0
Thursday 23 Jan 2014 14:35

مکتب دیوبند واضح کرے وہ پاکستان کیساتھ کھڑا ہے یا طالبان کیساتھ، مفتی گلزار نعیمی

مکتب دیوبند واضح کرے وہ پاکستان کیساتھ کھڑا ہے یا طالبان کیساتھ، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ آپ نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک آپ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کے لیے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے حالیہ واقعات سمیت ملک کی مجموعی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ
                              

اسلام ٹائمز: مفتی صاحب کیا وجہ نظر آتی ہے کہ کبھی میلاد کے جلوسوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کبھی نواسہ رسول (ع) کی یاد میں نکالے جانے والے جلوس کو محدود کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔؟

مفتی گلزار نعیمی: یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگ چاہ رہے ہیں کہ مذہبی جلوس ختم کئے جائیں، اس کیلئے بہانہ یہ تراشا جا رہا ہے کہ سکیورٹی مسائل ہیں، لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے اصل باتیں کچھ اور ہیں، اصل مسئلہ انتہاء پسندانہ رویہ اور انتہاء پسند سوچ ہے جسے بے لگام چھوڑا جا رہا ہے، جس کے باعث یہ تمام مسائل جنم لے رہے ہیں۔ تشدد پسند رویے کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ تشدد پسند تنظیموں کو تمام وسائل مہیا کئے جا رہے ہیں، جہاں تک تعلق ہے کہ یہ جلوس ختم کر دئیے جائیں تو اتنا عرض کر دوں کہ ان جلوسوں کو کوئی ختم نہیں کرسکتا، یہ جلوس اپنی روایات کی وجہ سے قائم ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو تنظیمیں، افراد اور شخصیات ان جلوس کو رکوانے کی بات کر رہی ہیں وہ خود ریلیاں اور مظاہرے کر رہی ہیں۔ یہ تضاد کیوں ہے؟ رسول خدا (ص) اور نواسہ رسول (ع) کے جلوسوں پر ان کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔؟ کیا سکیورٹی مسائل سیاسی جلوسوں کو درپیش نہیں ہیں، ان کو بند کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا، کیوں میلاد اور عاشورہ کے جلوسوں کو ہی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔؟ اصل میں ان مطالبات کے پیچھے وہ تشدد پسندانہ رویہ ہے جسے سلفیت پرموٹ کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ جلوس اصل میں سلفیت کے عقائد کے سخت خلاف ہے، ان کے ذہنوں میں تشدد پرموٹ ہوگیا ہے، انہوں نے محبت کے جذبے کو ہی ختم کر دیا ہے۔ میلاد اور عاشورہ کے جلوس محبت کا اظہار ہیں رسول اکرم (ص) اور انکی اہل بیت (ع) سے، اس لئے یہ جلوس نکالے جاتے ہیں۔ یہ جلوس محبت، امن اور آشتی کو فروغ دینے کیلئے ہیں، ان پابندیوں کے مطالبے کا مطلب اس ملک سے محبت اور امن کا خاتمہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں ہونیوالی امن کانفرنس میں اس ایشو کو اٹھایا گیا کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کو زیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ قوتیں جنہوں نے اس کو بنایا تھا وہ متحد ہوجائیں۔ مسلک اور عقائد کی قید سے نکل کر۔؟

مفتی گلزار نعیمی: بہت اہم سوال کیا ہے، یہ بدقسمتی ہے کہ جن قوتوں نے پاکستان بنایا تھا، آج انہیں کارنر کیا جا رہا ہے، وہ قوتیں جو شروع دن سے پاکستان مخالف تھیں، انہیں اس ملک کی بھاگ دوڑ دی گئی۔ جہاں تک آپ نے شیعہ سنی اتحاد کی بات ہے تو یہ عین وقت کی ضرورت ہے، اہل تشیع اور اہل سنت کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ہماری روایات کی بقاء اور ہمارے مسالک کی بقاء اسی میں ہے کہ ہم مخالف قوتوں کیخلاف متحد ہو کر مقابلہ کریں۔ مخالف قوتوں کو بھرپور جواب دیا جائے، اگر جواب ملے تو شائد یہ چیزیں ٹھہر سکیں یا روک سکیں، ورگرنہ اگر ہم یونہی خاموش رہے، علماء قتل ہوتے رہے، روایات قتل ہوتی رہیں تو پھر وہی لوگ اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لیں گے جن سے کوئی توقع نہیں۔ ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کی طرف سے ہونے والی قومی امن کانفرنس بہت خوش آئند بات ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اگر اہل سنت اور اہل تشیع کی حقیقی لیڈرشپ سامنے آئے تو یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں، اس طرح ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، کامیاب کانفرنس کرانے پر دونوں جماعتوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جس سے اس ملک کو بچایا جاسکے۔ ایسی قوتوں کو روکا جاسکے جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کالعدم جماعت اپنی ریلیوں میں کھلے عام اسلحہ کی نمائش کرتی ہے، اس سال بھی میلاد کے جلسوں پر کئی حملے سامنے آچکے ہیں، لیکن پنجاب حکومت ٹس سے مس تک نہیں ہوئی۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟

مفتی گلزار نعیمی: اصل میں پنجاب حکومت میں چند افراد اہم وزارتوں پر براجمان ہوگئے ہیں، جو تشدد پسندانہ رویہ رکھنی والی تنظیموں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ انہی تنظیموں کی بساکھیوں پر چڑھ کر وہ اسمبلیوں میں داخل ہوئے ہیں، اب اصل میں وہ چاہ رہے ہیں کہ ان تنظیموں کی سوچ اور عقائد کو دوسرے مسالک پر مسلط کر دیا جائے، یہ اتنا قابل مذمت عمل ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ پاکستان کی 65ء سالہ تاریخ میں کبھی ان جلوسوں پر اسلحہ نہیں اٹھایا گیا، جتنا آج پنجاب حکومت کے ایماء پر اسلحہ اٹھایا جا رہا ہے۔ میں پنجاب حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اہل سنت کو پرامن ہی رہنے دیں، اسی میں پاکستان کی بقاء ہے، اگر پاکستان میں اکثریت رکھنے والے مسلک کے خلاف اسلحہ اٹھایا لیا گیا اور حکومت خاموش رہی اور جوابی کارروائی ہوئی تو اس سے ملک کا امن و سکون تباہ برباد ہو جائے گا، جو کسی کیلئے خیر کا پیغام نہیں رکھتا۔

اسلام ٹائمز: سعودی وزیر خارجہ پاکستان آئے، اور پاکستان کے مشیر خارجہ نے ان سے امن کی بھیک مانگی ہے۔ کیسے دیکھتے ہیں۔؟

مفتی گلزار نعیمی: اس پر مجھے میر کا شعر یاد آتا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

آج اگر سعودی عرب امت مسلمہ میں جانبدارانہ کردار ادا نہ کرتا اور واقعی ایک رول ماڈل کے تحت امت مسلمہ کے سامنے آتا تو آج امت میں تشدد پسندانہ رویہ جنم ہی نہ لیتا، آل سعود کو جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا کہ وہ اس نے نہیں کیا۔ آج پوری دنیا میں سلفیت اسلحہ کی نوک پر اپنی سوچ اور اپنے خیالات مسلط کر رہی ہے، اس کے پیچھے یہی سعودی عرب ہے۔ اگر سعودی عرب اپنے اس رویہ پر نظرثانی کرے اور دیکھے کہ امت مسلمہ کے تمام مسالک مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے خون کی حرمت تمام مسلمان کے برابر ہے، اس لئے انتہاء پسندانہ رویہ کو سپورٹ کرنا چھوڑ دے۔ مصر اور دیگر ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہاں آل سعود متشددانہ رویہ کو پرموٹ کر رہا ہے، دنیا اسلام میں حرمین شریفین کو ایک خاص مقام حاصل ہے، انہیں اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ خانہ کعبہ کی فرمانروائی سعودی عرب کے پاس ہے اور لوگ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں اس کا خاص  خیال کرنا چاہیے۔ دنیا اور بالخصوص پاکستان میں سعودی عرب کو کسی ایک خاص فرقہ کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے جو اپنی خاص سوچ اور تشدد پسندانہ رویہ دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عریبیہ کو پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب فکر کا احترام کرنا چاہیے، شیعہ سنی تمام مسالک سے اسے تعاون کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ مزید اسی طرح زیادہ دیر تک چل سکتا ہے۔؟

مفتی گلزار نعیمی: یہ رویہ مزید نہیں چل سکتا، یہاں میں اتنا عرض کروں کہ ہمارے اندر کچھ تحریکیں اٹھ رہی ہیں، حتٰی کچھ علماء واشگاف انداز میں کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کا یہ رویہ درست نہیں ہے اور یہ رویہ ہمارے ملک کی بقاء کیلئے درست نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم سعودی عرب کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ تمام مسالک کی رہنمائی کرے اور ان کو ایک آنکھ سے دیکھے، یہ جو ایک پر نظر کرم اور دوسرے کو مٹانے کی سوچ ہے، اس کے باعث ہمارے ملک میں مسائل جنم لے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان کی جانب سے تسلسل کے ساتھ ہمارے سکیورٹی اداروں اور عام عوام پر حملے جاری ہیں، دوسری جانب اب بھی کچھ قوتیں مذاکرات مذاکرات کا راگ الاپ رہی ہیں۔ کیا اب وقت انہیں آگیا کہ ریاست اپنی رٹ منوائے۔؟

مفتی گلزار نعیمی: مذاکرات ایک ڈرامہ ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، باغیوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوتے، باغیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ریاست کے قوانین کو تسلیم کریں یا پھر اپنی تباہی کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ مذاکرات کیا چیز ہے؟، اس کا مطلب ہے کہ آپ نے انہیں فریق سمجھ لیا ہے۔ اس انداز میں مذاکرات شروع کئے جائیں کہ انہیں ایک پارٹی اور فریق مان لیا جائے، یہ ایک انتہائی کمزور ریاست کی نشانیاں ہیں۔ ایک بڑی ایٹمی ریاست، جس کی فوج لاکھوں میں ہے، اس ملک میں کچھ عناصر کھڑے ہو کر چیلنج کرنا شروع کر دیں اور ہم مذاکرات کا راگ الاپیں تو یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ آخر یہ طالبان کون ہیں؟، واشگاف الفاظ میں کہوں تو یہی کہ طالبان مولانا سمیع الحق کے مدرسے اکوڑہ خٹک کے پڑھے ہوئے ہیں جن کی بنیاد دیوبندیت ہے۔ اگر پورے پاکستان میں ان کے حمایتی دیکھیں تو وہ دیوبندی ہیں، جو انہیں سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ طالبان پاکستان کی چولیں ہلا رہے ہیں۔ ہمیں یہ مطالبہ دیوبندیوں سے کرنا چاہیے کہ اگر تم سمجھتے ہیں کہ طالبان حق پر ہیں تو آپ واشگاف انداز میں ان کا ساتھ دیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور اگر سمجھتے کہ وہ حق پر نہیں ہیں تو ان کے مقابلے میں آپ حکومت اور ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کے عمل سے اظہار برات کریں۔ اس کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے، جب طالبان پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو یہ پریشان ہوجاتے ہیں اور جب وہ کھلے عام بیگناہوں کا قتل عام کرتے ہیں یہ فقط اتنے کہہ دیتے ہیں کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اتنا کافی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون کی حکومت کو آٹھ ماہ بیت گئے ہیں، اس کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟

مفتی گلزار نعیمی: حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہے، تاہم ہمارے پیش نظر یہ چیز ضرور ہے کہ پچھلی حکومتوں اور بالخصوص کافی عرصہ فوجی آمر برسر اقتدار رہا ہے، جس نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، حکومت خود بھی کہتی ہے کہ ابھی ہم معیشت کی بنیادیں درست کر رہے ہیں۔ حکومتیں عوام الناس کی فلاح و بہود کیلئے ہوتی ہیں، اگر وہ ان کی فلاح و بہود کیلئے اقدامات نہیں کرتیں تو وہ ناکام ہو جایا کرتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کیس کے حوالے کیا کہیں گے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: پرویز مشرف جس نے ملک کو تباہ و برباد کیا ہے، جس نے پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنایا ہے، جس نے پاک فوج کو بدنامی کا داغ لگایا ہے، اب اس کو محفوظ کرنے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اگر سیاستدان کوئی کام کرے تو اسے پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا جاتا ہے لیکن ایک آمر کو بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر احتساب کرنا ہے تو تین نومبر سے ہی کیوں، بارہ اکتوبر سے کیوں شروع نہیں کیا جاتا۔ پھر جس جس نے مشرف کے اقدام کو سپورٹ کیا انہیں بھی احتساب کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: جی بات ٹھیک ہے، جس جس نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، انہیں احتساب کے مرحلے سے گزرنا چاہیے، پی سی او ججز سمیت تمام ان افراد کو قطار میں کھڑا کرنا چاہیے، جنہوں نے مشرف کے آئین کی خلاف ورزی میں سپورٹ کیا۔
خبر کا کوڈ : 344072
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش