0
Wednesday 26 Nov 2014 20:03
روشنیوں کا شہر اب لاشوں کا شہر بن چکا ہے

پاکستان کی سیاست زر اور شر کی لپیٹ میں ہے، حاجی حنیف طیب

جس کو منور حسن صاحب جہاد قرار دیتے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے
پاکستان کی سیاست زر اور شر کی لپیٹ میں ہے، حاجی حنیف طیب
حاجی حنیف طیب نظام مصطفٰی پارٹی کے سربراہ اور اہلسنت جماعتوں کے معروف اتحاد ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ حاجی حنیف طیب انجمن طلباء اسلام جیسی طلباء کی نظریاتی تنظیم کے بانی بھی ہیں۔ سیاست کے کارزار میں بھی عوامی خدمت سرانجام دے چکے ہیں، متعدد بار وزیر رہے ہیں۔ آج کل نظام مصطفٰی پارٹی اور سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، شیعہ سنی اتحاد کے حامی اور امت کی وحدت کے قائل ہیں۔ گذشتہ روز ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کے ساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آج کل ہمارے ملک میں انقلاب اور تبدیلی کی لہر چلی ہوئی ہے، کیا انتخابی اصلاحات کے بغیر نیا پاکستان وجود میں آسکتا ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: ہمارے ہاں اب تک یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولنگ کے دوران دھاندلی سے اور پیسے کے بے دریغ استعمال سے انتخابات کے نتائج چرا لئے جاتے ہیں پھر جمہوری حکومت نے سوا سال کے عرصہ میں کچھ ڈلیور کیا ہوتا، یا عوام کے مسائل حل کئے ہوتے تو آج تبدیلی یا انقلاب کے نعرے نہ لگتے۔ یہ سچ ہے کہ پچھلے 65 سال سے 65 خاندانوں نے سیاست و اقتدار کو یرغمال بنایا ہوا ہے، پاکستان میں سیاست بذریعہ دولت اور دولت بذریعہ سیاست کا فارمولا چلتا ہے۔ اپنی جماعتوں کے اندر آمریت قائم کرنے والے جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ اسمبلی میں پہلے دادا، پھر باپ اور اب بیٹے براجمان ہیں۔ جو استحصالی ظالمانہ نظام کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن جیتے جاتے ہیں اور جیت کر اربوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ الیکشن میں اہلیت کا نہیں دولت کا مقابلہ ہوتا ہے، پاکستان میں رول آف لا نہیں رول آف رولر چلتا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ جلد از جلد انتخابی اصلاحات کی جائیں، الیکشن میں پیسے کا بے پناہ استعمال اور پولنگ کے موقع پر جعلسازی اور دھاندلی روکنے کے لئے موثر قانون سازی اور اس عمل ضروری قرار دیا جائے۔ آئین کی شق نمبر 62 اور 63 پر عمل یقینی بناتے ہوئے کرپٹ، بدکردار، چوروں اور لٹیروں
کا انتخابی عمل میں داخلہ روکنا ہوگا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کا جو مسودہ حکومت کو بھجوایا تھا وہ تاحال قانونی شکل اختیار نہیں کرسکا۔

اسلام ٹائمز: حکومت کہہ رہی ہے یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے، مخالفین کہتے ہیں کہ ہم اس جمہوریت کو ہی نہیں مانتے یہ تو جعلی جمہوریت ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: میں سمجھتا ہوں کہ جعلی جمہوریت کی بات اس لئے کی جا رہی ہے کہ آج تک جمہوریت کے سارے ثمرات مراعات یافتہ طبقے نے ہی سمیٹے ہیں۔ عوام کی جھولیاں کل بھی خالی تھیں آج بھی خالی ہیں، عوام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جمہوریت ہو یا آمریت ہمارے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں، اس لئے ہم جمہوریت کے لئے کیوں قربانی کے بکرے بنیں جبکہ جمہوریت کا فائدہ صرف حکمران اشرافیہ ہی اٹھاتی ہے۔ یہ ملک حکام کے لئے عشرت کدہ اور عوام کے لئے ظلم کدہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی سیاست زر اور شر کی لپیٹ میں ہے، غریبوں کے لائق اور قابل بچے ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جبکہ دولت کے زور پر سیاست کرنے والوں کے نالائق اور نااہل بیٹے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد میں اسلام آئے گا تو پاکستان بچے گا اور ملک ترقی کرے گا۔ انقلاب نظام مصطفٰی ہی قوم کی آخری امید ہے، ہم ایوانوں سے میدانوں تک نظام مصطفٰی کی آواز اٹھاتے رہیں گے اور نظام مصطفٰی کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ نظام مصطفٰی ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ اس لئے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا مطالبہ درست ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر شفاف الیکشن ممکن نہیں۔ اگر گذشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے جون 2012ء کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کر لیتا تو آج یہ حالات دیکھنے نہ پڑتے۔ آئین کی رو کے مطابق بینک ڈلفالٹرز، قرضے معاف کروانے والے اور ٹیکس چوروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہی دی جاتی تو آج اسمبلیوں میں ملک کے خیر خواہ اور اہلیت رکھنے والے افراد بیٹھے ہوتے ہیں۔ انقلاب یا تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات جلد طے کی جائیں، دھونس دھاندلی کے بغیر انتخات منعقد ہوں تو ملک
میں انقلاب بھی آجائے گا اور تبدیلی بھی اور اس کے بعد نیا پاکستان وجود میں آجائے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک کے سیاسی منظر نامے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجموعی ملکی صورتحال اور مسائل پر آپکا کیا ردعمل ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: بدقسمتی سے ملکی حالات انتہائی مایوس کن ہیں، غربت اور افلاس نے غریب عوام کو زندہ لاشیں بنا دیا ہے، مہنگائی کا سورج سوا نیزے پر ہے، بے روز گاری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب نے نظام زندگی مفلوج اور عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں کاروبار تباہ اور انڈسٹسری آخری سانسیں لے رہی ہیں، مسائل زدہ اور مفلوک الحال عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، قومی خزانے کو عوامی مسائل کے حل کی بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں پر بے دردی سے لٹایا جا رہا ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ، لسانی فسادات، فرقہ واریت، قتل و غارت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن الزام تراشیوں، پوائنٹ سکورنگ اور بے معنی محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ آدھے سیاست دان حکومت بچانے اور آدھے حکومت گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ نیب کے ایک سابق چیئرمین کے مطابق پاکستان معیشت کے صرف 3 شعبوں میں یومیہ 5 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اس طرح قومی خزانے کو سالانہ 18 سو ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی سازشیں بھی تو پاکستان کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔؟
حاجی حنیف طیب: جی بالکل! امریکہ، اسرائیل اور بھارت پاکستان کے خلاف نت نئی سازشوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران اور سیاستدان عالمی سازشوں کے مقابلے کے لئے قوم کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کر رہے ہیں حالانکہ خطرات میں گھرے ہوئے پاکستان کو اس وقت قومی اتحاد اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اس لئے حکمران اور سیاست دان ہوش کے ناخن لیں اور بے معنی محاذ آرائی کے ذریعے حالات کو 90ء کی دہائی کی طرف نہ لے جائیں۔ سارے سیاست دانوں کی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا نہ ہوا تو بھاری بوٹوں کی آواز سب کو خاموش کرا دے گی اور دما دم مست قلندر
کا راستہ اختیار کیا گیا تو سب کا نقصان ہوگا اور غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاستدان آمریتوں کے دور میں خاموش رہتے ہیں جبکہ جمہوری دور میں آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ وقت اپنی اپنی سیاست نہیں ریاست بچانے کا ہے۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن عوامی مسائل کے حل اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ‘‘میثاق پاکستان’’ کے نام سے نیشنل ایجنڈا تیار کریں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں امریکی غلامی سے آزادی، دہشت گردی کے خاتمہ اور توانائی بحران کے خلاف ایجنڈے پر متحد ہوجائیں اور متفقہ قومی لائحہ عمل تیار کرکے یکساں پالیسی اختیار کریں۔

اسلام ٹائمز:آپکا تعلق کراچی سے ہے، کراچی مسلسل بدامنی کا شکار ہے، آپکے خیال میں کراچی کے حالات کی خرابی کے اسباب کیا ہیں اور کراچی میں امن کا قیام کیسے ممکن ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: کراچی پاکستان کا دل اور معاشی شہ رگ ہے، کراچی روشنیوں کا شہر تھا لیکن اب لاشوں کا شہر بن چکا ہے، آج کراچی لہو لہان ہے۔ کراچی کو کرچی کرچی کیا جا رہا ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہر قائد کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ عالمی سازش کے تحت کراچی میں لسانی تنازعات کو ہوا دے کر خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے تباہ کرکے ناکام ریاست بنایا جا سکے۔ کراچی عالمی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کراچی میں کئی سال سے بندوق اور بارود کا راج ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں آپس میں لڑ کر بے گناہ معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہیں۔ کراچی میں بدامنی کے ذمہ دار لسانی اور لبرل طالبان ہیں۔ کراچی میں قیام امن کے لئے گولی اور گالی کے کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ بلٹ کی بجائے بیلٹ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ کراچی اسلحہ کا ڈپو بن چکا ہے جبکہ پائیدار امن کے لئے کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا۔ بھتہ خور، دہشت گردوں، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر نے کراچی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جب تک تمام قانون شکن عناصر کو ریاستی گرفت میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک کراچی میں امن ممکن نہیں۔ کراچی میں بدامنی کے خاتمہ
کے لئے تمام جماعیں جرائم پیشہ غنڈہ عناصر کو اپنی صفوں سے نکالیں، اور تمام جماعتیں مجرموں کی حمایت نہ کرنے کا حلف اٹھائیں۔ لسانی تعصبات کو چھوڑ کر پاکستانیت کی سوچ اپنانا ہی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ کراچی کی تمام جماعتیں جیو اور جینے دو کا اصول اپنائیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پروان چڑھائیں، نظریات کا مقابلہ طاقت کی بجائے نظریات سے کرنے کی روش اپنا کر کراچی کا امن بحال کیا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سنی اتحاد کونسل کے ساتھ آپکے اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں، ان میں کوئی صداقت ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: ایسی بات نہیں، میں اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث کونسل کو کچھ وقت نہیں دے سکا اور نہ ہی کسی اجلاس میں شریک ہوسکا ہوں، میری مصروفیت کو بہانہ بنا کر میڈیا میں کچھ خبریں گردش کر رہی تھی کہ میں چونکہ اجلاسوں میں شریک نہیں ہو رہا، اس لئے میں الگ ہو رہا ہوں، ایسا نہیں ہے، ہم صاحبزادہ حامد رضا کی قیادت میں متحد ہیں۔ حامد رضا صاحبزادہ فضل کریم کے حقیقی جانشین ہیں اور ان کی سوچ اپنے والد کی طرح ہے۔ اہلسنت کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں صاحبزادہ حامد رضا جیسی صالح اور نڈر قیادت ملی ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر حق اور سچ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے، کسی سے ڈرتے نہیں، دہشت گردی کے خلاف سنی اتحاد کونسل نے دوٹوک موقف اختیار کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے جہاد اور قتال کا جو جوشیلا خطاب کیا ہے، اسکے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
حاجی حنیف طیب: منور حسن صاحب اسی طرح کا ایک متنازع بیان دے کر پہلے جماعت اسلامی کی امارت سے ہاتھ دھو چکے ہیں، اب پھر نجانے کس کے ایما پر انہوں نے یہ خطاب کر ڈالا۔ جہاد اور قتال کا جو فلسفہ انہوں نے بیان کیا ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ جہاد ریاست کرتی ہے، کسی کو ذاتی طور پر جہاد کا حق نہیں اور جس کو منور حسن صاحب جہاد قرار دیتے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے، کل تک جماعت اسلامی امریکہ کے لئے جہاد کرتی رہی ہے اور آج نجانے کس کے لئے جہاد کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ پاکستان میں تو تمام مسلمان ہیں، جو غیر مسلم ہیں وہ بھی پاکستان کے آئین کو تسلم کرتے ہیں
اور پاکستان کا آئین انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے، تو منور حسن نجانے کس کے خلاف جہاد کا اعلان کر رہے ہیں۔ ماضی میں جہاد کے ‘‘ثمرات’’ یہ اٹھائے گئے کہ امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، مساجد میں خون کی ہولیاں کھیلی گئیں، درباروں پر بم دھماکے کروائے گئے تو اگر یہ جہاد ہے تو حکومت کو منور حسن کے اس اعلان بغاوت پر ایکشن لینا چاہیے اور سراج الحق کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے کہ منور حسن کا خطاب جماعت اسلامی کا موقف ہے یا منور حسن کی ذاتی رائے۔ بہرحال امن پسند طبقوں میں منور حسن کے خطاب کے بعد تشویش پائی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں داعش کی موجودگی کی بھی باتیں ہو رہی ہیں، انہیں خوش آمدید کہا جا رہا ہے، داعش کے سٹیکر اور پوسٹر لگائے جا رہے ہیں۔؟؟
حاجی حنیف طیب: میرے خیال میں ابھی داعش پاکستان میں داخل نہیں ہوئی البتہ تکفیری گروہ اور دہشت گرد جو آپریشن ضرب عضب کے بعد تنہا ہوگئے ہیں اور انہیں اب کسی سہارے کی ضرورت ہے تو وہ گروہ ایسی چاکنگ کر رہے ہیں اور داعش کے سٹیکر لگا کر انہیں متوجہ کر رہے ہیں کہ داعش پاکستان آجائے۔ لیکن داعش ابھی عراق و شام کے وسائل پر قبضے میں مصروف ہے، وہ جلدی وہاں سے کسی اور ملک اپنی سرگرمی منتقل نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت نرم گوشہ رکھتی ہے، اسے دہشت گردوں کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، شہباز شریف اپنے اردگرد نظر رکھیں، کچھ لوگ ان کے ساتھ دوست کے روپ میں دشمن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شریف برادران کو خواجوں اور رانوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک دہشت گردوں کی بات ہے تو آپریشن ضرب عضب کے بعد ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، وہ بکھر چکے ہیں اب حکومت کو چاہیے کہ فوج کے ہاتھ مضبوط کرے اور پنجاب بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے۔ فوج وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے، حکومت اور سول ادارے ان علاقوں میں آ کر پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں، پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے اور فوج کو اپنا دائرہ کار وزیرستان سے بڑھا کر پورے ملک میں پھیلانا ہوگا، ورنہ اس آپریشن کے ثمرات وہ نہیں ملیں گے جو ملنے چاہییں۔
خبر کا کوڈ : 421525
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش