1
0
Thursday 11 Apr 2013 23:53

شہداء کوئٹہ کے خون نے قوم میں وہ بیداری پیدا کی جو ہم گذشتہ 50برسوں میں نہ کرسکے، خواہر سکینہ مہدوی

شہداء کوئٹہ کے خون نے قوم میں وہ بیداری پیدا کی جو ہم گذشتہ 50برسوں میں نہ کرسکے، خواہر سکینہ مہدوی
خواہر سکینہ مہدوی مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء علامہ ابوذر مہدوی کی اہلیہ اور علامہ محمد امین شہیدی کی ہمشیرہ ہیں۔ آپ اس وقت ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی بطور سیکرٹری جنرل کے بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ حالیہ قومی سانحات پر خواتین کو گھروں سے نکالنے اور میدان عمل میں مردوں کے شانہ بشانہ دھرنوں کو مؤثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خواہر سکینہ مہدوی اپنی ٹیم کے ہمراہ کوئٹہ گئیں اور شہداء کے خانوادوں کی دلجوئی کی اور پاکستان کے مختلف اضلاع میں پروگرام منعقد کرا کے ان کی آواز اور شہداء کے پیغام کو لوگوں تک منتقل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیلئے وقت نکالنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور آپکو خوش آمدید کہتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ سانحہ کوئٹہ جیسا المناک واقعہ رونما ہوا اور اس کے بعد آپ لوگ وہاں پر گئے، آپ کیا سمجھتی ہیں کہ دشمن جو چاہتا تھا وہ حاصل کرسکا، دوسرا یہ کہ وہاں کی صورتحال کیا ہے۔؟

خواہر سکینہ مہدوی: میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے موقعہ دیا کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکوں۔ دشمن نے اس دھماکے کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ قوم کی بیداری میں کتنا مفید ثابت ہوگا۔ دشمن نے یہی سمجھا کہ وہ دھماکے کرتے رہیں گے اور یہ لوگ اسی طرح اپنے شہداء کے جنازوں کو دفناتے رہیں گے، اس کے برعکس الحمداللہ اب قوم بیدار ہوچکی ہے، ان دھرنوں نے بالخصوص شہداء کے ورثاء نے، شہداء کی بیواؤں اور دیگر خواتین نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا، جس صبر و حوصلے کا مظاہرہ کیا، یہی استقامت، یہی صبر و حوصلہ ہمارے دشمن کے منہ پر زور دار طمانچہ بن کر لگا ہے۔ شہداء کے وارثین کی استقامت نے پورے پاکستان کے اہل تشیع کو بیدار کیا۔
 نہ صرف اہل تشیع کو اور نہ ہی صرف پاکستان والوں کو بلکہ پوری دنیا میں جو بھی انسان ہیں اور جس کے سینے میں دل ہے اور جو انسانیت کے لیے تڑپتا ہے، ان سب کو گھروں
سے نکال کر سڑکوں پر لے آئے۔ یہ ان شہداء کی ماؤں کا صبر و استقامت اور حوصلہ تھا، ان کے حوصلے و صبر نے پاکستانی عوام، پاکستانی ماؤں، پاکستانی بہنوں کو وہ بیداری عطا کی کہ جس کو ہم گذشتہ پچاس سال میں دیکھنا چاہیں تو وہ کہیں نظر نہیں آتی، جو بیداری اب ان دھرنوں کے بعد نظر آتی ہے۔ اب ماشاءاللہ نوجوان نسل بیدار ہے اور امام زمانہ (عج) کے ظہور کے راستے کو ہموار کرنے کے لیے اور دشمن کو میدان سے باہر نکالنے کے لیے ہر طرح سے آمادہ ہے۔ میرے خیال میں یہی دشمن کی نابودی کے لیے کافی ہے۔ ہم اہل تشیع کی عزت و سربلندی کے لیے اس سے بھی بڑے قدم اٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ کوئٹہ کیخلاف ملک بھر میں دیئے گئے دھرنوں میں خواتین کا کردار کس حد تک تھا۔؟

خواہر سکینہ مہدوی: ان دھرنوں کا تقریباً 80 فیصد کریڈٹ خواتین کو ہی جاتا ہے، کیونکہ ہم نے بہت ساری جگہوں پر دیکھا کہ جہاں پر بالفرض مرد اُٹھ کر چلے گئے ہیں، بالخصوص کوئٹہ کے مکینوں نے بھی بتایا کہ جب مرد اُٹھنے لگے تو خواتین نے اپنی چادریں اتار کر مردوں کو کہا کہ آپ چادریں پہن کر گھر چلے جائیں، ہم کہیں نہیں جانے والی، ہم نے میدان میں ڈٹے رہنا ہے اور ہم نے وہی کام کرنا ہے جو زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے کیا۔ وہی خواتین تھیں جو اپنے مردوں کو گھروں سے نکال کر لائیں اور یہی خواتین تھیں جو اپنے بچوں کو سکول، کالجز و تعلیمی اداروں سے چھٹی کروا کر دھرنوں میں لے کر آئیں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ عورت معاشرے میں جو تبدیلی لاسکتی ہے، وہ تبدیلی کوئی اور نہیں لا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن خواتین پر یلغار کرتا ہے اور دشمن نے خواتین کو بیہودہ کاموں پر لگا دیا، اسے بے راہ روی کا شکار بنا دیا ہے، تاکہ ان خواتین کا ضمیر بیدار نہ ہو جائے۔

یورپ اور اہل مغرب ہمارے دشمن ہیں، وہ بھی ہماری خواتین پر یلغار کرتے ہیں۔ ان دھرنوں میں ہماری مائیں بہنیں میدان میں نکلیں۔ یورپ والوں نے اربوں و کھربوں ڈالر جو ہماری خواتین کو گمراہ کرنے پر لگائے تھے، ان سب کو ہماری خواتین نے پاؤں تلے روند ڈالا۔ میں ذاتی
طور پر ایک ایسے وکیل کو جانتی ہوں کہ جو کبھی گھر سے ماتم، جلوس کے لیے باہر نہیں نکلا تھا، اس وکیل کی بیوی کالج میں پروفیسر ہیں، وکیل کی بیوی اپنے شوہر کو دھرنے میں لے کر آئی اور دو دن دونوں دھرنے میں بیٹھے رہے۔ جب دونوں جا رہے تھے تو وکیل صاحب مجھ سے کہنے لگے، خانم میں زندگی میں کبھی بھی اس طرح کے کسی پروگرام کے لئے باہر نہیں نکلا، یہ صرف میری بیوی ہی تھی کہ جو مجھے باہر میدان میں لے آئی۔

اسلام ٹائمز: ایسا کیا کیا جائے کہ یہ بیداری کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔؟

خواہر سکینہ مہدوی: یقیناً ہماری بیداری میں شہداء کے خون کی تاثیر ہے، ہم اس بیداری کو جاری رکھیں گے۔ اس کے لیے ہم مختلف علاقوں میں تکریم شہداء کے عنوان سے پروگرام کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے علاقوں میں ہونے والے پروگرامات میں اپنے شہیدوں کو نہ بھولیں۔ جس طرح امام خمینی رہ کا فرمان ہے کہ ''اگر تم شہید کو زندہ رکھو گے تو شہید تمہیں زندہ رکھے گا۔'' شہید کے عنوان سے پروگرام رکھنا، تربیتی پروگرام رکھنا، اسی طرح ملک میں حالات حاضرہ کے حوالے سے لوگوں کو باخبر رکھنا، اپنی مجالس و محافل کا رخ فضائل کے ساتھ ساتھ معرفت کی طرف لے جائیں اور جو ہم نے دھرنے میں ایمان کا ذائقہ دیکھا، اسے ہمیشہ اسی طرح جاری رکھیں تو انشاءاللہ ہم بیداری کو قائم رکھ سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے پاس ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ خواتین کی مرکزی ذمہ داری ہے، اپنے شعبہ کے حوالے سے بتائیے گا کہ پاکستان میں کس طرح سے کام کر رہی ہیں۔؟
خواہر سکینہ مہدوی: الحمداللہ خواتین نے بہت اچھا رسپانس دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے چند بڑے شہروں میں جن میں کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور شامل ہیں، ان میں شعبہ خواتین الحمداللہ بہترین انداز میں کام کر رہا ہے۔ اس سے خواتین میں شعور بیدار ہو رہا ہے۔ خدانخواستہ اگر پاکستان میں کہیں حالات خراب ہوتے ہیں تو ان تمام بڑے شہروں میں شعبہ خواتین اتنا فعال ہے کہ ان حالات کا بطریق احسن مقابلہ کرسکتا ہے۔ ان تمام علاقوں میں شعبہ خواتین مختلف حوالے سے اس قدر کام
کرچکا ہے کہ حالات کا مقابلہ اچھے انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ ہماری قوم نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہماری نوجوان نسل ہمارے ساتھ ہے، قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہی بیداری دشمن کے منہ پر زوردار طمانچہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے تو شعبہ خواتین اس میں کیا کردار ادا کرسکے گا۔؟
خواہر سکینہ مہدوی: جس طرح خواتین دھرنوں میں اپنے مردوں کو میدان میں لے آئیں، جس طرح مختلف ریلیوں میں خواتین اپنے مردوں کو لے کر باہر آئیں۔ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ یہی خواتین اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے الیکشن میں بھی اپنے گھر والوں کو لے کر میدان میں اتریں گی۔ یہ ایسا وقت ہے کہ ہمارا دشمن میدان میں ہے۔ ہمیں میدان سے دشمن کو باہر نکالنے کے لیے خود میدان میں اترنا ہوگا۔ جہاں کہیں اور جس جلسے میں بھی ایسی گفتگو ہوتی ہے، پوری فضاء لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے اور ہر قسم کے تعاون کے لیے ہماری مائیں بہنیں تیار ہیں۔ الیکشن میں انشاءاللہ ہم مجلس وحدت مسلمین کو اور جہاں کہیں ایسے امیدوار ہوں کہ جو معتدل ہوں، چاہے وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ ہوں، بس اسلام کا دشمن نہ ہو، پاکستان کا دشمن نہ ہو، انسانوں کا دشمن نہ ہو، ان کے علاوہ ہر کسی کو مجلس وحدت مسلمین کا شعبہ خواتین اس کی مکمل سپورٹ کرے گا۔ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہماری جیت اسی میں ہوگی کہ ہمارا دشمن میدان سے نکل جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے ذہن میں ایسا کوئی پروگرام ہے کہ جس میں پورے پاکستان سے خواتین کو ایک پلیٹ فارم یعنی ایک بڑے اجتماع کی شکل میں اکھٹا کیا جائے، تاکہ ملک میں تنظیمی اسٹرکچر مضبوط ہو اور اس شعبہ میں مزید فعالیت بھی ہو۔؟
خواہر سکینہ مہدوی: جی بالکل! یہ چیزیں ہمارے منشور میں شامل ہیں۔ ہم جلد ہی مئی میں ایک کنونشن کر رہے ہیں، جس میں ملک بھر سے فعال خواہران کو بلایا جائے گا، یہ چیز ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے اور اس پر ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ انشاءاللہ بہت جلد آپ کو بہت اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔ شعبہ خواتین
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا کہ آج بھی پاکستان کی مائیں بہنیں بی بی زینب کبریٰ کے کردار پر چلتے ہوئے اور دشمن وقت کو للکارتے ہوئے، ایوانوں کو لرزاتے ہوئے ہمیشہ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ میدان میں رہیں گی۔

اسلام ٹائمز: مختلف جگہوں پر عوامی سطح پر شہداء کوئٹہ کی فیلیمز کو خوش آمدید کہا گیا ہے، ان پروگراموں میں عمومی رائے کیا دیکھنے کو ملی۔؟

خواہر سکینہ مہدوی: جب ہم شہداء کی فیملیز سے اظہار تعزیت کرنے کے لیے کوئٹہ گئے تھے، جس وفد میں 4 خواتین شامل تھیں جو کہ لاہور سے کوئٹہ شہداء کے خانوادہ سے اظہار تعزیت کے لیے گئیں تھیں۔ شہادت کے حوالے سے جو ہمارے خیالات ہیں وہ اس طرح سے نہیں ہیں کہ جس طرح سے ہونے چاہیں۔ اگر ہم شہادت کا رتبہ سمجھ لیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔ کوئٹہ کی غیور ملت نے بہت بڑے کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ ان کا شہادت کے بارے میں نظریہ بہت واضح ہے۔ ہم نے ان کے خیالات کو بہت ہی اچھا پایا اور پھر ہم نے سوچا کہ ان کے خیالات کو ہم پورے ملک میں پھیلاتے ہیں اور اس کے لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا کہ شہداء کے خانوادوں کو پورے ملک میں پروگرام کرکے مدعو کرتے ہیں، تاکہ شہداء کے خانوادگان پروگرام میں اپنی آب بیتی خود سنائیں۔ جب شہدائے کوئٹہ کے ورثاء نے باتیں کیں تو سامعین دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔

ہم جس شہر میں بھی گئے وہاں پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے پرزور استقبال کیا۔ خود شہداء کی ماؤں نے قوم میں وہ بیداری ڈال دی کہ جو شاید ہم بیس سال میں بھی پیدا نہ کرسکتے۔ جس شہر میں ہم داخل ہوتے تھے، وہاں پر تقریباً 300 نوجوان موٹر سائیکلوں پر لبیک یاحسین (ع) کے پرچم تھامے ہوئے، لبیک یاحسین (ع) اور نعرہ حیدری یاعلی (ع) لگاتے ہوئے استقبال کرتے ہوئے رہائش تک پہنچاتے تھے۔ جب یہ مائیں گاڑیوں سے اترتی تھیں، نوجوان ان کا استقبال کرتے تھے اور ان ماؤں کے سامنے سر جھکا کر کہتے تھے کہ اماں دعا کرنا کہ خدا دین کے راہ پر میری جان بھی قبول کر لے اور مجھے شہادت دے۔ اتنی بڑی تبدیلی میرے خیال میں پاکستان کی تاریخ میں بہت
کم ہی ملتی ہے۔ صرف مائیں ہی نہیں بلکہ نوجوان نسل اور نوجوان بچیاں بھی بیدار ہیں۔ میرے سامنے کئی نوجوان بچے اور بچیاں شہداء کی فیملیز کے پاس آئے اور کہا آپ دعا کریں کہ دین کے لیے کام کرنے کا جذبہ، شہادت جیسی موت خدا ہمیں بھی عطا فرمائے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ہمارا دورہ پنجاب بہت ہی کامیاب رہا اور اب تک لوگوں کے فون آتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی پتہ ہوتا اور آپ کے پروگرام میں شرکت کرتے۔

آخر میں ایک جملہ کہتی ہوں کہ کوئٹہ کے شہداء کی زندگی پر ضرور تحقیق کریں، چونکہ یہ نوجوان کوئی معمولی نوجوان نہیں تھے۔ ایک شخص کہ جس کی آدھی ٹانگ دوران دھماکہ کٹ گئی، وہ خود کہنے لگا کہ جس جگہ پر دھماکہ ہوا، میں اس جگہ سے پانچ قدم کے فاصلے پر تھا۔ مجھے ایسے معلوم ہوا کہ کسی نے مجھے زور دار دھکا دیا اور میں دور جا گرا ہوں۔ اس کے نتیجے میں میری صرف ایک ٹانگ زخمی ہوئی۔ میرا سارا جسم سالم ہے۔ وہ شخص رو کر یہ کہتا ہے کہ شائد میرا خون اس قابل نہیں تھا کہ پاکیزہ خون کے ساتھ مل جاتا اور اب مجھے مولا نے ایک اور موقع فراہم کیا کہ میں اپنے آپ کو سدھار لوں۔

ایک شخص نے اپنے والدین کو یہ پیغام دیا کہ آج بہت بڑا واقعہ ہوگا اور آپ کے بیٹے کے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک اور نوجوان جس نے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اور ایک این جی اوز میں ایک بڑی پوسٹ پر کام کر رہا تھا۔ امریکہ گیا اور وہاں تقریباً 20 سے زائد دن اس نے کھانا کھایا اور نہ ہی وہاں کا پانی پیا اور اپنی ماں سے کہتا ہے کہ میں نے بڑی مشکل سے نماز شب کی عادت ڈالی ہے، میں نے جھوٹ بولنا ختم کر دیا ہے اور میں وہ کام کرتا ہی نہیں ہوں کہ جس سے میرے ایمان کو خطرہ ہو۔ میں وہاں کے نجس کھانے کھا کر اپنی اچھائیوں کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس بچے نے روزانہ صرف ایک سیب پر گزارا کیا۔ ایسے چنے ہوئے لوگ تھے کہ جنہوں نے شہید ہو کر پوری دنیا کو ہلا دیا۔ آخر میں پھر وہی اپیل کروں گی آپ لوگ اس پر ضرور کچھ لکھیں اور وہاں جا کر تحقیق کریں اور شہداء کے خانوادوں سے ملیں، جہاں زندگی بٹ رہی۔ جنہوں نے موت کو شکست دیدی ہے۔
خبر کا کوڈ : 253356
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اللہ تعالٰی ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائیں، واقعی یہ مجاہدہ ملت ہیں، دھرنوں میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کے جوش اور جذبے کو
ہماری پیشکش