0
Friday 24 May 2013 19:55
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہر صورت مکمل ہونا چاہیئے

دہشتگردی کا واحد علاج امریکہ کا خطے سے انخلا ہے، سید وسیم اختر

دہشتگردی کا واحد علاج امریکہ کا خطے سے انخلا ہے، سید وسیم اختر
ڈاکٹر سید وسیم اختر 1956ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم سی بی سکول راولپنڈی سے حاصل کی، میٹرک سر سید کالج راولپنڈی سے کیا، ایم بی بی ایس کی تعلیم انہوں نے قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے حاصل کی، آپ 1975 میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوگئے اور بہاولپور میں قائداعظم میڈیکل کالج میں جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے۔ اس دوران طلبہ یونین کے صدر بھی بنے۔ 1984ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے، آپ چھ سال امیر جماعت اسلامی بہاولپور رہے، اس کے بعد آٹھ سال جماعت اسلامی بہاولپور کے ضلعی امیر رہے۔ آپ اسلامی جمہوری اتحاد بہاولپور کے  صدر بھی رہے ہیں۔ پہلی بار 1990ء میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ پھر 2002ء میں بھی رکن پنجاب اسمبلی بنے۔ 2002ء سے لے کر 2007ء تک پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رہے۔ 

ڈاکٹر سید وسیم اختر نے ہمیشہ اہم سیاسی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، آپ نے پاک افغان دفاعی کونسل کی بھی قیادت کی ہے، اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ مجلس عمل میں بھی نمایاں رہے۔ 2003ء میں نائب امیر جماعت اسلامی پنجاب منتخب ہوئے جبکہ 2009ء سے تاحال جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ہیں۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر سعودی عرب اور چین کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں۔ ملک کے تمام مسائل اور بحرانوں کا حل اسلامی نظام میں دیکھتے ہیں۔ انتہائی ملنسار اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں۔ اپنے منفرد انداز گفتگو سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی، کراچی کی صورت حال، الیکشن کمیشن کے دعووں اور جماعت اسلامی کے صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کے ساتھ گفتگو کی، جو اپنے قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ)

                                      
اسلام ٹائمز: آپ حالیہ الیکشن کے نتائج سے مطمئن ہیں۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: پاکستان میں جمہوری قوتوں اور جمہوریت کے لئے یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا، عوام نے اسی لئے بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے جو ریکارڈ دھاندلی کی، اس سے پوری قوم آگاہ ہے۔ عوام کو بھی اس دھاندلی پر شور مچانا چاہئے اور آپ نے دیکھا کہ جب کراچی میں ایک حلقے میں دوبارہ پولنگ کروائی گئی تو وہاں تحریک انصاف فتح یاب ہوئی۔ اسی طرح دیگر متنازع علاقوں میں پولنگ کروائی جائے تو عوام جمہوری قوتوں کو ہی سپورٹ کریں گے۔ اب جو صورت حال ہے تو ہم سب کو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے۔ محلاتی سازشوں کے ذریعے ہمیشہ سے ملک میں انارکی پھیلائی جاتی رہی ہے، ہمیں باہمی اتحاد سے ان سازشوں کو ناکام بنانا چاہئے، مایوسی سے جان چھڑا کر ملکی وحدت کو مضبوط کرنا ہوگا، جماعت اسلامی نے حالیہ الیکشن میں جس تدبر کا مظاہرہ کیا ہے، اب حکومت سازی میں بھی اسی قسم کی دانش مندی کا اظہار کریں گے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن میں جماعت اسلامی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرسکی۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: جماعت اسلامی اقامت دین کی تحریک ہے۔ قرآن و سنت کے نظام کو لا کر ہم معاشرے سے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ کر دیں گے، تاکہ قوم جہالت کی تاریکی سے نکل کر اجالے میں آ جائے۔ جماعت اسلامی کے لئے الیکشن میں حصہ لینا حصول اقتدار کے لئے نہیں بلکہ مقاصد کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ جیت ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ جیت تو صرف ایک مقصد ہے، ہم انتخابات میں حصہ لے کر اہم مقاصد حاصل کرتے ہیں، ہم نے ہر دور میں ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کیلئے جمہوریت کا سفر جاری رکھا۔ جماعت اسلامی ملک میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کیلئے وجود میں آئی، مظلوم عوام کو جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ظلم سے نجات دلانے کیلئے ہم انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ عوام کی خدمت ہی ہمارا نصب العین ہے، ہم کسی لالچ کے لئے نہیں صرف خدمت اور خدمت عوام کے لئے سیاست کرتے ہیں۔ ہم صرف ان لوگوں سے اتحاد یا اتفاق کرتے ہیں، جن سے ہمارا منشور اجازت دیتا ہے، ہم کل بھی ملک کی ترقی کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور آج بھی اپنا مشن جاری رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی کے پولنگ اسٹیشنز پر ریکارڈ دھاندلی کی گئی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت مسلمین نے احتجاج بھی کیا، لیکن الیکشن کمیشن پھر بھی ’’شفاف الیکشن‘‘ کا ڈھول پیٹ رہا ہے۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: کراچی میں پولنگ اسٹیشنز پر جس طرح اسلحہ کے زور پر ٹھپے لگائے گئے اس کے مناظر تو صرف عام شہریوں نے ہی نہیں بلکہ عالمی مبصرین اور عالمی اداروں نے بھی خود دیکھے ہیں۔ ایک ایک حلقے سے دو دو لاکھ سے زائد ووٹ برآمد ہوئے، یعنی اپنے ٹرن آوٹ سے بھی دو دو لاکھ زیادہ ووٹ پڑے ہیں، حیرت تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن پھر بھی دھاندلی کے ثبوت مانگ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کہہ کر عوام کو گمراہ نہیں کرسکتا، عوام نے تمام شفافیت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔ ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے، وہاں دوبارہ الیکشن کروائے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے کھلم کھلا دھاندلی کرکے عوام کے مینڈیٹ کا مذاق اڑایا ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی اور دیگر شہروں میں ہونے والی دھاندلی میں کوئی بیرونی ہاتھ بھی دکھائی دیتا ہے۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: جی بالکل، اس میں بیرونی اشاروں پر ہی سب کچھ ہوا ہے اور اس بار تو یوں لگتا ہے کہ بیرونی قوتوں نے الیکشن کمیشن کو خرید رکھا تھا۔ آپ نے کراچی میں دیکھا کہ دھاندلی ہوئی، بجائے اس کے کہ الطاف حسین اس کی مذمت کرتا، اس نے کراچی کو بھی ملک سے الگ کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں، بھئی یہ کیا مذاق ہوا، آج میڈیا آزاد ہے۔ پھر ملکی و غیر ملکی ادارے بھی موجود تھے۔ ہم کسی ایک جگہ کی نہیں، جہاں جہاں بھی قوم کا مینڈیٹ چھینا گیا، اس کی مذمت کرتے ہیں۔ باجوڑ، مہمند ایجنسی اور خیبر ایجنسی میں سکیورٹی ادارے ہی بیلٹ باکس اٹھا کر لے گئے۔ بعض مقامات پر فہرستوں میں غلط اندراج اور بعض مقامات پر فائرنگ کی گئی، لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور مرضی کے نتائج حاصل کئے گئے۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت کے سامنے مسائل کا انبار لگا ہے، وہ ان سے کیسے نمٹے گی اور ملکی مسائل کے حل کیلئے جماعت اسلامی کیا کردار ادا کرے گی۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: بے روز گاری، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی ملک کے بڑے مسائل ہیں۔ عوام نے انہی مسائل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو مسترد کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ ان کے دور میں لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا تھا۔ لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کیا ملتا، ان کے پاس تو بجلی، گیس اور پانی تک غائب ہوگیا، حکومت نے لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا، اس کے برعکس حکمرانوں کے محلات میں گھی کے چراغ جلتے رہے۔ اسی لئے پی پی اور اس کے اتحادیوں کو عوام نے مسترد کر دیا۔ اس دفعہ لوگوں نے مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کو بھاری اکثریت میں ووٹ دے کر مسائل کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔

انہیں الیکشن کمپین میں کئے گئے سارے وعدے پورے کرنے ہوں گے، لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانا ہوگی۔ اس کے بعد صحت، تعلیم اور روزگار جیسے مسائل ہیں، نئی قیادت کو انہیں پہلی ترجیح میں حل کرنا ہوگا، حکمران جتنی جلدی یہ مسائل حل کریں گے، عوام کا اعتماد اتنا زیادہ بڑھتا جائے گا۔ اگر انہوں نے دیر لگا دی تو عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے عوام کے استحصال کے لئے انہوں نے بندر بانٹ کا کھیل رچا رکھا ہے۔ ہم وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے۔ جہاں ہم حکومتی غلطیوں کی نشاندہی کریں گے، جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہم تحریک انصاف کیساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ اصل چیز تو عوام کے مسائل ہیں، ہماری جماعت عوام کی خدمت کے جذبے سے الیکشن میں حصہ لیتی ہے۔ ہم اپوزیشن میں ہوں یا اقتدار میں ہمارا اصل کام حزب الاحتساب کا ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں آپ کی جماعت نے تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کر لیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف ڈرون حملے رکوانے میں کامیاب ہو جائے گی۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: آپ نے دیکھ لیا کہ ملکی خود مختاری کو داؤ پر لگانے والی حکومت کو عوام نے کس طرح پٹخ دیا، حکمران ٹولے نے جس طرح پانچ سال تک ملک کے وقار کی دھجیاں اڑائیں، اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ ان لوگوں نے پرویز مشرف کی پالیسیوں کو دوام بخشا، جس کے نتیجہ میں ہماری مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ ہماری مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ اب مسلم لیگ نواز کو اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنا ہوگی جبکہ تحریک انصاف کی پالیسی واضح ہے۔ عمران خان ڈرون حملوں اور طالبان سے بات چیت کے حوالے سے کھل کر اظہار کرتے رہتے ہیں، اسی لئے خیبر پختونخوا میں ہماری پارٹی کا ان کے ساتھ ملنا فطری اتحاد ہے۔ ہماری جماعت سیٹ یا عہدوں کے لالچ میں کسی کیساتھ اتحاد یا الحاق نہیں کرتی، ہمارا اتحاد ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں ہوتا ہے۔

ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لینی چاہیں، اب بے پناہ وسائل استعمال کرنے کے باوجود امریکہ وہاں سے ناکام ہو کر جا رہا ہے۔ تو ہمیں واپس جانے کیلئے اسے محفوظ راستہ دینا ہوگا، اس کے بعد ہی خطے اور افغانستان میں امن قائم ہوسکے گا، یہی دہشت گردی سے نجات کا واحد راستہ ہے کہ افغانستان میں افغانیوں کی اپنی مرضی کی حکومت قائم ہو۔ وہاں کے عوام کسی دباؤ کے بغیر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرسکیں، تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو سیاست کرنے کا حق حاصل ہو اور افغانستان کو ہر قسم کی مداخلت سے پاک کر دیا جائے۔ جب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی افواج کا انخلاء شروع ہوچکا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پاکستانی حکمران اور سیاسی جماعتیں فضاء کو سازگار بنائے رکھیں، تاکہ امریکہ کو وہاں ٹھہرنے کا موقع نہ مل سکے۔

اسلام ٹائمز: کیا نواز لیگ کی حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، کہیں بھارت سے دوستی کے چکر میں مسئلہ کشمیر پس پشت تو نہیں چلا جائے گا۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: ہمیں توقع ہے کہ ملک کی نئی حکومت ملک کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات سے انحراف نہیں کرے گی، بلکہ ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے تمام ممالک کے ساتھ برابری، پرامن بقائے باہمی اور عدم مداخلت کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمسایہ ممالک چین اور ایران کیساتھ تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا، بھارت سے فوری اور بے بنیاد توقعات باندھنے کے بجائے تعلقات کار کیلئے واضح چارٹر تشکیل دینے کے لئے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیئے۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ہم کس طرح بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دیں؟ ہم شہداء کشمیر کو کس طرح فراموش کرکے بھارت کیساتھ تجارت کو بڑھا لیں۔

ایک طرف بھارت کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دوسری طرف ہم بھارتی قیادت کو آگے بڑھ بڑھ کر گلے لگائیں؟ یہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوگا، اگر تقریب حلف برداری میں بلانا ہے تو من موہن سنگھ کی بجائے کشمیری رہنماؤں کو بلایا جائے، جس سے مسئلہ کشمیر اجاگر ہوسکتا ہے۔ کشمیر کی آزادی ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہونا چاہئے۔ ایک طرف بھارت مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے اور بلوچستان میں مداخلت کرکے بدامنی کو فروغ دے رہا ہے، بھارتی فوج کے افسر تسلیم کر رہے ہیں کہ سربجیت جاسوس تھا اور بم دھماکوں میں ملوث تھا، اس کے باوجود پتہ نہیں نواز شریف کو کون سی بے چینی لاحق ہے کہ من موہن سنگھ کو بلانے کے لئے بے تاب ہیں۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت پاک ایران گیس منصوبے کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔؟
ڈاکٹر سید وسیم اختر: دیکھیں جی، زرداری حکومت نے دو اہم کام کئے، ایک گوادر پورٹ کو چین کے سپرد کرنے کا معاہدہ اور دوسرا پاک ایران گیس پائپ لائن، گوادر پورٹ معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسے چین کے سپرد کر دیا گیا ہے، اب پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہر صورت میں مکمل کیا جانا چاہئے، کیونکہ پاکستان میں ایران مخالف لابی بھی اس منصوبے کی مخالفت نہیں کر رہی، اس حوالے سے امریکی سفیر کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھ رہے ہیں ان کی پرواہ کئے بغیر نئی حکومت کو یہ منصوبہ مکمل کرنا چاہئے۔ جہاں تک سعودی عرب سے بیل آؤٹ پیکج کے تحت ادھار تیل لینے کی بات ہے تو یہ ہوسکتا ہے کوئی فائدہ دے جائے، لیکن پائپ لائن منصوبہ ہمارے لئے بہت ضروری ہے، ہماری صنعتیں توانائی بحران کے باعث تباہی کے دہانے پر پہچ چکی ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنی ترجیح میں کہا کہ معیشت معیشت معیشت، تو میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کی مضبوطی کے لئے پاک ایران گیس منصوبہ انتہائی ضروری ہے، اگر حکومت نے اس کو نظرانداز کیا تو عوام کا شدید ردعمل سامنے آئے گا، عوام مزید اندھیروں میں نہیں رہنا چاہتے۔
خبر کا کوڈ : 267019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش