0
Monday 20 Jan 2014 00:00
ملک سے دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے حکومت مخلصانہ کوششیں کر رہی ہے

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنیکا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، احسن اقبال

بعض بیرونی قوتیں افواہیں پھیلا کر پاکستانی معاملات خراب کرنے میں مصروف ہیں
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنیکا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، احسن اقبال
احسن اقبال مسلم لیگ نون کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں، نارووال کے حلقہ این اے 117 سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے، وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں۔ نارووال میں  تحریک انصاف کے رہنما اور گلوکار ابرارالحق کے مقابلے میں بھاری ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کینٹ پبلک سکول کراچی سے حاصل کی، اس کے بعد پی اے ایف پبلک سکول سرگودھا میں داخلہ لے لیا، اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور سے ڈگری لینے کے بعد امریکہ میں یونیورسٹی آف پنسلوینا سے بزنس کی ڈگری لی۔ ہاورڈ یونیورسٹی میں بھی زیرتعلیم رہے اور سیاسیات کی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کرکے وطن واپس آگئے۔ زیادہ وقت اپنے اہل خانہ کیساتھ گزارتے ہیں اور ٹی وی دیکھنے کے شوقین ہیں۔ اپنے سیاسی کیئرئر کا آغاز یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور میں 1980-81 میں اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا، آج بھی احسن اقبال اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ جماعت سے وابستگی نے انہیں سیاسی رموز سکھائے۔ بعدازاں 1988ء میں انہوں نے مسلم لیگ نون جوائن کرلی۔ چینی رہنما ڈنگ ژاؤ پنگ سے متاثر ہیں۔ لاہور میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے ساتھ ہونیوالی ان کی گفتگو کو قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
                                    
اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کا معاملہ اس وقت ہاٹ ایشو بنا ہوا ہے، انہیں سزا ملے گی یا وہ کسی ڈیل کے ذریعے بیرون ملک چلے جائیں گے۔؟ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نواز شریف اپنی حکومت گرائے جانے کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔؟
احسن اقبال: میاں نواز شریف نے اس حوالے سے واضح کہا ہے کہ مشرف کیس کا فیصلہ ہم نے نہیں بلکہ عدالت نے کرنا ہے، ان کے غداری کیس کی مدعی نواز لیگ نہیں بلکہ ریاست اور آئین ہیں۔ مشرف بیگناہ ہے یا مجرم، اس کا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے، عدلیہ نے ہی واضح کرنا ہے کہ 3 نومبر کو پاکستانی ریاست کی توہین ہوئی یا نہیں، آئین پامال کیا گیا یا نہیں، قانون کی نظر میں تو سب برابر ہیں۔ اس لئے پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف آزاد خودمختار اور غیر جانبدار عدلیہ نے کرنا ہے۔ نواز شریف ایک جمہوری اور آئینی وزیراعظم ہیں، وہ کسی کو قید کرا سکتے ہیں نہ رہائی دلا سکتے ہیں، قید و بند یا رہائی کا اختیار کلی طور پر عدلیہ کو حاصل ہے، جس طرح مسلمان بردار ممالک میں قاضیوں کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہاں کا بادشاہ بھی قاضی کے فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ پھر جس طرح ہم ہمسایہ ممالک کے فیصلوں میں اپنی رائے نہیں دے سکتے، اسی طرح ہمارے دوست ممالک بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ یہ تو محض افواہیں ہیں کہ فلاں ملک کا وزیر خارجہ یا فلاں فلاں ملک کا حکمران پرویز مشرف کے کیس میں مداخلت کر رہا ہے، لیکن حقیت میں ایسی کوئی بات نہیں۔ پرویز مشرف کا معاملہ آئین اور قانون کے سپرد ہے، اس لئے جب کیس عدالت میں ہے تو ہمیں فیصلوں پر اثرانداز ہونے سے گریز کرنا چاہئے۔

جس طرح کوئی عام آدمی قانون توڑتا ہے تو پھر قانون حرکت میں آجاتا ہے، اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف نے آئین توڑا اور قانون کی پاسداری نہیں کی، جس پر ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت خصوصی عدالت میں کیس ہے۔ اس سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ آج ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہوچکی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے حمایتی اور کاسہ لیس یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج مشرف پر مقدمے کی اجازت نہیں دے گی۔ وہ دراصل فوج کا تشخص مجروح کر رہے ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کا سربراہ سیاہ و سفید کا مالک ہے جو مرضی کرتا پھرے، وہ اسے قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ فوج کو جنگل کا ادارہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ فوج ایک مکمل ڈسپلن کا پابند ادارہ ہے۔ پچھلے پانچ سال میں فوج کی قیادت نے ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی ثابت کرکے بتا دیا ہے کہ وہ ملک میں آئین اور قانون کا پابند ادارہ ہے اور ملک کو آئین و قانون کے مطابق چلانے والے افراد ہی اس کو توڑیں گے تو پھر عام شہری کیسے آئین و قانون کا احترام کرے گا۔

اسی کو تو آئین کی حکمرانی کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی خواہ وہ صدر ہو یا وزیراعظم، جج ہو یا جرنیل، عام شہری ہو یا خاص فرد، جو کوئی بھی آئین اور قانون کو توڑے گا، ملک کا آئین و قانون اس کے خلاف حرکت میں آجائے گا۔ پرویز مشرف ایک آمر تھا، جس نے ملک کے آئین کو توڑا، آئینی اداروں کے تقدس کو پامال کیا، اس نے جب چاہا ملک کی تقدیر سے کھیلا، مگر اب قانون کی حکمرانی ہے، وزیراعظم ہو یا صدر سب آئین کے تابع ہیں، پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں۔ آمر تو کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا، یہ پہلا موقع ہے کہ ہمارے ہاں کسی آمر کا احتساب ہو رہا ہے۔ ہم پرویز مشرف سے اپنی حکومت گرانے کا بدلہ نہیں لے رہے اور نہ ہی ہم انتقام کی سیاست کی طرف جا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ ذاتی طور پر انہیں معاف کرچکے ہیں، مگر آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے مشرف کا ٹرائل کیا جا رہا ہے، اگر ہم انتقام کی سیاست کرتے تو جس طرح انہوں نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگائی تھیں، انہیں قید تنہائی اور کال کوٹھری میں رکھا، ہم بھی انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لاسکتے تھے، ہم نے تو انہیں اپنے محل میں رہنے کی اجازت دیدی، اور انہیں عدالت لانے کے لئے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے تھے، پرویز مشرف کو بھی مسلم لیگ نون کی قیادت کی طرح خندہ پیشانی سے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا چاہئے تھا۔

پرویز مشرف اگر سچا ہوتا تو سینہ تان کر مقدمے کا سامنا کرتا، مگر اس نے رات کے اندھیرے میں ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا، اس لئے وہ عدالت کا سامنا کرنے سے گھبرا گیا اور اس گھبراہٹ میں اسے ہسپتال میں پناہ لینا پڑی۔ اس قسم کی حرکات پیشہ ور قیدی کرتے ہیں، جو جعلی میڈیکل بنوا کر ہسپتالوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ مقدمے کا سامنا کرنے کی بجائے ہسپتال جا کر پرویز مشرف نے اپنے مرتبے کا بھی خیال نہیں کیا، جبکہ ہم نے تو انہیں پیشی کے لئے ہر ممکن سہولت فراہم کی تھی، ان کی سکیورٹی کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ جہاں تک پاکستان کے دوست ممالک کا تعلق ہے تو ہم ہی نہیں کوئی ملک بھی اپنے دوست ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔

اسلام ٹائمز۔ ملک اسوقت بہت سے مسائل کا شکار ہے، بحران در بحران درپیش ہیں، الطاف حسین نے ان حالات میں الگ صوبے کی بات کرکے مسائل میں اضافہ نہیں کر دیا۔؟
احسن اقبال: الطاف حسین نے الگ صوبے کا مطالبہ کرکے سیاسی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں کیا، اس بلیک میلنگ کا دروازہ پی پی پی نے کھولا تھا، جس نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے نئے صوبے کا بیج بویا تھا، آج اس کی فصل کو اسے سندھ میں کاٹنا پڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کا نعرہ لگا کر مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی مگر انتخابات میں عوام کی اکثریت نے ان کے نعرے کو مسترد کر دیا تھا، جب 2010ء میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی اٹھارہویں ترمیم کے لئے بنائی گئی تھی، اس میں سبھی نے اتفاق رائے سے کہا تھا کہ یہ نئے صوبوں سے متعلق بحث چھیڑنے کا وقت نہیں، اس سے ملک میں اختلافات پیدا ہوں گے، جس سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پیپلز پارٹی نے اس اتفاق رائے سے انحراف کرتے ہوئے اپنے سیاسی فائدے کیلئے جو نئے صوبے کا نعرہ لگایا، آج اسے اس کی سزا مل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی والے سیاسی فائدے کے لئے پنجاب کی تقسیم چاہتے تھے۔ الطاف حسین نے سیاسی فائدے کیلئے سندھ کی تقسیم کا نعرہ بلند کر دیا۔ حالانکہ یہ وقت متنازع امور کو چھیڑے کا نہیں۔ ہمیں اس قسم کے نعروں سے اجتناب کرنا ہوگا، اس سے داخلی استحکام متاثر ہوگا، جس سے ملک جو پہلے ہی معاشی طور پر کمزور ہے، اس کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بہر حال آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے صوبوں کو توڑنے کا جو بیج بویا تھا، آج وہ فصل خود اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں نے پیپلز پارٹی نے جو گڑھا نواز لیگ کیلئے کھودا تھا آج اسی میں خود گر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمہ کیلئے ماضی میں بھی متعدد آپریشن کئے جا چکے ہیں، کیا اب وزیراعظم کے اقدامات سے دہشتگردی اور بھتہ خوری کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔؟
احسن اقبال: وزیراعظم کراچی کے حالات بہتر بنانے کیلئے نہایت سنجیدہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کراچی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا تھا، جس میں کراچی کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کی منظوری دی گئی تھی۔ کراچی میں بھتہ خوری اور دہشتگردی ختم کرکے ہی اس کی تجارتی سرگرمیاں بحال ہوسکتی ہیں، کراچی میں فوج طلب کرنے کے مطالبے کی کسی سیاسی جماعت نے حمایت نہیں کی۔ اس لئے اکثریت کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت نے کراچی میں امن وامان بحال کرنے کی ذمہ داری رینجرز کے سپرد کی ہے، جو پولیس اور دیگر ایجنسیوں کیساتھ مل کر کراچی کو ڈکیتوں، ڈاکووں، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں سے نجات دلائے گی۔ مسلم لیگ نون کے مدنظر ہمیشہ کراچی میں امن بحال کرانا اولین ترجیح رہا ہے، ہم نے اپنے ہر دور میں آپریشن کرکے کراچی کی تجارتی و ثقافتی سرگرمیاں بحال کرائیں۔ ہماری حکومت سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر آپریشن کرنے پر یقین رکھتی ہے، آپریشن اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے، جب بلاتفریق آپریشن کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ہماری حکومت کی جانب سے کئے جانیوالے آپریشن سے مطمئن ہیں۔

اسلام ٹائمز: جی ایس پی پلس ملنے سے کیا ملک میں کوئی معاشی انقلاب آجائے گا، کیا ہماری اشیا کو اب یورپی منڈیوں تک رسائی مل جائے گی۔؟

احسن اقبال: ہمارا اس کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں کہ ہم ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال لائیں اور اس کی معیشت کو مضبوط و مستحکم اور پائیدار بنائیں گے، اس کیلئے ہم اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے۔ جی ایس پی پلس کی بدولت ملک کے صنعتی شعبہ کو نئی زندگی ملی ہے، اس کامیابی پر صنعت کار طبقہ بہت خوش ہے، اس لئے کہ جی ایس پی پلس کے حصول کیلئے ہم کافی عرصے سے کوشش کر رہے تھے، مگر یورپ ہمارے اپنے مسائل کے سبب ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا، مگر ہماری حکومت کی کوششیں رنگ لائیں اور جی ایس پی پلس کا اعزاز مل گیا، جس سے ہمارے ملک کا صنعتی شعبہ بالخصوص ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بڑا فروغ ملے گا۔ اس اعزاز کے ملنے کے بعد ابتدائی طور پر ملک میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے، مگر حکومت صنعتی شعبے میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے، جس کے نتیجہ میں ملک میں 2 ارب ڈالر کی برآمدی اشیاء تیار کی جائیں گی، اس طرح ہماری چیزوں کو یورپی منڈی میسر آئے گی، جس سے صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون کو لوگوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے ووٹ دیئے تھے مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا، پھر دیگر مسائل کیسے حل ہوں گے۔؟
احسن اقبال: بجلی کے مسئلے کو ہماری حکومت نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے، اس کو حل کرکے ہی مک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے، ہماری حکومت 5 سال کے اندر اندر ملک سے بجلی بحران پوری طرح ختم کر دے گی، اس سلسلہ میں کوششیں شروع کر دی گئیں ہیں۔ ہماری حکومت چینی کمپنیوں کیساتھ مل کر گڈانی کے مقام پر 6600 میگا واٹ بجلی اور تھر میں کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، اس کے علاوہ کئی ڈیم بنائے جا رہے ہیں، ہم پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کیلئے کوئلے، پانی اور گیس کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح شمسی توانائی سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے، تاکہ عوام کو جلد سے جلد لوڈشیڈنگ کی لعنت سے نجات مل سکے۔ وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے بجلی اور گیس چوروں کیخلاف جو آپریشن شروع کر رکھا ہے، اس سے بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی واقع ہوگی، اور سردیوں میں گیس بحال رکھنے کا فیصلہ بھی لائق تحسین ہے، ہم عوام کے تمام مسائل حل کرینگے، اس لئے کہ قوم نے جو اعتماد ہم پر کیا ہے، ہم اس پر پورا اترنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس منصوبہ بھی تو ہمارے اس بحران کا شافی علاج تھا، لیکن کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے اس کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔؟
احسن اقبال: نہیں بساط لپیٹنے کا تو کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اس حوالے سے امریکی دبائو بہرحال موجود ہے، لیکن ہم نے اپنے ملک اور قوم کے مفاد کے ملحوظ رکھنا ہے، اس حوالے سے نواز لیگ کی حکومت وہی فیصلہ کرے گی جو ملک کے مفاد میں ہوگا، ہماری ترجیح اپنے ملک کے مسائل کا حل ہے، ہماری حکومت اس حوالے سے چین کے ساتھ بھی معاہدے کر رہی ہے، بھارت کےساتھ بھی بہت سارے معاملات زیرغور ہیں اور ایران کے ساتھ گیس منصوبے کے حوالے سے کچھ پیچیدگیاں ضرور ہیں، لیکن انشاءاللہ اس کا کوئی نہ کوئی مثبت حل نکال لیں گے، ہم وہی کریں گے جس کا ہمارے ملک کو فائدہ ہوگا۔ اس حوالے سے بیرونی طاقتیں کچھ بے بنیاد رپورٹس بھی چلا رہی ہیں، لیکن ہماری ترجیح ملکی مفاد ہے۔

اسلام ٹائمز: کالا باغ ڈیم بنائے بغیر ہمارے خیال میں توانائی بحران کے جتنے بھی حل ہوں گے وہ یا تو عارضی ہوں گے یا پھر مہنگے، تو اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
احسن اقبال: تمام صوبے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پانی کا مسئلہ حل ہو جائے تو ملک خوشحال ہوسکتا ہے، مگر کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جا سکا، اس سلسلہ میں ماضی کے حکمرانوں اور سیاسی قیادت نے افہام و تفہیم کی فضا قائم نہ کی بلکہ بعض صوبوں کے متعصب رہنمائوں نے کالا باغ ڈیم کے خلاف ایسی فضا ہموار کر دی ہے کہ عوام نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا، جس کے سبب کالا باغ ڈیم نہ بن سکا، جس سے آج ہم بجلی اور پانی کے بحران کا شکار ہیں، اللہ تعالٰی بارشوں کی صورت میں ہر سال ہمیں وافر پانی سے نوازتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم اس پانی کو جمع کرنے میں ناکام رہے، پھر بجلی کی پیداوار میں کمی سے ٹیوب ویل کے پانی کی کمی پوری کرنے میں ناکام رہے، اس کے باوجود اگر ہمارے ہاں گندم پوری ہی نہیں بلکہ وافر مقدار میں پیدا ہو رہی ہے تو یہ اللہ تعالٰی کا فضل وکرم نہیں تو اور کیا ہے۔؟
 
پانی کا مسئلہ نہایت حساس ہے، دیگر ممالک میں ڈیم بنانے پر کسی طرح کا شور نہیں مچایا جاتا، نہ ہی رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے، اسے نہ سیاسی معاملہ بنایا جاتا ہے اور نہ علاقائی، لوگ اپنے ملک میں خوشحالی کیلئے ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہے ہیں، امریکہ نے کئی ریاستوں میں ڈیم بنائے، بھارت اپنے کئی صوبوں میں ڈیم بنا رہا ہے، مگر وہاں کسی صوبے کو اعتراض نہیں  ہوتا، ہمارے ہاں آبی وسائل قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں، جبکہ سب کو پتہ ہے کہ مستقبل میں زرعی معیشت کے حامل ممالک ہی خوشحال ہوں گے، اس لئے وہ لوگ اپنی ضروریات کے مطابق ڈیم بنا رہے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ایک ڈیم جو ملک کی تمام آبی ضروریات پوری کرسکتا تھا،  اسے بھی سیاست کی نذر کر دیا گیا۔ سیاستدانوں نے اس کو سیاسی مسئلہ بنا کر اپنی دکانیں خوب چمکائیں، مگر ملک آج بھی بجلی اور پانی کو ترس رہا ہے، یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے کاشتکار نے پانی کی کمی پر اپنی انتھک محنت اور جدید ٹیکنالوجی سے قابو پا لیا، ورنہ آج ہم گندم کے دانے دانے کو ترس رہے ہوتے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دہشتگردی کی لہر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ بھی الزام ہے کہ آپ کی جماعت دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہے۔؟
احسن اقبال: یہ لہر دراصل طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے اور اس حوالے سے ہماری حکومت نے پالیسی مرتب کی ہے اور دہشتگردی کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے، اس حوالے سے خصوصی انسداد دہشتگردی فورس بھی تیار کی ہے، جو اس حوالے سے کام کرے گی، اس کے علاوہ ہماری سکیورٹی فورسز بھی مصروف عمل ہیں، جہاں تک طالبان کیساتھ مذاکرات کی بات ہے تو اے پی سی میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ہمیں یہ اختیار دیا تھا اور ان جماعتوں کے فیصلہ پر ہی ہم نے مذاکرات کی حامی بھری تھی، لیکن کچھ بیرونی قوتیں طالبان کے ساتھ ہمارے مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دے رہیں۔ اس کیلئے جب بھی ہم مذاکرات کی بات شروع کرنے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی واردات ہو جاتی ہے اور پھر یہ عمل رک جاتا ہے، ہم نے اس حوالے سے کچھ علماء کی خدمات بھی حاصل کیں، لیکن اس معاملے میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اب ہم ایک اور حکمت عملی بنا رہے ہیں، جس کے تحت بہت جلد عوام خوش خبری سنیں گے اور ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ جہاں تک دہشتگردوں کی سرپرستی کا الزام ہے تو یہ محض الزام ہی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں، اگر ہم سرپرست ہوتے تو ہم کالعدم جماعتوں کے دہشتگردوں کو گرفتار نہ کرتے، آج بھی متعدد جیلوں میں بہت سے ایسے دہشتگرد موجود ہیں، جن کیساتھ ہماری وابستگی کا الزام لگایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: وہ بس قید ہی ہیں، ان کو کیفر کردار تک تو نہیں پہنچایا جا رہا نا، جبکہ عوامی حلقے تو یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، ان کو سزائیں ملیں گی تو دوسرے خوفزدہ ہوں گے نا، دوسرے تو حوصلہ پاتے ہیں کہ کون سا سزا ہو جانی ہے، ہم نے تو رہا ہی ہوجانا ہے۔؟
احسن اقبال: ہمارے اداروں کا کام دہشتگردوں کو گرفتار کرنا ہے، ان کو سزائیں دینا اور کیفر کردار تک پہنچانا عدالتوں کا کام ہے۔ اس حوالے سے یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، ریاست کی ذمہ داری ان کو گرفتار کرکے قانون کے سپرد کرنا ہے، اب قانون نے ان کو سزائیں دینی ہیں یا رہا کرنا ہے یہ ان کا معاملہ ہے، اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں، شروع میں میں نے عرض کیا تھا کہ ہمارے ملک میں عدلیہ آزاد ہے، ہم عدالتی معاملات میں مداخت نہیں کرتے، اس لئے حکومت سے یہ توقع نہ کی جائے کہ فلاں دہشتگرد کو نواز شریف پھانسی پر لٹکا دیں، نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ مجرموں کو سزائیں عدالتیں دیتی ہیں اور یہ ان کا کام ہے، حکومت اپنا کام احسن انداز میں کر رہی ہے، آپ دیکھیں کہ عید میلادالنبی، چہلم اور عاشورہ کے موقع پر ملک بھر میں مجموعی طور پر امن رہا تو یہ حکومت کی ذمہ داری تھی، جسے اس نے احسن انداز میں نبھایا ہے اور اس کو آئندہ بھی نبھاتی رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 342753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش