0
Friday 7 Jun 2013 23:35
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ نئی حکومت پر چھوڑتے ہیں

خطے سے امریکی انخلاء تک کسی طور بھی امن قائم نہیں ہوسکتا، مولانا سمیع الحق

خطے سے امریکی انخلاء تک کسی طور بھی امن قائم نہیں ہوسکتا، مولانا سمیع الحق
مولانا سمیع الحق جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی قائد ہیں۔ مولانا سمیع الحق کو ’’بابائے طالبان‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ طالبان میں سے کثیر تعداد ان کے مدرسے کے طلباء پر مشتمل ہے۔ ضیاءالحق دور میں انہوں نے افغانستان سے روس کے انخلاء میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور ہزاروں کی تعداد میں طالب علموں کو عسکری تربیت دے کر افغانستان بھیجا، جنہوں نے وہاں ’’جہاد‘‘ کرکے روس کو نکالا۔ آج کل بھی تحریک طالبان افغانستان ہو یا پاکستانی طالبان، مولانا سمیع الحق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بھی مولانا سمیع الحق کی ہی خدمات حاصل کی گئیں۔ گذشتہ روز لاہور میں ان کیساتھ اسی حوالے سے مختصر گفتگو ہوئی، جو قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت ابھی اپنی فتح کا جشن منانے میں مصروف تھی کہ امریکہ نے دوبارہ ڈرون حملہ کر دیا، یہ حملے بند کیوں نہیں ہو رہے۔؟
مولانا سمیع الحق: ڈرون حملے ملکی سلامتی، سالمیت اور خود مختاری پر براہ راست حملہ ہیں، یہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان حملوں میں عام شہری جاں بحق ہو جاتے ہیں اور ان سے امریکہ کو دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، الٹا جو بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں، ان کے لواحقین امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہ کسی مرض کا علاج نہیں بلکہ ان سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ ڈرون حملے کی صورت میں پاکستانی حکومت اور طالبان میں ہونے والے مذاکرات سبوتاژ ہوگئے ہیں اور اس حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا پاکستانی حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوں، اور اس حملے میں جس طالب رہنما کو ہلاک کیا گیا ہے اس کا جھکاؤ پاکستان کی جانب تھا اور وہ مذاکرات کے حق میں تھا۔ اس کو نشانہ بنا کر امریکہ نے مذاکرات کی میز الٹ دی ہے۔
ہم یہ کہتے آ رہے ہیں کہ خطے میں امن امریکہ کے انخلا سے ہی آئے گا، جب تک امریکہ خطے میں موجود ہے یہاں امن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ بعض طاقتیں خطے میں امن نہیں دیکھنا چاہتیں اور نہ وہ یہ چاہتی ہیں کہ امریکہ یہاں سے نکلے۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو ہم ان کیساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں، مگر جب بھی مذاکرات کی بات کی گئی تو حکمرانوں کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کر دی گئی یا امریکہ نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا۔ اس عمل کا نقصان ہمارے ملک کو ہوا اور یہاں امن قائم نہ ہوسکا، میں ذاتی طور پر طالبان کیساتھ مذاکرات کے حق میں ہوں۔ اس لئے کہ کامیاب مذاکرات ہی ہمارے ملک کے مفاد میں ہیں۔ اگر نواز لیگ کی حکومت اور تحریک انصاف کے عمران خان طالبان کے حوالے سے پالیسیوں پر نظرثانی کی یقین دہانی کروائیں تو میں مذاکرات کی ضمانت دینے کو تیار ہوں۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ملک کو درپیش مسائل کی بنیاد ی وجہ کیا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق: ہمارا ملک حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے آنکھیں بند کرکے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔ پاکستان کی بہادر، دلیر اور جرات مند فوج کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف لڑائی میں الجھا دیا گیا، جس میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اگر اب حکمران امریکہ نواز پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور طالبان کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کریں تو میں ثالث کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں، مگر آپ نے دیکھا کہ ادھر طالبان کیساتھ مذاکرات کی بات ہوئی، ادھر امریکہ نے ڈرون حملے شروع کر دیئے۔ ان حالات میں، میں کامیاب مذاکرات کی ضمانت کیسے دے سکتا ہوں۔؟

اسلام ٹائمز: اوباما حکومت نے باقاعدہ ڈرون حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، اس چیلنج سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق:اس وقت میری نظر میں حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ڈرون حملے ہیں، جن کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ملک میں ایک بار پھر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ جس سے عوام میں بے چینی اور بے اعتمادی پیدا ہوگی۔ آپ دیکھ لیں امریکہ نے آج تک کتنے ڈرون حملے کئے ہیں جن میں وہ اپنے اہداف حاصل کرسکا ہے۔ زیادہ تر حملوں میں تو بے گناہ شہری ہی ہلاک ہوئے ہیں۔ آج پوری دنیا ان حملوں کی مذمت کر رہی ہے۔ اگر کسی کو توفیق نہیں ہوئی تو صرف ہمارے حکمران ہیں، جنہوں نے اس کی مذمت نہیں کی۔ امریکہ اور اس کے عالمی امن کے حلیف بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہماری سرحدوں کے اندر آ کر حملے کرتے ہیں اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی افواج کی کارکردگی پر کوئی شک نہیں۔ پاک فوج نے ملک میں قیام امن کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ مگر ہمارے حکمران ہمیشہ امریکی خوشنودی کے لئے خاموش رہے۔
ہمیں امریکہ پر واضح کر دینا چاہئے کہ ہم آئندہ ڈرون حملوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔ کوئی قوم اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتی۔ اوباما کے ڈرون حملوں کے حوالے سے دیئے جانے والے بیان سے ان کی نیت واضح ہوگئی ہے۔ یہ ان کے تو مفاد میں ہے لیکن ہمارے مفاد میں نہیں۔ اس مسئلہ پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو آواز بلند کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے خاموشی دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگی۔ اس لئے کہ ڈرون حملوں کو قانونی قرار دینے کے امریکی عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں، اور حالیہ ڈرون حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جو امریکہ نے نئی حکومت کو سلامی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کا امتحان شروع ہوچکا ہے، عمران کو ووٹ صرف انہیں ڈرون حملے رکوانے کی بنیاد پر ملے ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے تو اپنی جیب گرم رکھنے کیلئے ڈرون حملوں پر خاموشی اختیار کئے رکھی، امریکہ جو مسلم ممالک پر 8 سالہ جنگ میں کھربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے لیکن اسے کامیابی کہیں بھی حاصل نہیں ہوئی۔ ہمارے حکمران اس لئے نہیں بولتے کیونکہ یہ ان کے اداروں سے قرض لیتے ہیں اور جب تک ہم قرض کے اس چنگل سے نہیں نکلیں گے ہم ترقی کرسکتے ہیں نہ عزت سے جی سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جو جماعتیں عوامی مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی ہیں، کیا یہ مسائل پر قابو پا لیں گی اور کیا امریکہ طے شدہ منصوبے کے تحت افغانستان سے نکل جائے گا۔؟
مولانا سمیع الحق: جو پارٹیاں بھی عوام سے مینڈیٹ حاصل کرکے اقتدار کی منزل تک پہنچ گئی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اب عوام کی امنگوں کی ترجمانی کریں۔ اس سلسلے میں کوئی مصلحت قبول نہ کی جائے۔ تمام پارٹیاں جو جیت کر اقتدار میں آئی ہیں انہیں چاہئے کہ نئی حکومت بنتے ہی وہ طالبان کے معاملہ پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں، اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیا جائے، جہاں تک طالبان کی طرف سے بات چیت کا تعلق ہے تو طالبان ہمارے بچے ہیں، انہیں ہم پر اعتماد ہے، وہ ہمیں باپ کی طرح سمجھتے ہیں، اب یہ میاں نواز شریف کا کام ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت میں پہل کرے۔ عمران خان بھی آگے بڑھے، میں اس سلسلے میں ان کی بھرپور مدد کروں گا، اگر ان حکمرانوں نے بھی بیرونی دباؤ قبول کرکے مذاکرات کو راستے میں ہی ختم کر دیا یا پھر وعدوں سے روگرادنی کی تو پھر ان کا انجام بھی پہلی حکومتوں جیسا ہوگا، میاں نواز شریف نہایت دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مذاکرات کی میز پر آئیں، اس سے ہی دہشت گردی کا مسئلہ ختم ہوگا۔
ہم اپنے معاملات درست کر لیں، تاکہ امریکہ جلد اپنا بوری بستر گول کر جائے، امریکہ نے ہمارے ملک کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان میں امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کی اور ان پر شدید گولہ باری کی۔ انہیں مارا گیا اور ان کے ملک میں غیر ملکی افواج اتاری گئیں، چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اس لئے انہوں نے مزاحمت کی، جسے دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ دہشت گردی کی آڑ میں امریکہ نے ہماری سرزمین کو استعمال کیا، جس کے سبب طالبان ہمارے دشمن بن گئے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں 45 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جو دراصل ہماری حکومتوں نے ہی مرواے تھے، جنہوں نے امریکہ کا ساتھ دے کر طالبان اور ان کے ہمدردوں کو اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ پھر جب بھی مذاکرات شروع کئے گئے، ہمارے حکمرانوں نے ہی ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی، ہم تو پہلے دن سے ہی مذاکرات کے حامی رہے ہیں۔ ہم آج بھی اس کی حمایت کرتے ہیں، مگر اس کیساتھ ہمارے اپنے تحفظات اور خدشات بھی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے ہمیشہ معاہدوں کو توڑا، اس لئے ہم بھی ڈر رہے ہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ نواز شریف اور عمران خان سنجیدہ ہوئے تو میں مذاکراتی عمل میں شامل ہوسکوں گا۔

اسلام ٹائمز: ہمارا ملک بے پناہ مسائل کا شکار ہے، ان مسائل سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق: دہشت گردی کے خاتمے سے ملک کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ملک میں امن و امان ہوگا تو یہاں کا کاروبار زندگی بحال ہوگا، کاروبار بڑھے گا تو لوگوں کو روزگار ملے گا۔ یہ سچ ہے کہ معاشی بحران کے حل کیلئے توانائی کا حصول ازحد ضروری ہے، حکومت نے وعدہ تو کیا ہے کہ وہ جلد بجلی بحال کر دے گی، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا مگر جو انہوں نے آئی ایم ایف سے امداد لینے کی بات کی ہے اس سے ملک کی خود مختاری داؤ پر لگ جاتی ہے، بجلی پیدا کرنے کے لئے ہمیں چین سے مدد لینی چاہئے، ترکی کے اشتراک سے اگر میٹرو بس متعارف کروائی جاسکتی ہے تو ان سے توانائی کے لئے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ بجلی سے فیکٹریاں اور کارخانے چلتے ہیں، سب سے پہلے توانائی کا حصول اولین ترجیح ہونی چاہئے، مگر دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ یہ معاملہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لئے جرات سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر نواز شریف نے اس بحران پر قابو پا لیا تو وہ سرخرو ٹھہریں گے۔
اس وقت ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لئے نئی حکومت کو بھرپور اقدام اٹھانا ہوں گے۔ ہم نے ہمیشہ امریکی مفادات کو ہی مدنظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے، مگر اب دنیا کے بدلتے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ازسرنو خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔ ملک میں بیرونی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ مغربی ممالک ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے چلے آئے ہیں، اسی بیرونی مداخلت نے ہماری آزادی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے حکمران امریکی طوق گلے میں لٹکا کر بڑے فخر سے دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ میاں نواز شریف ایٹمی دھماکے کی طرح اگر اقتصادی دھماکہ کرکے ملک کی معیشت غیر ملکی تسلط سے باہر نکال لائیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا، حکمرانوں کو سادگی اپنا کر قوم کو بھی سادگی کا درس دینا ہوگا۔ اسی طرح بچت کرکے ہم قوم کو قرضوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، کیا ایسے ملک کیساتھ تجارت کی جاسکتی ہے جس نے ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رکھا ہے اور 66 سال سے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق: ہمارے حکمران امریکی کی خوشنودی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس لئے جو بھی حکومت آتی ہے وہ امریکی خوشنودی کے لئے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی باتیں کرنے لگتی ہے، ہم ایسے ملک کو پسندیدہ قرار دینے کی باتیں کرتے ہیں، جس نے 1971ء میں ہمارا ایک بازو یعنی مشرقی پاکستان کو ہم اسے الگ کر دیا تھا۔ جس نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرنے والوں کو سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ پھر اسی بھارت نے پاکستان کے دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رکھا ہے، جو ہمارے ملک کی سرحدوں کو تسلیم نہیں بلکہ ان کے خلاف مذموم عزائم رکھتا ہے۔ ہم محض آلو، پیاز، ٹماٹر کے لئے اس کو پسندیدہ ملک قرار دینا چاہتے ہیں، بھارت تجارت کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنا چاہتا ہے۔ ہمارے حکمران بھارت کی اس چال بازی اور دھوکے میں نہ آئیں، جو بغل میں چھری اور منہ سے رام رام کہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے موجودہ حالات کے پیچھے کس کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق: آج اگر ہمارے ملک میں کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے، یا لسانی اس کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی تثلیث ہوتی ہے۔ ان تینوں کی آنکھوں میں ہمارا ایٹم بم کھٹکھتا ہے، اسی لئے انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بن رکھا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک ہو یا کراچی میں فسادات کی لہر، ان سب کے پیچھے یہی طاقتیں ہوتی ہیں۔ جو اس ملک کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہمارا ملک آج ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، اس لئے ہمیں دشمن کی پھیلائی ہوئی سازشوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اگر آج افغانستان سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے تو وہ اپنے پیچھے ایسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جو کمزور اور ناتواں ہو، وہ خطے کی باگ ڈور بھارت کے سپرد کرکے جانا چاہتا ہے۔ ہمیں دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانے کیلئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ہم نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے ہی متحدہ دینی محاذ قائم کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں مسالک کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قائم ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: متحدہ دینی محاذ میں اہل تشیع کی تو نمائندگی دکھائی نہیں دیتی، جبکہ اہل تشیع پاکستان کا اہم مکتب فکر ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق: ابتدائی طور پر ہم نے اہلسنت حضرات کی جماعتوں کو متحد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، اہل تشیع اصل میں تقسیم ہیں، تین چار گروہوں میں، اس لئے کچھ ملی یکجہتی کونسل کے ساتھ تھے اور کچھ کسی بھی پلیٹ فارم پر نہیں ملنا چاہتے، لیکن ہم انشاءاللہ ان کو بھی ضرور شامل کریں گے، پاکستان میں امن کا قیام ہماری ترجیح ہے اور اس کے لئے ہم کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ دینی قوتوں کے اتحاد سے ہم حکومت پر دباؤ بڑھائیں گئے کہ وہ امریکہ کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں، اب نئی حکومت آئی ہے تو امید ہے کہ وہ اس معاملے پر نظرثانی کرے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان توانائی بحران کا شکار ہے، تو کیا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جلد مکمل نہیں ہو جانا چاہئے، تاکہ قوم کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات مل سکے۔؟

مولانا سمیع الحق: دیکھیں جی حکومت کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اگر نئی حکومت سمجھتی ہے کہ ایران کیساتھ معاہدے کی یہ بیل منڈھے چڑھے گی تو اس کو مکمل ہونا چاہئے اور اگر حکومت نہ چاہئے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ حکومت نے اپنے معاملات چلانے ہوتے ہیں۔ اس کو ہی بہتر پتہ ہوتا ہے کہ کون سا منصوبہ کس طرح چلانا ہے۔ اس حوالے سے ہم یہ معاملہ حکومت پر چھوڑتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ حکومت توانائی بحران کے حل کیلئے جنگی بنیادوں پرکام کر رہی ہے، تو وہ اس حوالے سے بہتر کام ہی کرے گی، ورنہ عوام تو اسے چلتا کریں گے۔ یہ جو حکومت کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے، یہ اس کے لئے بھاری ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 271389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش