0
Friday 27 Sep 2013 12:17

حکومت بیرونی اور اندرونی دباو کے علاوہ وابستگیوں کو ترک کر کے دہشتگردوں کیخلاف اصولی موقف اپنائے، فدا حسین

حکومت بیرونی اور اندرونی دباو کے علاوہ وابستگیوں کو ترک کر کے دہشتگردوں کیخلاف اصولی موقف اپنائے، فدا حسین
فدا حسین کا تعلق بلتستان کے خوبصورت مقام روندو سے ہے۔ آپ ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ سیاست سے بھی وابستہ ہیں۔ سیاسی دنیا میں آپ ممبر ڈسٹرکٹ کونسل بھی رہ چکے ہیں۔ اسلامی تحریکوں میں بھی آپ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ اس وقت آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ترجمان کی حیثیت سے ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے گلگت بلتستان کی حلات کے حوالے سے ایک مختصر انٹرویو کیا ہے جو محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔فدا حسین کا تعلق بلتستان کے خوبصورت مقام روندو سے ہے۔ آپ ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ سیاست سے بھی وابستہ ہیں۔ سیاسی دنیا میں آپ ممبر ڈسٹرکٹ کونسل بھی رہ چکے ہیں۔ اسلامی تحریکوں میں بھی آپ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ اس وقت آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ترجمان کی حیثیت سے ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے آپ سے ملکی اور علاقائی حالات کے حوالے سے ایک مختصر انٹرویو کیا ہے جو محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے دہشت گردوں سے مذاکرات بلخصوص عمران خان کا بیان جس میں قطر کی طرح پاکستان میں بھی دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے آفس کھولنے کا مشورہ دیا ہے، ان تمام معاملات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
فدا حسین: دہشت گردوں سے مذاکرات کا مذاق بند کر کے مسئلے کے حل کی طرف جانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بیرونی اور اندرونی دباو اور وابستگیوں کو ترک کرکے اصولی موقف اپنائیں۔ حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہایت غیر سنجیدہ اقدام ہے جسکا نتیجہ پاکستان کے تشخص کو شدید نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو گا۔ حکومت اور حکومتی ترجمان سمیت مذاکرات کے حق میں موجود سیاسی پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ پاکستان ایک عشرہ سے حالت جنگ میں ہے اور دہشت گردوں کے ساتھ جاری اس طویل جنگ میں پاکستان کو کیا ملا؟ اب مذاکرات کر کے دیکھتے ہیں، شاید امن بحال ہو۔ اس خیالی اور احمقوں کی جنت میں رہنے والوں سے میرا سوال ہے کہ پاکستان میں سوات کے علاوہ کس خطہ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا۔ مجھے بتائے دہشت گردوں کے کونسے اثاثے منجمند کرائے، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی کتنی شخصیات کا گھیرا تنگ کیا، دہشت گردی کے کتنے ٹرینینگ کیمپوں پر چھاپے مارے، دہشت گردی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے کتنے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکایا، کیا بنوں جیل سے دہشت گردوں کو چھڑانا، کیا ڈیرہ اسماعیل خان سے دہشت گردوں سے چھڑانا، کیا عدالتوں سے ناکافی شواہد کے نام پر طالبان اور دیگر کلعدم تنظیموں کے رہنماوں کو باعزت بری کرنا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے؟ 
اسے تو جنگ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ شاید یہ لوگ جنگ کی اصطلاح سے ہی ناواقف ہیں۔ ریاستی ادارے دہشت گردانہ واقعات کے بعد جائے وقوعہ پہ سکیورٹی سخت کرتے اور دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے میں وقت گزارتے رہے ہیں۔ اگر کوئی گرفتار ہو جاتا ہے تو اس جرم کے مطابق سزا نہیں ملتی۔ لہٰذا اگر واقعی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کریں تو پاکستان آرمی میں اور خفیہ اداروں میں اتنی طاقت ضرور ہے کہ بہت کم عرصہ میں دہشت گردی کی جن کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان آرمی کے لیے مٹھی بھر دہشت گردوں کو قابو کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

جہاں تک عمران خان نے جو بیان دیا ہے وہ کوئی بہادر اور جری لیڈر  نہیں ہے اور ان سے یہ توقع عبث ہے کہ امریکہ اسرائیل اور دہشت گردوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر سکیں گے۔ وہ دہشت گردوں سے مرعوب ہیں، صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کے سب سے بڑے ٹھکانے ہیں اور بڑی تعداد میں قبائلی عوام جہاد اور اسلام کے نام پر دہشت گردوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف طاقت کا استعمال ان کو خطہ میں مزید کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔ چنانچہ وہ پریشانی اور بوکھلاہٹ میں جو بات دل میں آئے کہہ دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حکومت دہشت گردی کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور دہشت گرد ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو کیا یہ پاکستان کے حق میں بہت بہتر نہیں ہو گا؟ اور ریاست کے وسائل بھی بچ جائیں گے؟
فدا حسین: اگر الہٰ دین کا چراغ مل جائے تو، اگر دودھ کی نہریں بہنے لگیں تو، اگر پاکستان کے سارے دشمن دوست بن جائیں اگر ایسا ہو ویسا ہو یہ وہ باتیں ہیں جن سے حقیقت کا تعلق نہیں۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بات کرنی چاہیئے۔ اس وقت جو زمینی حقائق ہیں اس کے متعلق ایسا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کیا طریقہ اپنائے گی۔ کیا حکومت اشتہار لگائے گی کہ ملک میں موجود تمام دہشت گرد حضرات اور دہشت گرد ٹولے تشریف لائیں اس نمبر پر رابطہ کریں اور مل بیٹھ کر مذاکرات کرتے ہیں۔ تو کیا سب دوڑے دوڑے آئیں گے اور ایسا کریں گے؟ دہشت گرد تنظیمیں کوئی بچوں کی جماعت نہیں، جنہیں لالچ دے کے جمع کیا جا سکے۔ یہ سارے غیر ملکی ایجنڈوں پر کاربند لوگ ہیں۔ کوئی راء کے لیے کام کرتا ہے افغانستان کی مدد سے، کوئی سی آئی اے اور موساد کے لیے سعودی عرب کی مدد سے، ان کے علاوہ ایسی بھی تنظیمں ہیں جو ملکی سطح پر موجود ہیں۔ 
آپ خود کہیں یہ غیر ملکی ایجنڈوں کاربند لوگ کیا خاموش ہونگے جب انکے آقاوں کا حکم نہ ہو۔ ملک میں سرگرم عمل ایسی دہشت گرد تنظیمیں بھی ہیں جو پاکستان کے مخالف ہیں اور پاکستان کے حامیوں اور ریاستی اداروں کو کافر سمجھتی ہیں اور انکے خلاف جہاد کو واجب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوری نظام کفر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی پسند کا اسلام جب تک ریاست میں نافذ نہیں کیا جاتا جہاد جاری رہے گا۔ اب کیا ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت کو اپنی مذاکرات کی حماقت جلد سمجھ آ جائے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری دہشت گردی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔؟
فدا حسین: پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے مفسدین فی الارض ہیں، ان کی سزا تختہ دار ہے۔ ملک دشمن عناصر جن کے ہاتھ بےگناہوں کے ہاتھوں سے رنگے ہوئے ہوں ان کو عبرتناک سزا دی جائے۔ ان کا گھیرا تنگ کر دیا جائے، ان کی سرپرستی کرنے والوں کو بھی غدار سمجھا جائے، انکی معاونت کرنے والوں کو جرم کے برابر شریک قرار دیا جائے۔ ملک کے تمام سرحدی علاقوں میں موجود بارڈزر بلخصوص افغان بارڈر کو محفوظ کیا جائے، دہشت گردی کی تربیت دینے والے مدارس کو بند کرایا جائے، تمام دہشت گردوں کے کیمپوں کو ختم کیا جائے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کو کوڈ کے لمبے چکر چھوڑ کر ایسا قانون بنایا جائے کہ ان قاتلوں، دہشت گردوں کو دنوں میں سزا مل جائے تو قابو پایا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعے ملک کو معاشی، معاشرتی، تعلیمی بحرانوں سے نکال سکے گی۔؟
فدا حسین: امید پہ تو دنیا قائم ہے لیکن انکی پالیسیوں میں اتنی جان نہیں ہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔ انکے تمام دعوے اور وعدے سیاسی تھے، لوڈشیڈنگ شاید چار سال بعد ختم ہو اگر جامع پالیسی بنائیں اسی طرح ملک کی معیشت کو سنبھلنے کے لیے پورا عشرہ چاہیئے۔ آپ حکومت سے بحرانوں پہ قابو پانے کی بات کر رہے ہیں موجودہ تو موجودہ حکومت پانچ سال کا عرصہ گزارتے نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ عوام اس حکومت سے بھی منتفر ہو گئے ہیں۔ جتنے وعدے عوام سے کیے سب جھوٹے وعدے تھے، اور آپ جانتے ہیں کہ خدا کے بعد طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ اگر دہشت گردی، بم دھماکے اسی رفتار سے جاری رہے تو حکومت کی رٹ خود بخود ختم ہو گی اور عوام بھی اٹھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں اور عوام مرتے پٹتے رہیں۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم پاکستان نے حال ہی میں ترکی کے دورہ کے دوران جہاں دیگر امور پر گفتگو کی اور معاملات طے کیے وہاں ترکی سے دہشت گردی کو پاکستان میں روکنے کے لئے امداد چاہی، کیا ترکی پاکستان میں دہشت گردی کو روکنے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔؟
فدا حسین: ترکی حکومت اور دہشت گردی کو روکنا مضحکہ خیز بات ہے۔ ترکی کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ امریکہ و اسرائیل کی مرضی کے خلاف ایک جملہ بولیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی میں ترکی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں عرب ممالک نے پاکستان کے دہشت گردوں کی مکمل پشت پناہی اور معاونت کی ہے، وہاں اس کار خیر میں ترکی بھی شریک رہا ہے۔ ترکی عالمی دہشت گردوں کا آلہ کار ہے۔ ترکی اگر دہشت گردوں کی معاونت نہ کرے تو پاکستان پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ وزیراعظم نے ترکی سے دہشت گردی کو روکنے کے لیے جو مدد اور تعاون طلب کیا ہے وہ دراصل ترکی پر دہشت گردوں کی سرپرپستی کی باتوں کو غیر موثر بنانے کے لیے ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہ سکا، گلگت بلتستان کے مستقبل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
فدا حسین: گلگت بلتستان ان دنوں جن عالمی سازشوں کے زد پر ہے، اس کے بارے میں پیش گوئی کرنا نہایت مشکل ہے اور اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس خطہ کا مستقبل بھیانک نظر آ رہا ہے۔ آپ اسے موجودہ بلوچستان میں جو صورتحال ہے وہ صرف چند سالوں میں اس خطہ میں ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ ان دونوں علاقے کی اسٹریٹیجک اہمیت کسی حد تک ایک جیسی ہے، بلکہ گلگت بلتستان کی اہمیت کچھ حوالوں سے زیادہ ہے۔ گلگت بلتستان کے اردگرد موجود روس، تاجکستان، افغانستان، چین اور بھارت نے اس خطہ کو نہایت اہم خطہ بنایا ہے۔ گلگت بلتستان ڈرائی پورٹ ہے اور چین کے لیے ایشیا سمیت دنیا کے بہت سارے ممالک میں زمینی راستہ سب سے موزوں اسی خطہ کے ذریعے جو کہ عالمی اقتصادی جنگ کی زد میں بھی آتا ہے۔ چین امریکہ کا جہاں نظریاتی مخالف ہے وہاں امریکہ کی سپر پاور ہونے کے خواب کو چین کی معیشت نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے، چنانچہ امریکہ چین کی اقتصاد کو کمزور کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ لہٰذا اس خطہ پر امریکی پروردہ تنظیموں کو بھڑکایا جانا اور مضبوط کرنا چین کی گردن پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے۔ 
گلگت بلتستان میں یورینییم سمیت دیگر کھربوں ڈالر مالیت کے ذخائر بھی عالمی قابضوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ امریکی تنظیمیں مختلف فلاحی تنظیموں کے روپ میں گلگت بلتستان میں خطرناک حد تک سرائیت کر چکی ہیں جو بعد میں اس خطے کو تباہی کی جانب لے جائے گا۔ جس خطرناک انداز سے گلگت بلتستان میں امریکی تنظیمیں سرگرم ہیں بعد میں پاکستان کے ریاستی اداروں اور حساس اداروں کے لیے وبال جان بن جائے گا۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کو اسوقت اندازہ ہو جائے گا جب عوام الگ ریاست کا مطالبہ کریں اور راء کے ایجنڈے کے لیے جدوجہد کریں اور بغاوت شروع کریں۔ امریکہ اور اسکی تنظیمیں جہاں پاکستان میں فلاحی کاموں میں مصروف ہیں، وہیں اسی امریکہ نے پاکستان کے دشمن ملک انڈیا کے دفاع کو ناقابل یقین حد تک مضبوط کیا ہے۔ ساتھ ہی انڈیا کے سرحدی علاقہ کرگل لداخ پر مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے تو دوسری طرف بلتستان میں کام جاری ہے۔ امریکہ یا انڈیا کا دوست ہو سکتا ہے یا پاکستان کا۔ تو یوں اس خطے میں دہشت گردی مزید ہو سکتی ہے، فرقہ واریت تیز ہو سکتی ہے، ریاست مخالف طاقتوں کے مضبوط ہونے سے یہ خطہ خونین خطہ بن سکتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے بروقت سنجیدگی سے کام کریں تو خطرات کم سے کم کیے جا سکتے ہیں اور اس خطہ کو پاکستان کے ماتھے کا حسین جھومر بنایا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 305829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش