0
Friday 18 Oct 2013 00:45

گلگت بلتستان میں تعلیم کیخلاف منظم سازش ہو رہی ہے، اکبر علی

مذہبی تنظیموں کے کام کرنیکا طریقہ کار مختلف لیکن اہداف ایک جیسے ہیں
گلگت بلتستان میں تعلیم کیخلاف منظم سازش ہو رہی ہے، اکبر علی
اکبر علی کا تعلق اسکردو سے ہے، آپ ملت تشیع پاکستان کے حققوق کے دفاع کے لیے میدان عمل میں ہیں اور دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پہ ہے، اسلام ٹائمز نے ان سے ملکی اور علاقائی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا ہے وہ اپنے محترم قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو درپیش مسائل کیا ہیں اور ان مسائل کا حل کیا ہے۔؟
اکبر علی: پاکستان ان دنوں نہایت تاریخی اور خطرناک بحرانوں سے گزر رہا ہے حکومت ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی بھی نہیں دکھا رہی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اکثر لوگ دہشت گردی اور بدامنی کو سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ میری رائے میں پاکستان کا اسوقت سب سے بڑا مسئلہ قانون کی عملداری کا نہ ہونا ہے۔ اگر قانون کی عملداری ہو تو دہشت گردی کا مسئلہ بھی مسئلہ لاینحل نہیں رہتا۔ قانون کی بالادستی سے امن و امان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ملک میں معاشی بحران کو بھی بہت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان جس جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے وہاں معاشی مسئلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر بیرونی اشاروں سے مبراء ہو کر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی کریں تو معاشی بحران ختم ہو سکتا ہے۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گیس اور کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں کہ اس سے ملک میں انرجی کے مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے، گلگت بلتستان میں موجود دریاوں سے بھی انرجی کی اتنی مقدار پیدا کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کو پوری کر کے بیرون ملک بجلی برآمد کر سکتا ہے۔ اسی طرح ملک معدنیات کے وسائل سے مالا مال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ مسائل کے اصل حل کی طرف اقدامات اٹھائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام، معیار اور کورس کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیا پاکستان کے تعلیمی نظام سے آپ مطمئن ہیں۔؟
اکبر علی: ملک میں دیگر اداروں کی طرح تعلیمی اداروں کی صورتحال بھی دگرگوں ہے، یہاں معیار نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ ملک میں تعلیمی نظام طبقات میں تقسیم ہے۔ امیروں اور اہل ثروت و دولت کے لیے الگ تعلیمی نظام ہے جبکہ غریب عوام جو کہ نوے فیصد کے قریب ہے، کے لیے الگ نظام تعلیم ہے۔ عوام اور غریب لوگ معیاری تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف اعلیٰ  تعلیمی ادارے بھی سیاست، وابستگیوں اور تنظیموں کی نذر ہوتے نظر آ رہے ہیں، اعلٰی تعلیمی ادارے بانجھ ہو رہے ہیں۔ کوئی جناح، کوئی اقبال، کوئی غالب، کوئی قدیر خان پیدا کرنے کی صلاحیت ہمارے ادارے نہیں رکھتے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ان اداروں کا کام صرف اور صرف پیسوں کے عوض طلباء کو داخلہ دلانا اور چار چار، پانچ پانچ سال کی تعلیمی سرگرمیوں کے بعد ڈگری کے نام پر ایک کاغذ کا ٹکڑا تھما کر باہر کر دینا ہے جو بیروزگاری کا تمغہ سجائے مارے مارے پھرتا ہے۔ اعلیٰ  تعلیم کے حصول اور صاحب سند ہونے کے بعد بھی طلباء میں کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ادارے بانجھ ہیں۔ لہٰذا میں پاکستان کے تعلیمی اداروں سے نہ صرف مطمئن نہیں بلکہ ناقص اور غیر معیاری تعلیم کے شدید مخالف بھی ہوں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟
اکبر علی: گلگت بلتستان میں اول تو کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے ہی نہیں سوائے قراقرم یونیورسٹی کے، وہ بھی یونیورسٹی کم اور میدان سیاست و ملازمت زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے جو حقیقی معنوں میں طلباء کو زیور علم سے آراستہ نہیں کر سکتے اور معیاری تعلیم نہیں دے سکتے وہ ایک دھوکا ہیں اور ایسے اداروں کو بند ہونا چاہیئے کیونکہ وہ قوم کے ساتھ دھوکا ہے، دوسری طرف پرائمری لیول اور ابتدائی لیول پر دیکھ لیں تو گلگت بلتستان بالعمعوم اور بلتستان میں بالخصوص ایک خاص سازش کے تحت معیار تعلیم کو تباہ و برباد کر کے یہاں کی نئی نسل کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس افسوسناک سانحہ پر کسی کی بھی توجہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: بلتستان میں مذہبی تنظیموں کے درمیان کچھ اختلاف دیکھنے کو ملتے ہیں آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
اکبر علی: میں توقع نہیں کروں گا کہ کوئی مذہبی تنظیم جان بوجھ کر اختلاف کرے۔ طریقہ کار میں اختلاف ممکن ہے لیکن اہداف تمام دینی جماعتوں کے ایک جیسے ہیں۔ اس وقت عملی کام کی ضرورت ہے۔ ملت ہرگز متحمل نہیں کہ تفرقہ میں پڑ جائے۔ طریقہ کار کے مختلف ہونے سے دشمن نہیں کہا جا سکتا، ہم تمام عالم اسلام کی بات کرنے والے ہیں۔ ہم شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں کہ تمام کلمہ گو وحدت کی لڑی میں پرونے کی کوشش کریں۔ کس طرح سوچا جا سکتا ہے شیعہ تنظیموں کو لڑانے کی بات کریں اور میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی تنظیموں سے کوئی توقع ہی نہیں مذہبی تنظیموں کی بات کریں تو جو تنظیمیں ملی تشخص کو بلند کرنے، اتحاد کی فضا کو قائم کرنے، دین کی سربلندی، دین کی ترویج و تبلیغ کے لیے کام نہیں کر رہی ہیں وہ دراصل دینی جماعت ہو ہی نہیں سکتی۔ میں جانتا ہوں کچھ تنظیموں کو جو ملی بیداری، باہمی اخوت و بھائی چارگی، ملی حمیت کو بلند کرنے، ملت کو اسکا کھویا ہوا مقام پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، خدا ان سب کو کامیابی اور آسانیاں عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 311695
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش