سے ایٹمی ہتھیار لینے کی کیا ضرورت ہے۔القاعدہ یہ ہتھیار بلیک مارکیٹ اور مغرب سے حاصل کر سکتی ہے۔بعض ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل یورپی ممالک اپنی ٹیکنالوجی فروخت کرنے پر تیار ہیں،وہ پیسے کے بدلے ہر چیز بیچنے پر تیار ہیں۔ان پر کسی چیز کی پابندی نہیں ہے،لیکن مسلمان ملکوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں،اگر القاعدہ نے ایٹمی ہتھیار حاصل کئے تو وہ یورپ سے حاصل کریں گے اس وقت اکتالیس ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور القاعدہ ان ممالک میں سے کسی سے یہ ٹیکنالوجی لے سکتی ہے۔ 
اسلام ٹائمز:کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا گروپ جس کے پاس ٹیکنیکل سہولیات بھی نہیں ہیں وہ ایٹمی مواد حاصل کر لے،اسکو محفوظ رکھ کر ایٹم بم بھی بنا لے۔کیا القاعدہ یہ کام کر سکتی ہے یا امریکہ صرف القاعدہ کے بہانے کچھ اور ارادے رکھتا ہے۔؟
حمید گل:یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔القاعدہ یہ کام کر سکتی ہے اور چھوٹے سائز کے بم بنانا اب کوئی مشکل کام نہیں،آپ کو معلوم ہو گا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک کم عمر لڑکے نے نیوکلیر بم کا فارمولا اینٹرنیٹ سے چوری کر کے اسے سب کے لئے عام کر دیا تھا بلکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے خود بنایا تھا۔تاہم مغربی ملکوں نے اسے دھمکی اور لالچ دیکر اس سے یہ پروگرام خرید لیا تھا۔ اسکے علاوہ بھی ایٹمی ٹیکنالوجی اب بلیک مارکیٹ میں بھی موجود ہے،البتہ جو یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک گروپ ایک خاص ملک کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ کر لے گا یا اس سے لیکر ایٹم بم بنا لے گا،تو یہ درست نہیں ہے۔بہت سے منی ایچر بم روس سے چوری ہوئے جو ابھی تک نہیں ملے ہیں،اس واقعہ کا الیگزینڈ بٹ جو روس کے وزیر دفاع تھے،نے اعتراف کیا ہے۔اس کے مطابق چھوٹے بموں کے ایک سو بارہ بریف کیس گم ہو چکے ہیں۔یوکرین سے بھی ایٹمی مواد بیرون ملک منتقل ہوا تھا اور یہ سب ایران یا پاکستان نہیں بلکہ یورپ کی طرف گیا ہے،البتہ ان تمام باتوں کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ صرف اسلامی ملکوں کو دباؤ میں رکھنے اور انکے قدرتی وسائل پر تسلط قائم رکھنے کے لئے القاعدہ کا نام استعمال کرتا ہے۔ 
اسلام ٹائمز:اوباما گیلانی ملاقات کے بعد وزير خارجہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ ملاقات بہت مثبت رہی ہے اور اس میں غیر فوجی ایٹمی ٹیکنالوجی،سیکوریٹی اور مشترکہ دفاع کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور امریکہ پاکستان کے ساتھ سول ایٹمی ٹیکنالوجی معاہدے کرنے پر غور کرے گا۔کیا امریکہ سے اس قسم کی توقع اور امید کی جا سکتی ہے۔؟
حمید گل:پاکستان کو امریکہ کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔ہم اس وقت توانائی کے سخت بحران سے دوچار ہیں۔ہم پانی سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ ہمیں صرف پانچ چھ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کی ضرورت ہو گی۔ ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کے حوالے سے چین بھی تیار ہے اور تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا ایٹمی بجلی گھر بنانے پر آمادہ ہے۔ ایران بھی بجلی کی پیشکش کر چکا ہے،لہذا ہمیں امریکہ کی ضرورت نہیں ہے،لیکن امریکہ نے چونکہ ہندوستان کےساتھ سول ایٹمی معاہدہ کیا ہے لہذا ہمارے ساتھ بھی اسی طرح کا معاہدہ کرے،لہذا ہمیں اس موضوع سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔
اسلام ٹائمز:کیا امریکہ اس معاہدے کے بہانے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو سبوتاژ نہيں کرنا چاہتا،تاکہ پاکستان ایران سے بجلی نہ خریدے۔؟
حمید گل:امریکہ اس مسئلے پر بہت زور دے رہا ہے،ایران نے اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھا دی ہے،لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک ایک مجبور ملک ہے اور امریکہ اس مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے بلیک میل کر رہا ہے۔اس مسئلے کے حل کے لئے مسلمان ملکوں کو مل کر کوششیں کرنی چاہیں۔ہماری سب سے بڑی مشکل اور مصیبت یہ ہے کہ ہم متحد نہیں۔
اسلام ٹائمز:امریکی وزير خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ اگر امریکہ پر کیمیائی یا جراثیمی حملہ ہوا تو امریکہ بلاخوف ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا اور ایٹمی ٹیکنالوجی دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کا شدید خطرہ ہے۔
امریکہ نے اس سے چند دن پہلے کہا تھا کہ وہ کیمیائی اور جراثیمی حملے کے جواب میں ایٹمی حملہ نہیں کرے گا۔تاہم ایران اور شمالی کوریا کو اس سے مستثنی قرار دیا تھا۔کیا یہ امریکہ کی دوغلی پالیسی نہيں۔؟
 
حمیدگل:میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اوباما نے ابھی تک اپنے آپ کو کمزور ثابت کیا ہے۔اس نے پہلے اچھی پالیسی اپنائی،لیکن جب یہودی لابی نے اسکی مخالفت کی تو اوباما کے بیان کو ہلیری کلنٹن کے بیان سے برابر کرنے کی کوشش کی گئی اور اپنی ایٹمی پالیسی کو ایران اور شمالی کوریا سے مشروط کردیا۔
جنگ میں ہر چیز جائز ہو جاتی ہے اور امریکہ کے ماضی کو دیکھ کر اس سے خیر کی توقع رکھنا حماقت ہے،امریکی سسٹم میں ایک شر اور شیطانیت موجود ہے،جو اسے ہمیشہ شر اور برائی کی طرف مائل کرتی ہے۔
اسلام ٹائمز:امریکہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا چاہتا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایٹم بم اور ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں اور اس نے پوری دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کو پھیلایا ہے،کیا ایسا ملک اخلاقی لحاظ سے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی سے پاک دنیا کا تصور پیش کر سکتا ہے کیا ایک ڈاکو شہر کی حفاظت کرسکتا ہے۔؟
حمید گل:امریکہ اپنے آپ کو دنیا کا تھانیدار سمجھتا ہے،امریکہ کی اس ہیبت اور خوف کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ سال ڈیڑھ سال بعد اپنی اصلی حیثیت کو درک کرے گا۔امریکہ نے اس وقت اقتصادی میدان میں چین اور عربوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہیں۔وہ جب اقتصادی اور فوجی لحاظ سے کمزور ہو گا تو اسے اپنی حیثیت کا احساس ہو جائیگا۔اقتصادی اور فوجی میدان میں شکست کے بعد امریکہ اپنی حیثیت کو پہچانے گا اور اس وقت دنیا کا نظام ٹھیک ہو جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 23677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

توصيف احمد سعد
Pakistan
100% true
بصیرت یهی یہی ہے۔
ہماری پیشکش