0
Thursday 19 Nov 2015 21:14

گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے کو مسلکی رنگ دیکر نقصان پہنچانا جرم ہے، مولانا محمود اسماعیل

گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے کو مسلکی رنگ دیکر نقصان پہنچانا جرم ہے، مولانا محمود اسماعیل
مولانا محمود بن اسماعیل کا تعلق بلتستان کے ضلع گنگچھے کے علاقہ غواڑی سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گنگچھے سے حاصل کی، درس نظامی کی تکمیل بلتستان سے کرنے کے بعد کراچی سے فاضل عربی کی سند حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے درس نظامی کے بعد وفاق المدارس سے اسلامیات اور عربیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سولہ سالوں سے تدریس سے منسلک ہیں۔ اسکردو میں مرکز اہلحدیث میں بھی خطیب کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ اسکردو شہر میں امام جمعہ بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان کی سیاسی و مذہبی صورتحال پر ان سے ایک انٹر ویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں کیا رکاوٹ حائل ہے اور حال ہی میں وزیراعلٰی جی بی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اہلسنت برادری کشمیر کے ساتھ الحاق چاہتی ہے جبکہ شیعہ آئینی صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ اس بیان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
آئینی حقوق کی یہ جنگ بہت پرانی ہے، مگر اب تک یہ مسئلہ لاینحل مسئلہ بن چکا ہے۔ شاید اس کے پس پردہ کچھ ایسی لابی کا ہاتھ ہے جو گلگت بلتستان کی ترقی نہیں چاہتی حالانکہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو جی بی کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں اور پاکستان سے الحاق غیر مشروط طور پر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قوم محب وطن ہی نہیں بلکہ پاکستان کے محسن اور ضرورت پڑنے پر تن، من، دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ حفیظ الرحمان کی بات ہو یا کسی اور کی، اب چونکہ گلگت بلتستان کو ایک آئینی حیثیت تو دی گئی ہے، لیکن آئینی حقوق اب بھی تشنہ ہیں۔ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کو مسلکی نگاہ سے دیکھنا افسوسناک، سمجھ سے بالاتر اور جرم ہے۔ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق وقت کی ضرورت ہیں، اس موضوع پر مذہبی منافرت اور مذہبی اختلافات خطے کے لئے نقصان دہ عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں فرقہ واریت پر کس حد تک قابو پایا گیا ہے اور یہاں فرقہ واریت کی وجوہات کیا تھیں۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
پاکستان کے دیگر خطوں اور دیگر شہروں کی نسبت بلتستان کا ماحول انتہائی بہتر ہے اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کم از کم ہم ایک دوسرے پر کفر کے فتوئے عائد نہیں کرتے، بلتستان کی حد تک تمام فرقوں سے منسلک افراد ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہیں اور تکفیر نہیں کرتے۔ ماضی میں کچھ افسوسناک واقعات وقوع پذیر ہوئے، تاہم الحمداللہ وہ بااحسن طریقے سے رفع دفع ہو کر سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے، اس بھائی چارگی کو دوام دینے کی ضرورت ہے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو پھیلانے والے کچھ ہی افراد ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر یہ ناپاک کام کرتے ہیں، جو تمام فرقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے ملک دشمن لوگ ہیں، جو پاکستان دشمن لوگوں کی ایماء پر کام کرتے ہیں، تاہم الحمداللہ اب گلگت بلتستان کے عوام نے ہوش کے ناخن لئے ہیں اور ایسے ملک دشمن حربوں کے سدباب کے لئے مزید ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لئے ہر سطح پر بھائی چارگی کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہر فرقے کے لوگ رشتوں میں، معاشی اور تعلیمی معاملات میں اسی طرح دیگر زندگی کے شعبوں میں منسلک ہو جائیں تو باہمی احترام کیساتھ ساتھ بھائی چارگی میں بھی اضافہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: بعض جماعتوں کا کہنا ہے کہ جی بی میں قومی ایکشن پلان سیاسی انتقام کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، آپ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
جن مقاصد کے حصول کے لئے قومی ایکشن پلان کو مرتب کیا گیا ہے، بخیر و خوبی اس پر عمل ہونا چاہیئے۔ قومی ایکشن پلان کی آڑ میں سیاسی انتقام انتہائی غیر اخلاقی کام ہوگا۔ اس پلان کے تحت ریاست کے مجرموں کو اس کے جرم کے حساب سے سزا ملنی چاہیئے۔ قومی ایکشن پلان کسی جماعت کے خلاف یا کسی کے حق میں استعمال ہونا ریاست کے لئے خطرہ ہے، ہاں مجرموں کو اس کے ذریعے درست شناخت کیساتھ سزا ضرور ملنی چاہیئے، جسکی تائید ہر کوئی کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر ہمیشہ تعطل کا شکار ہو جاتی ہے، بالخصوص موجودہ سیاسی جماعت بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے، آپ اس مسئلے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
گلگت اسکردو روڈ یہاں کے باشندوں کا بنیادی حق ہے۔ اس سے نہ صرف سفری سہولیات سے یہاں کے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے بلکہ بیرون بلتستان اور بیرون پاکستان سے سیاح بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اسکے علاوہ حساس اور دفاعی اہمیت کے حامل خطہ بلتستان کی ترقی و سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ روڈ تعمیر ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ اسی روڈ کے ذریعے لوگ ایک طرف دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو تک پہنچ جاتے ہیں اور دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن تک بھی رسائی اسی روڈ کے ذریعے ہوتی ہے۔ لائن آف کنٹرول تک بھی اسی سڑک کے ذریعے جایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ہر صورت حل طلب مسئلہ ہے، جسے سیاسی یا مذہبی ایشو بنا کر رکاوٹ ڈالنے والے اہل علاقہ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے اور اہل علاقہ کے حقوق کو غصب کرنے والے غاصب اللہ کے ہاں کبھی بھی معافی کے حقدار نہیں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: آپکے نزدیک گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور اسکا حل کیا ہے۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
یوں تو گلگت بلتستان کو مسائل نے ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے، مثلاً تعلیمی مسائل، رسل و رسائل کے مسائل، سفری سہولتوں کا فقدان، طبی سہولتوں کا نہ ہونا، یہ وہ مسائل ہیں جن کو آج تک حل کرنے کے لئے کسی بھی سطح پر سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔ میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے۔ اگر اتحاد و اتفاق سے آگے بڑھیں تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، اب تک ہمارے مسائل اتحاد کیساتھ آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے حل نہیں ہوسکے۔ چنانچہ آپکے توسط سے میں علماء، خطباء، واعظین اور اہل حل و عقد کو تلقین کرتا ہوں کہ اس کی طرف زیادہ توجہ دی جائے، اسی میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: 68 سالوں سے جی بی کے آئینی حقوق سے محروم رہنے کا سبب کیا اور اسکا اصل مجرم کون ہے۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
68 سالوں سے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے محرومی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دور رس فائدے کی طرف نظر نہیں کی۔ صرف وقتی مفاد اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر ایسے نمائندوں کو ہم نے ووٹ دیا، جو ہمیں طفل تسلیاں دیتے تھے اور وہ بڑے آرام سے اپنا شکم بھرتے رہے۔ ماضی میں کچھ ایسے لیڈر بھی عوامی خدمت کے لئے میدان عمل میں کود پڑے، جو اپنے خطے کے مفاد اور عوامی حقوق کے لئے بول بھی نہیں سکتے تھے۔ ان نااہل حکمرانوں اور نمائندوں کی وجہ سے وقت گزرتا گیا، مسائل بڑھتے گئے، لیکن حل کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ مزید یہ کہ میرے خیال کے مطابق آئینی حقوق نہ ملنے کی وجوہات ہماری بدقسمتی کے ساتھ ساتھ نااہل حکمران، مذہبی و سیاسی خلفشار سب سے اہم ہیں اور یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ ہم غیروں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ جی بی کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
مولانا محمود اسماعیل:
میں آپکے توسط سے گلگت بلتستان کے غیور اور معزز عوام سے یہی درخواست کرونگا کہ جو بھی مذہبی منافرت پھیلاتا ہو، خواہ وہ عالم دین ہو یا سیاسی نمائندہ، سرکردہ ہو یا کوئی اور، وہ ایسے لوگ کسی صورت ہمارے حقوق کے پاسبان نہیں ہوسکتے، کیونکہ اس وقت ہمیں ملکی حالات کے تناظر میں اتفاق و اتحاد کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، تاکہ ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں مل جائیں، ساتھ ہی ہمیں اپنا جائز حق درست طریقے سے مل جائے۔
خبر کا کوڈ : 498969
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش