1
0
Wednesday 14 May 2014 21:12

گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ ہے، شبیر حسین

گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ ہے، شبیر حسین
انجینئر شبیر حسین کا تعلق کھرمنگ حمزی گونڈ سے ہے۔ ابتدائی تعلیم کھرمنگ سے حاصل کرنے بعد اسکردو آئے جہاں انہوں نے امتیازی نمبروں سے میٹرک کرنے کے بعد معرفی ہاسٹل کراچی سے سکالرشپ حاصل کر کے ایف ایس سی کی۔ ایف ایس سی کے بعد میرپور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی، تب سے ٹیلی کام کے شبعے سے منسلک ہیں۔ آپ بلتستان کی معروف سیاسی و سماجی تنظیم شہید اسد زیدی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور سماجی شعبوں میں پچھلے چند سالوں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان کی حالیہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان میں حامد میر پر حملے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، بعض کالعدم تنظیمیں بھی آرمی کے حق میں ریلیاں نکال رہی ہیں، بہت سے لوگ آرمی کے حق میں بیانات دے کر اپنی ساکھ کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آپ اس ایشو کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟۔
شبیر حسین: حامد میر پر حملہ میرے لیے افسوسناک تھا، اس حملے سے پاکستان کے بارے میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ یہاں کوئی محفوظ نہیں لیکن اس سے زیادہ افسوسناک امر ایک میڈیا گروپ کی جانب سے فوج اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے الزامات اور اس کے نتیجے میں ہمارے دشمن ممالک کی طرف سے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش تھی۔ میڈیا گروپ کا باقاعدہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر کے ساتھ الزامات ایک
سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ جہاں تک کالعدم تنظیموں کا فوج کے حق میں ریلیاں نکالنے کا تعلق ہے وہ تو قتل کرنے کے بعد رونے کی اداکاری کرنے جیسا ہے تاکہ وہ قتل کے الزام سے بچ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حامد میر پر حملے کے حوالے جو کمیشن بنایا گیا ہے اس کو مکمل آزادی سے کام کرنے دیا جانا چاہیئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم میں جو انکوائری ہوئی اسکے نتائج کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟۔
 
شبیر حسین: محکمہ تعلیم میں جو انکوائری ہوئی وہ محض ایک ڈھونگ ثابت ہوئی۔ اس ساری انکوائری اور اسکے کے بعد غیرقانونی طور پر تقرر ہونیوالے اساتذہ کی دوبارہ بحالی سے گلگت بلتستان میں ہر ناجائز اور غیرقانونی کام کو قانونی تحفظ مل گیا۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ غیر قانونی ثابت ہونے اور اس کے نتیجے میں ہونیوالے انٹرویو میں فیل ہونوالے اساتذہ کو بھی بحال کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ واقعی یہاں گلگت بلتستان میں قانون نامی کسی شے کا وجود نہیں ہے۔ اس سے کرپٹ لوگوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں۔ جو گلگت بلتستان کے مستقبل کے لیے افسوسناک بات ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان نے گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ میں نے ایک نہایت متحرک اور ساری زندگی گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیت سے پوچھا کہ کیا گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کے مطالبے
کے علاوہ کوئی اور ایسا مطالبہ ہے کہ جو عوام نے سڑکوں پر حل کیا ہو، ان کا جواب نفی میں تھا۔ اس کا مطلب ہوا کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان کے عوام کی طاقت کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سمیت تمام اہم مطالبات منوانے کے لیے اچھے نتائج  حاصل ہو سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار رہا ہے؟۔
شبیر حسین: گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں اسٹیبلشمنٹ کے کرادر کے حوالے سے میں یہ کہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا اہم کرادار یہاں کی تعمیر و ترقی میں ضرور رہا ہے اور میں اسٹیبلشمنٹ کو گلگت بلتستان کے آئینی حقوق میں رکاوٹ سمجھتا ہوں۔ 67 سالوں سے اگر گلگت بلتستان اپنے بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں تو اس کی سب سے زیادہ ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: عوامی ایکشن کمیٹی کے کامیاب دھرنوں کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اس کے فوائد اور کس طرح کے خدشات موجود ہیں۔؟
شبیر حسین: گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی بحالی کی تحریک گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی جس نے چلاس سے لیکر کھرمنگ بارڈر کے عوام کو مسلکی، علاقائی، لسانی تفرقات کو مٹا کر ایک قوم بنا دیا۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے درپے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا۔ گلگت بلتستان کے بکھرے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو کر ایک عوامی طاقت بنا دیا۔ جس نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر
مجبور کر کے عوام کے مطالبات منوا لیے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی تحریک نے تمام تر مذہبی، لسانی و علاقائی تفرقات کو مٹا کر ایک عظیم وحدت میں بدل دیا ہے، اس میں دوام کے لیے کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس راہ میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟۔

شبیر حسین: چلاس گلگت سے ایکشن کمیٹی کے وفد کی اسکردو آمد اور عوامی پذیرائی نے یہ ثابت کر دیا کہ قیادت کی سطح پہ ہم ایک ہونا چاہیں تو عوام سارے زخم بھول کر ایک ہونے کو تیار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وحدت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ امن دشمن عناصر اس وحدت کو ایک دفعہ پھر پارہ پارہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس سے ہوشیار رہنا چاہیئے اس وحدت کو مزید پختہ کرنے کے لیے ہمیں مزید بہت سارے اقدامات کی ضرورت ہیں۔ جس کے دیامیر کے عوام کا بلتستان، نگر کا دورہ اور بلتستان کے عوام کا دیامیر کا دورہ بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں دونوں طرف کے ماضی کے بدنما چہرے کو بدل کر ایک قوم بن کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں کس نعروں کیساتھ میدان میں اترے گی اور یہاں یہ تاثر قائم ہے کہ ہمیشہ وفاق میں جو حکومتیں ہوتی ہیں جی بی میں انہی کی فتح ہوتی ہیں؟۔
شبیر حسین: پاکستان مسلم لیگ نون آئندہ سابقہ پی پی کی حکومت کی طرح کے وعدے وعید کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں گے اس سلسلے میں الیکشن کے قریب پیپلز پارٹی کی طرف سے اعلان کردہ لولی پاپ صوبائی سیٹ اپ کی طرح کا کوئی حربہ بھی آزمایا جا سکتا ہے۔
لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ اب عوام باشعور ہو چکے ہیں آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ نون اور پی پی پی کا مستقبل بھیانک ہے۔ یہ تاثر غلط ثابت ہوگا کہ جو بھی وفاق میں حکومت ہوگی گلگت بلتستان میں اسی کی حکومت ہوگی۔ دراصل ہوتا یہ رہا ہے کہ فصلی بٹیر اور لوٹے وفاق میں حکومت کو دیکھ کر اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے لگے ہیں لیکن اب عوام انہیں مسترد کر دیں گے اور اس تاثر کو غلط ثابت کر دیں گے۔ حالیہ دھرنوں کے بعد میں بہت پرامید ہوں کہ عوام اپنے حقوق کے لیے جھوٹے وعدوں پر ہر کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ انتخابات میں گلگت بلتستان میں کس پارٹی کی کامیابی کے امکانات ہیں؟۔

شبیر حسین: آئندہ انتخابات میں کسی پارٹی کی کامیابی کے حوالے سے پیشن گوئی کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ آئندہ سیاسی پارٹیوں کی نسبت مذہبی سیاسی پارٹیاں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں گی۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی بیڈ گورننس، کرپشن، اقرباء پروری اور لوٹ کھسوٹ نے اس پارٹی کو جو یہاں کی ایک مقبول پارٹی تھی کی مقبولیت کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ نون لیگ کو تو گلگت بلتستان میں اتنی پذیرائی کبھی نہیں ملتی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی سیاسی پارٹیاں اس بار بازی لے جائیں گی۔ حالیہ دھرنوں سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے بیزار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں مجلس وحدت مسلمین آئندہ کے انتخابات میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھر سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 382339
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

muhammad raza
Pakistan
ستر فیصد اتفاق کرتا ہوں۔
ہماری پیشکش