2
0
Tuesday 22 Oct 2013 12:53
طالبان کیساتھ مذاکرات سے نقصان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہی ہوگا

ہم حکومت کیخلاف نہیں بلکہ حکومتی موقف ہمیشہ ہمارے اور حقائق کیخلاف ہوتا ہے، علامہ عابد حسینی

ہم حکومت کیخلاف نہیں بلکہ حکومتی موقف ہمیشہ ہمارے اور حقائق کیخلاف ہوتا ہے، علامہ عابد حسینی

علامہ سید عابد حسینی کا ماضی میں ملکی سیاست میں اہم رول رہا ہے، تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی نائب صدر اور اسکی سپریم کونسل کے رکن رہے۔ آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن رہنے کے علاوہ سینیٹ میں ملت جعفریہ کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ اس وقت پاراچنار میں مومنین کے حقوق کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: شلوزان تنگی آبادکاری کے سلسلے میں حکومتی موقف اور اپنی رائے سے اسلام ٹائمز کے قارئین کو آگاہ فرمائیں۔
علامہ سید عابد الحسینی
: شلوزان تنگی میں آبادکاری کے سلسلے میں متعصب مقامی انتظامیہ کا موقف سو فیصد جانبدارانہ ہے، وہ چاہتی ہے کہ تنگی میں ہر کس و ناکس کو آباد کرایا جائے، خواہ یہاں اسکی کوئی جائیداد ہے یا نہیں، اسے غیر مشروط طور پر وہاں آباد کیا جائے، جبکہ ہمارا موقف واضح ہے کہ حقوق چاہے غیر مسلم کے ہوں، مسلمان نہیں بلکہ صرف انسان ہی ہو، ان پر حملہ کرنا، کسی کی حق تلفی کرنا، یہ ساری چیزیں احکام اسلامی کے منافی ہیں۔ پاراچنار کی جھڑپوں کے بعد گرینڈ جرگہ نے مری کے مقام پر ایک فیصلہ کیا، جو مری معاہدہ کے نام سے موسوم ہے، اس میں پاراچنار کے بہت سارے مسائل سمیت شلوزان تنگی اور دیگر تمام مسائل کا حل موجود ہے، پچاس رکنی جرگہ ممبران کا کیا ہوا یہ فیصلہ حکومت کو دیا گیا، لیکن حکومت اب تک اس فیصلے کو عملاً نافذ نہیں کر رہی، جہاں عمل کرتی بھی ہے تو ان شقوں پر جس میں طوری بنگش اقوام کا نقصان ہے، جبکہ جہاں طوری بنگش اقوام کا نفع اور انکے حقوق کی بات ہے، معاہدے کے اس حصے پر حکومت خاموش ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ تنگی کے جن علاقوں کو اہل تشیع کے بنگش قبیلے نے فروخت کیا ہے اور اہلسنت کے منگل قبیلے نے خریدا ہے اور کاغذات مال کے مطابق ان کے پاس ریکارڈ بھی موجود ہو، ہمارا کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ آکر تسلی سے آبادکاری کریں۔ لیکن اگر کاغذات مال میں کسی کا ریکارڈ نہ ہو یا پاراچنار کی جھڑپوں سے پہلے بغیر کاغذات مال کے یہاں بطور ہمسائیہ (مزراعین) رہتے تھے, ان کا یہاں پر کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی ایسے غیر مجاز لوگوں کی آباد کاری کی کسی کو اجازت دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اکثر اوقات آپ کا موقف حکومتی موقف کے برخلاف ہوتا ہے۔ اس زیر غور کیس کے متعلق آپ اپنے موقف کو کیسے ثابت کرتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: ہمارا موقف حکومتی موقف کے برخلاف نہیں ہوا کرتا بلکہ اکثر اوقات حکومتی موقف ہمارے موقت اور حقیقت کے برخلاف ہوتا ہے۔ مقامی انتظامیہ کا موقف اکثر اوقات ظالمانہ، جانبدارانہ اور ہمارے مطالبات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مشتے از خروارے کے مصداق صرف ایک مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں، صدہ میں طوری بنگش قبیلے کی زمینیں اور جائیداد وہابیوں سے زیادہ ہیں۔ 1983ء میں یہاں جو خونریز لڑائی ہوئی تھی، جس میں تین اور چھ ماہ کے دو شیر خوار بچوں اور متعدد خواتین کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت سے آج تک یعنی 30 سال سے شیعہ املاک پر وہابیوں کا قبضہ ہے، اس ظلم پر حکومت خاموش ہے۔ اس سلسلے میں جب کبھی طوری بنگش قبائل اپنا مطالبہ دھراتے ہیں تو حکومت مطالبات ماننے کی بجائے انکی گرفتاری کا سلسلہ بھی شروع کر دیتی ہے۔ اسی طرح بالش خیل کی زمین کے مسئلے میں حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ طوری بنگش قبیلے کی ہے۔ سابق پولیٹیکل ایجنٹ بصیر نے واضح انداز میں کہا تھا کہ یہ علاقہ طوری بنگش قبائل کا ہے، اسکے باوجود کوئی عملی کارروائی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کی سینکڑوں مثالیں آپ کو ملیں گی، لہذا ہمارا موقف انکے مخالف ہوتا ہے اور رہے گا، کیونکہ حکومتی موقف انصاف پر مبنی نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: 1983ء میں طوری بنگش قبائل اپنے علاقوں سے بے دخل ہوئے ہیں اور حکومت کا اس بارے کیا رول ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: جس طرح کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، 30 سال قبل 1983ء میں حاجی حسین غلام کو اپنے شیر خوار بچوں اور خواتین سمیت بیدردی سے قتل کرنے کے بعد پوری شیعہ اراضی پر وہاں کے نواصب نے قبضہ جما لیا، لیکن آج تک اس سلسلے میں حکومت نے کوئی دلچسپی  نہیں دکھائی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چھ سال قبل جب طالبان کو بیس فراہم کرکے جب مقامی وہابیوں نے اپنا غلبہ قائم کرنے کی کوشش کی اور جواباً طوری بنگش قبائل نے انہیں شکست سے دوچار کرکے بھگایا تو اس سلسلے میں حکومت  خود ان سے بھی زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ جو سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ ایک مسئلہ 30 سال سے پڑا ہے اس میں دلچسپی نہیں لی جاتی جبکہ صرف 6 سال پرانے مسئلے میں بھرپور دلچسپی لی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پیواڑ، تنگی اور دیگر مسائل کے سلسلے میں طوری بنگش اقوام کے کیا تحفظات ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: ہمارے تحفظات  اور خدشات اکثر حکومت سے ہوتے ہیں۔ ہماری اتنی مشکلات اور مسائل کے باوجود حکومت ہمیشہ یک طرفہ کردار ادا کرتی ہے۔ مری معاہدے میں پیواڑ خمزے روڈ یا کسی بھی نئے روڈ کا ذکر نہیں، صرف پرانی سڑکوں اور ساتھ ہی جنگلوں میں لکڑیاں کاٹتے وقت متحارب فریقوں کی طرف سے ایک دوسرے کو امن فراہم کرنے پر پابند کیا گیا ہے۔ تاہم شیخ نواز صاحب نے (شاید کسی مصلحت کی بنا پر) ماورائے معاہدہ انہیں ایک اضافی سڑک بھی فراہم کی, اسکے باوجود ہمارے پیواڑ کے لوگ اپنے جنگل نہیں جاسکتے۔ اپنی نہروں میں پانی نہیں لاسکتے، ہم نے انہیں اپنے حق سے بھی زیادہ دیا ہے، جبکہ وہ ہمیں اپنا حق تک نہیں دیتے، لیکن افسوس کی بات یہ کہ اس میں انکے ساتھ حکومت برابر کی شریک ہے۔ پیواڑ کے پانی کا مسئلہ دیکھیں کہ خروٹی اور منگل قبائل نے پانی بند کرکے اہلیان پیواڑ کی زمین بنجر بنا دی ہے۔ حکومت نے بہت سے وعدے کئے ہیں، لیکن کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ چنانچہ حکومت کے اس ناپسندیدہ کردار ہی کے مقابلے میں ہمارے تحفظات ہیں۔

اسلام ٹائمز: بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ دنوں گورنر ہاوس میں قومی مسائل کے سلسلے میں حکومت اور غیر طوری اقوام کے خلاف طوری اقوام کے عمائدین، تنظیموں اور ذمہ دار افراد نے متفقہ موقف اختیار کیا ہے، اس میں کہاں تک حقیقت ہے۔؟
سید عابد الحسینی: ہاں ہم نے بھی ایسا کچھ سنا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ پرانے زمانے میں ایسے امراء تھے جو دولت کے زور پر اپنے مسائل کو حل کرواتے تھے۔ اب بھی اسی طرح ہے، یہ کسی حد تک اتفاق جو عمل میں آیا ہے، اس طرح پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن بڑی مشکل سے ایسے اتحاد قائم رہتے ہیں، جب کبھی ایسا ہوا ہے تو حاکم وقت نے اہم افراد کو پیسوں سے خرید کر ان میں دوبارہ پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے، جس میں اسے اکثر کامیابی نصیب ہوئی۔ تو مجھے اب یہ خوف ہے کہ سرکاری تجوریوں سے اس اتحاد کو دھچکہ نہ لگے۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب، مقامی مسائل سے ذرا آگے بڑھ کر ملکی سیاست کے حوالے سے بتائیں کہ حکومت طالبان سے جو مذاکرات کر رہی ہے، اس سلسلے میں آپکا موقف کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: طالبان ظاہراً دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا دشمن امریکہ اور امریکہ نواز قوتیں ہیں، لیکن انکے کردار سے بالکل واضح اور آشکار ہے کہ انکا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے، کیونکہ یہ لوگ سارے کے سارے معصوم عوام ہی کو مارتے ہیں، جو اسلام میں کسی صورت میں جائز نہیں ہے، حتی کہ غیر مسلمان کو ناجائز طور پر مارنا منع ہے۔ جس طرح پشاور میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا، یہ اسلام میں جائز نہیں۔ انہوں نے پاکستان میں یا عرب ممالک میں آج تک کسی امریکی یا اسرائیلی کو نہیں مارا، شام میں دیکھیں، وہاں امریکہ شامی حکومت کے خلاف لڑ رہا ہے، جبکہ طالبان اور القاعدہ بھی حکومت شام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ہدف کوئی اور ہے، اسلئے یہ مذاکرات مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے۔ طالبان کا کہنا کچھ اور جبکہ ان کا کردار کچھ اور ہے۔ اتنی طاقت کے باوجود حکومت چند افراد کو قابو نہیں کرسکتی تو یہ حکومت کی نااہلی ہے۔ مذاکرات کر بھی لیں تو ان سے مملکت پاکستان کو نفع نہیں پہنچے گا، بلکہ سراسر نقصان ہوگا، نقصان کے علاوہ ملکی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

اسلام ٹائمز: شام کے متعلق مغربی اور عرب ممالک کی پالیسی کے حوالے سے کچھ کہنا پسند فرمائیں گے۔؟
سید عابد الحسینی: عرب ممالک کا شام کے حوالے سے موقف ہے کہ بشار الاسد نے ظلم کیا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ مصر میں کیا ہوا ہے؟ مصر میں ایک جمہوری حکومت کو صرف اس بنا پر ختم کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حامی تھی، اور اس حکومت کو گرانے میں سب سے بڑا کردار سعودی عرب نے ادا کیا، اور اب جو فوجی حکومت برسراقتدار آگئی ہے اس نے تو وہ ٹنل بھی بند کر دیئے ہیں، جس کے ذریعے فلسطین اور حماس کے ساتھ رابطہ ہوتا تھا۔ مصری فوجیوں کو یہ اشارہ انہی عرب ممالک کا تھا اور عرب ممالک کو اشارہ ہمیشہ امریکہ سے ملتا ہے۔ شام کا مسئلہ بھی عین مصر کی طرح ہے۔ شام کے حوالے سے اگر امریکہ کا رویہ بدل گیا تو سارے عرب ممالک کا رویہ بھی بدل جائے گا۔

خبر کا کوڈ : 312389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

پاراچنار کا شیر
وہابیوں کے لئے ڈرون
حکومت کے لئے چیتا
molana sahib c guzarish hai k ap kuram mai ab aik ghair motanazia shakhs ban choky hain. ap shaikh nawaz ka nam lay kar khod ko motanazia na banayen.
boht mazirat.
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش