0
Saturday 13 Apr 2013 21:06

پاکستان میں قومی سطح کا کوئی رہنما نہیں، مفاہمت میں مقامی سیاست رکاوٹ ہے، حسن عسکری رضوی

پاکستان میں قومی سطح کا کوئی رہنما نہیں، مفاہمت میں مقامی سیاست رکاوٹ ہے، حسن عسکری رضوی
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق چیئرمین ہیں۔ غیر جانبدارانہ تجزیوں کے باعث وہ تمام سیاسی طبقات اور میڈیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں دفاعی، بین الاقوامی امور اور مقامی سیاست پر عبور حاصل ہے۔ اسلام ٹائمز نے سیاسی امور پر ان سے خصوصی انٹریو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن 2013ء میں کوئی انتخابی اتحاد نہیں بن سکا اور صرف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جا رہی ہے، ایسا کیوں ہے۔؟ 
ڈاکٹر حسن عسکری: بنیادی طور پر پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں تقسیم در تقسیم اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ سب کو ایک مقام پر لانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ مذہیی جماعتیں تو نظریات کی جنگیں لڑتی ہیں اور جو دوسری جماعتیں ہیں ان میں نظریات اتنے اہم نہیں ہوتے، ان میں شخصیات اہم ہوتی ہیں اور وہ accommodate نہیں کرنا چاہتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ accommodate اور coalition سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتحاد بنانے کے ماہر بزرگ سیاستدان مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح کی شخصیت کی ضرورت ہے۔ جو نظر نہیں آ رہی، تو یہ بھی ایک فقدان ہے۔ پاکستان میں اس وقت تو اس سیاسی قد کاٹھ کا کوئی لیڈر نہیں ہے جس کی قومی حیثیت ہو، تمام پارٹیاں اس کی بات مانتی ہوں بلکہ اب تو صرف پارٹیوں کے لیڈر ضرور ہیں یا بہت سوں کی صوبائی حیثیت ہے لیڈروں کی، لیکن پورے پاکستان میں ایسا لیڈر نہیں ہے کہ جس کا وقار اور مقام اتنا بلند ہو اور صوبائی تقسیم سے آگے نکلے، اس قسم کی قیادت کا فقدان بھی ہے۔ پھر ایسے قومی ایشوز بھی نہیں ہیں کہ جس پر لوگ اکٹھے ہو سکیں اور سب سے بڑھ کر ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے بھی کچھ اتحاد بنائے تھے اور مختلف پارٹیوں کے درمیان معاہدے کروائے، مگر اب اسٹیبلشمنٹ اس قسم کی گیم نہیں کھیلے گی۔
 
اسلام ٹائمز: مختلف سیاسی جماعیتں جو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ق کو پیپلز پارٹی کے ساتھ مشکلات کا سامنا ہے۔ اب بھی کئی سیٹیں اوپن چھوڑ دی گئی ہیں کہ دونوں جماعتوں کے امیدوار وہاں قسمت آزمائی کریں گے۔ مسلم لیگ نون نے ہم خیال گروپ کو اتحاد کے وعدے کرکے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کو بھی کسی نے اتحاد میں شامل نہیں کیا۔ اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری: دیکھیں اگر ہر پارٹی دوسری پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کرے گی تو وہ نہیں ہوسکے گی۔ ایسا ممکن نہیں، ایک بڑی جماعت کس کس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی۔ پھر تو بہت سارے لوگ بغیر مقابلے کے ہی جیت جاتے ہیں۔ پھر یہ local power conflict بھی ہوتا ہے۔ مثلاً گجرات میں آپ دیکھ لیں، چوہدری احمد مختار اور چوہدری پرویز الہی۔ یہ دونوں روایتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں تو ایسی بہت سی جگہیں آپ کو مل جاتی ہیں۔ جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ فیل ہو جاتی ہے تو بنیادی طور پر جو پارٹیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا لحاظ تو کریں گی لیکن جہاں شخصیت ہے، لوکل سیاست ہے، وہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کام نہیں کرے گی۔ اس طرح آپ کہیئے کہ ہر پارٹی ایک دوسرے کے خلاف لڑے گی اور یہ جو لڑائی ہے اور اس بار یہ بھرپور قسم کی لڑائی ہوگی۔
 
اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی کے مختلف رہنماوں کے وارنٹ گرفتاری جاری  ہوئے، جعلی ڈگری کے مقدمات میں سابق اراکین اسمبلی کو جیل بھی جانا پڑا۔ کچھ کا ٹرائل ہو رہا ہے۔ متعدد کو نااہل قرار دیا گیا ہے، تو ایسی خبریں نہیں لگتا کہ انتخابی مہم پر منفی طور پر اثرانداز ہوں گی۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری: دراصل سیاسی لیڈروں کے خلاف یہ ایک مہم ہے۔ اس میں ہماری عدلیہ بھی ہے شامل ہے۔ اس میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو میں out side ramper کہتا ہوں۔ ان کا اپنا تو کوئی scope نہیں ہے کیونکہ وہ انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتے۔ لیکن وہ باہر بیٹھ کر سیاست دانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ مثلاً جعلی ڈگری کا معاملہ ہے۔ اس میں بھی بدنامی سیاستدانوں ہی کی ہوئی ہے۔ کرپشن کی سٹوریز ہیں، پھر چونکہ پیپلز پارٹی والے حکومت میں رہے ہیں۔ تو لٰہذا ان پر الزامات بھی زیادہ ہیں۔ غالباً کرپشن بھی ہمیں زیادہ نظر آتی ہے۔ پھر یہ کہ پیپلزپارٹی کی وفاق کا عدلیہ کے ساتھ ایک تنازع بھی چلتا رہا ہے۔ تو اس کی وجہ سے عدلیہ معاملات کا زیادہ نوٹس بھی لیتی ہے۔ اس سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ ان کا بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں پی پی پی کی حکومت مختلف اوقات میں مختلف اداروں کو ٹارگٹ کرتی رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 253989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش