1
0
Wednesday 10 Jun 2015 21:30
بعض تحفظات کے باوجود عوام کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں

ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے عوام کیساتھ پوری طاقت سے کھڑی ہے اور انشاءاللہ کھڑی رہیگی، ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے عوام کیساتھ پوری طاقت سے کھڑی ہے اور انشاءاللہ کھڑی رہیگی، ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی
ڈاکٹر علامہ شفقت حسین شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ امور کے سربراہ ہیں۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں وہ ایم ڈبلیو ایم کی الیکشن کمپیئن ٹیم کا باقاعدہ حصہ تھے۔ جی بی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کی کارکردگی اور مسلم لیگ نون کی کامیابی کی وجوہات کے بارے میں ان سے لیا گیا تازہ انٹرویو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان الیکشن میں عوام نے ایم ڈبلیو ایم کا کس حد تک ساتھ دیا۔؟
علامہ شفقت شیرازی:
گلگت بلتستان کے عوام نے ایم ڈبلیو ایم کے قائدین کے استقبال میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلسوں سے بتا دیا کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اتنے بڑی سطح کے سیاسی اجتماعات ہوئے کہ جن کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے جلسے بھی ناکام نظر آتے تھے۔ عوام کی ایم ڈبلیو ایم سے محبت ملت تشیع کے لئے کی جانے والی خدمات کی وجہ سے ہے۔ جن میں بالعموم پاکستان بھر میں اور بالخصوص اس خطے کے عوام کے حقوق کے لئے کی جانے والی کوششیں ہیں، لیکن یہاں کے خطے کے فقر، محرومی، سادگی سے سوء استفادہ کیا گیا۔ ہم مایوس ہونے والے نہیں ہیں، یہ خطہ تشیع کی طاقت کا سرچشمہ ہے اور یہاں مزید بصیرت و آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کے سیاسی فیصلہ جات الیکشن میں کس حد تک موثر ثابت ہوئے۔؟
علامہ شفقت شیرازی:
ایم ڈبلیو ایم سیاسی میدان میں نووارد جماعت ہے، جبکہ پاکستان کے اندر سیاست میں کامیابی کے لئے وقت لگتا ہے اور بہت سی چیزیں پاکستانی سیاست میں وقت لیتی ہیں۔ پھر بھی ہماری قیادت نے بصیرت کا مظاہرہ کیا اور مقامی عہدیداران کے ساتھ مل کر پوری محبت و خلوص کے ساتھ فیصلہ جات کئے ہیں، جس انداز سے ہم نے الیکشن مہم چلائی اور میدان میں حاضر رہے، اس کی تعریف اپنے و پرائے سب کر رہے ہیں۔ جس کے کافی سارے اثرات نظر آئے ہیں۔ باقی ہم دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم نے 100 فیصد درست فیصلے کئے۔ بہرکیف بہتری کی گنجائش ہر جگہ پر موجود ہوتی ہے اور انشاءاللہ آئندہ بہتری لانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسری سیاسی پارٹیوں کی نسبت ہماری سیاسی غلطیوں کی سطح کم ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایم ڈبلیو ایم الیکشن نتائج سے مطمئن ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی:
الیکشن میں حکومت نے مختلف ہتھکنڈے اپنائے اور سیاسی کھیل کھیلے ہیں۔ جس میں پری پولنگ ریگنگ کے بھی شواہد مل رہے ہیں اور پھر عوام پر نفسیاتی حربے بھی آزمائے گئے ہیں۔ حکومتی وزراء کی آمد اور منفی سیاست کو متعارف کروانا بھی بنیادی ترین عنصر ہے، جبکہ پولنگ کا عمل بھی بہت سست رہا، جس کے نتیجے میں خواتین ووٹرز کی تعداد کم ووٹ کاسٹ کرسکی ہے، پھر نتائج میں تاخیر بھی کی گئی ہے اور ابھی تک حلقہ نمبر 4 کی دوبارہ گنتی نہیں کی جا رہی اور ہمارا مینڈیٹ چوری کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہار اور جیت الیکشن کا فطری نتیجہ ہوتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود ہم عوام کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور مطمئن ہیں کہ ہم نے میدان میں حاضر رہ کر اپنہ وظیفہ ادا کیا، ہم پھر بھی گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ اسی طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں اور انشاءاللہ کھڑے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان انتخابات میں مسلم لیگ نون کی کامیابی کیا اسباب ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی:
نون لیگ کے اس الیکشن میں کامیابی کے مختلف اسباب ہیں، جن کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اس الیکشن میں اپنی برتری قائم کی ہے، جن میں سے چند ایک طرف اشارہ کرتا ہوں۔
1۔ اس خطے کی عوام کی سابقہ روش یہ ہے کہ جس جماعت کی وفاقی حکومت ہوتی ہے، اسی جماعت کو زیادہ ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ جس میں سوچ یہ ہے کہ کیونکہ سارا بجٹ اور ترقیاتی منصوبے چونکہ وفاق کی طرف سے آنے ہوتے ہیں، لہذا وفاق کی مخالفت نہ کی جائے کیونکہ عوام کو وفاق سے امیدیں وابستہ ہوتی ہے۔ لیکن الحمداللہ ہم نے کسی حد تک اس سوچ کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
2۔ الیکشن کمپین کے دنوں میں بجٹ کا اعلان کیا گیا، جس میں یہاں کی عوام پر سبسڈی نہ دینے کے پہاڑ توڑے گئے اور یہ تاثر دیا گیا کہ اگر صوبے میں ہماری حکومت نہ آئی تو وفاق آپ لوگوں کو سبسڈی نہیں دے گا۔ پہلے عوام کو پریشان کیا گیا اور پھر نون لیگ کے امیدواروں نے ہر جگہ پر جا کر یہ کہا کہ ہمیں ووٹ دیں، ہم حکومت سے سبسڈی دلوائیں گے اور یہ امید دلوائی گئی کہ نون لیگ ہی ہے جو یہاں کے مسائل حل کرے گی۔
3۔ الیکشن کے دنوں میں نون لیگی وزراء کا آنا اور اپنے ساتھ مختلف پیکج لے کر آنا، جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فارمز کی ترسیل ہے۔ ان جیسے فلاحی پیکجز سے سوء استفادہ کیا گیا ہے۔ ماروی میمن نے خواتین میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم یہاں کی عوام کو مالی طور پر سپورٹ کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی ان وزراء نے کافی ہتکھنڈے اپنائے ہیں۔
4۔ چونکہ گلگت بلتستان میں تقریباً 70 فیصد آبادی شیعہ ہے، یہاں کے لوگ نظریاتی ہیں اور اپنی شناخت کو اہمیت دیتے ہیں، علماء کی قدر کرنے والے لوگ ہیں، لہذا نون لیگ نے اپنا پرانا سیاسی حربہ اپناتے ہوئے شیعہ ووٹ کو تقسیم کیا، ایک شیعہ پارٹی کو اپنی ایماء پر الیکشن میں لایا گیا اور اس پارٹی کے رہنماؤں نے مختلف حلقوں میں نون لیگ کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا  اور بعض حلقوں میں باقاعدہ طور پر انہوں نے نون لیگ کے لئے کمپین بھی چلائی۔ جس کا اعتراف مختلف چینل پر آنے والے سیاسی حضرات نے کھلم کھلا کیا۔ اس کے علاوہ ولی فقیہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا نام استعمال کیا گیا، جس میں رہبر کی حمایت کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی، جیسے نون لیگی امیدواروں نے اپنے اشتہارات پر رہبر معظم اور نواز شریف کی ملاقات کی تصاویر آویزاں کروائی ہیں۔ اس طرح مختلف سیاسی چالوں کے ذریعے شیعہ نظریاتی ووٹ کو تقسیم کیا گیا
5۔ نون لیگی امیدواروں اور وزراء نے الیکشن سے چند دن قبل رشوت کے طور پر عوام میں بہت پیسہ تقسیم کیا اور باقاعدہ طور پر قرآن پاک پر پیسے رکھ کر حلف لے کر دیئے گئے، تاکہ وہ لوگ انہیں ووٹ دیں۔ یہ چند بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر نون لیگ اتنی زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: آغا راحت حسین الحسینی کی الیکشن میں کی جانے والی کوششوں کا اثر کیا ہوا۔؟
علامہ شفقت شیرازی:
آغا راحت حسینی نے لوگوں کو قومی پلیٹ فارمز کے درمیان اتحاد و وحدت کی امید دلائی اور پوری ملت تشیع اس امید پر تھی کہ اس الیکشن سے قومی رہنماؤں کے درمیان اتحاد ہوگا، دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے انہیں مینڈیٹ بھی دے دیا تھا، لیکن آغا راحت اپنے اس حق تصرف کا صحیح استعمال نہیں کرسکے۔ اور ان کے جمعہ کے خطبات اور لمبی میٹنگز سے تشیع کو تو اتنا فاعدہ نہ ہوسکا جتنا نون لیگ کو ہوگیا۔

اسلام ٹائمز: علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقدسات کا نام لے کر سیاست کرنے والے دراصل بنو امیہ کی سیاست کر رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ شفقت شیرای:
انتہا پسندی اس زمانے کی سب سے بڑی مصیبت ہے اور علامہ سید جواد نقوی کی طرف سے پچھلے چند سال سے متشدد پالیسی جاری ہے۔ جو کہ شیعہ قوم کی مصلحت میں نہیں ہے، ان کی متشددانہ پالیسیوں سے اختلافات بڑھ گئے ہیں اور قوم میں اور زیادہ دوریاں ہوتی جارہی ہیں اور نظریاتی طبقہ تقسیم در تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دراصل جب بھی کوئی اپنے آپکو عقل کل سمجھنے لگ جائے تو اس وقت وہ کسی اور کے وجود کو برداشت نہیں کرتا۔ ان کو چاہیے کہ اگر اپنا احترام چاہتے ہیں تو دوسروں کا احترام کرنا سیکھیں۔ ورنہ وہ اپنی ساکھ اور عزت کھو بیٹھیں گے۔ اگر علامہ صاحب کے پاس الیکشن کے حوالے سے کوئی اچھی حکمت عملی تھی تو اس موقع پر انہوں نے اس کو عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا؟ اور وہ قوم کو نئی روش سے آگاہ کرتے صرف گفتار کے غازی نہ بنیں۔ اب کیا ہم ان کے کہنے پر شیعہ اکثریتی علاقوں میں قوم کو اقتدار پرست حکمرانوں اور تکفیریوں کے حوالے کر دیں اور اس علاقے کے تعلیم یافتہ اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے نئے سیاسی لیڈرز کو سپورٹ نہ کریں؟ بہرحال قوم سے جو لوگ مخلص ہیں، قوم انہیں جانتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 466020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
نون لیگ نے اپنا پرانا سیاسی حربہ اپناتے ہوئے شیعہ ووٹ کو تقسیم کیا، ایک شیعہ پارٹی کو اپنی ایماء پر الیکشن میں لایا گیا اور اس پارٹی کے رہنماؤں نے مختلف حلقوں میں نون لیگ کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا اور بعض حلقوں میں باقاعدہ طور پر انہوں نے نون لیگ کے لئے کمپین بھی چلائی۔ جس کا اعتراف مختلف چینل پر آنے والے سیاسی حضرات نے کھلم کھلا کیا۔
ہماری پیشکش