0
Monday 30 Nov 2015 20:41

پاراچنار میں ہونیوالے دہشتگردانہ تمام حملوں کی مذمت کرتے ہیں، منیر حسین جعفری

پاراچنار میں ہونیوالے دہشتگردانہ تمام حملوں کی مذمت کرتے ہیں، منیر حسین جعفری

مولانا منیر حسین جعفری نے شہید علامہ سید عارف حسین  الحسینی اور علامہ سید عابد حسین الحسینی سے کسب فیض کرتے ہوئے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں حاصل کی جبکہ اعلٰی دینی تعلیم کے لئے قم چلے گئے، قم میں کئی سال گزارنے کے بعد وطن لوٹ کر اپنا زیادہ تر وقت قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ ابتداء ہی سے تحریک حسینی میں فعال رہنما کی حیثیت سے کام کرتے رہے، بالآخر 2012ء میں تحریک کے صدر منتخب ہوئے اور پھر 2014ء میں دوبارہ صدر منتخب کر لئے گئے اور تاحال تحریک حسینی کے صدر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاراچنار کی موجودہ صورتحال پر انکے ساتھ ایک نشست کی، جسکی تفصیل ذیل میں ایک گفتگو کی شکل میں دی جا رہی ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گذشتہ رات کو شلوزان تنگی سے علی شاری پر فائر کئے جانے والے میزائل کے حوالے سے ذرا آگاہ  فرمائیں۔
منیر آغا:
گذشتہ رات یعنی اتوار اور پیر کی درمیانی شب تقریبا بارہ بجے شلوزان تنگی (جہاں تازہ تازہ اہل سنت منگل اقوام کو بسایا جا چکا ہے) سے ایک میزائل فائر کیا گیا۔ جو شیعہ نشین علاقے علی شاری کی آبادی سے کچھ ہی فاصلے پر گرا۔ جس سے علاقے میں زبردست خوف و ہراس پھیل گیا۔ علاقائی افراد کے مطابق جس جگہ میزائل گرا ہے وہاں ایک گہرا گڑھا پیدا ہوا ہے۔ تاہم خدا کے فضل و کرم سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہم اس واقعے اور اس جیسے دیگر تمام واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں جن کی وجہ سے کرم ایجنسی کا پرامن ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔  

اسلام ٹائمز: جس علاقے سے میزائل فائر کیا گیا، وہاں سرکاری اہلکار موجود نہیں؟ یعنی کیا یہ علاقہ غیر محفوظ ہے؟
منیر آغا:
نہیں علاقے میں کرم ملیشیا اور مقامی لیوی فورس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ جنہیں نئے آبادکاروں کے تحفظ کے لئے تعینات کیا گیا ہے لیکن اسکے باوجود اس علاقے سے اہلیان شلوزان و علی شاری پر حملہ کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں کچھ عرصہ سے ایسے واقعات پے درپے ہوتے رہے ہیں، ان واقعات کے پس پردہ کیا محرکات اور عزائم ہو سکتے ہیں؟
منیر آغا:
ہاں کچھ عرصہ سے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ دو تین روز پہلے ایک افغان گاڑی کو پیواڑ کے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ اسکے بعد ایک اخباری اطلاع کے مطابق افغان سرحد جانے والے ایک کنٹینر کو بگن کے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ اسکے علاوہ شاید محرم سے کچھ دن قبل پاڑہ چمکنی کے علاقے سے ایک میزائل صدہ پر فائر کیا گیا۔ انہی ایام میں داعش کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلیٹ تقسیم کئے گئے۔ اب میرا خیال ہے کہ کرم ایجنسی کے امن کو داعش کے فرضی نام سے تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یا پھر داعش یا ان جیسے دوسرے دہشتگرد حقیقتاً علاقے میں موجود ہیں۔ چنانچہ یا تو کرم کے امن کو خراب کیا جارہا ہے۔ یا پھر کوئی اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کرم ایجنسی کا علاقہ اس وقت ایک ٹریڈ روٹ کی شکل اختیار کررہا ہے۔ جس سے علاقے کی اقتصادی ترقی یقینی ہے۔ میرے خیال کے مطابق کچھ عناصر کرم ایجنسی کے عوام کی ترقی کے مخالف ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ کرم ایجنسی کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ چنانچہ ایک گروپ یا کوئی ادارہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ کرم ایجنسی میں دراصل امن نہیں۔ لہذٰا یہاں سے پاک افغان تجارت بند کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: اب تک جو کارروائیاں ہوئی ہیں، ان پر حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیا ہے؟ یا خاموشی سے تماشا کیا جارہا ہے؟
منیر آغا:
بگن کے متعلق تو کوئی اطلاع نہیں، جبکہ پیواڑ جو کہ طوری قبائل کا علاقہ ہے، گاڑی پر فائرنگ کے ردعمل میں گرفتاریاں کی جا چکی ہیں اور مزید بھی ہورہی ہیں، بلکہ حکومت نے مزید سو افراد کو تحویل میں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیواڑ قوم کا اس حوالے سے کل ایک جرگہ ہوا اور انہوں نے حکومت سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دھانی کرائی۔ تاہم حکومت نے کھوجی کتوں کا استعمال کیا۔ جو پیواڑ کے علاقے شرمخیل کے ایک گھر میں گھس گئے۔ وہاں خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا گیا، جبکہ کل علی شاری کے واقعے پر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا ہے اور اگر حکومت کی جانب سے اس پر ردعمل سامنے نہ آیا تو حکومت کی جانبداری بالکل واضح ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے، بالش خیل کے حوالے سے آپ کو دوبارہ پیشکش ہوئی تھی؟ اگر یہ سچ ہے تو آپکا رد عمل کیا ہوگا؟
منیر آغا:
ہاں یہ درست ہے۔ ہمارے کونسل ممبران نے جاکر بالش خیل سے مذاکرات کئے اور انہیں واضح پیغام دیا کہ ہم صرف اس صورت میں تمہارے مسئلے کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں، کہ آپ اس حوالے سے ہمیں اختیار کلی دیں۔ اور جب ہم مسئلہ کو اعلٰی سطح پر اٹھائیں اور پھر جب مسئلہ ایک حل کی جانب چلے تو پھر تم لوگوں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ معاملہ ہم سے لیکر درمیان میں کسی اور کو اپنا وکیل بنائیں۔ تاہم انہوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے لئے تین چار دن کی مہلت طلب کی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ لوگ تو بلا تفریق قومی مسائل حل کرنے کا ڈھنڈورا ہر وقت پیٹتے رہے ہیں۔ آپ نے ایسی کڑی شرط کیوں عائد کی؟
منیر آغا:
ہاں بالکل آج تک ہم نے کسی سے بھی انکے مسائل کی بابت، انکے مسائل کو حکومت کے پاس لے جانے کے حوالے سے کوئی شرط نہیں رکھی ہے بلکہ بلا کسی شرط کے ہر ایک کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن بالشخیل نے اپنا مسئلہ کئی بار ہمارے پاس لایا۔ ہم نے ہر طرح کا تعاون فراہم کیا لیکن جب بھی مسئلے کا کوئی حل ممکن نظر آیا تو انہوں نے بلا کسی وجہ کے معاملہ ہم سے لیکر کسی اور کو اپنا اختیار دیا۔ 
2010ء میں ہم نے سمیر میں ڈھیرے ڈال کر اس مسئلے پر 60 لاکھ روپے خرچ کئے۔ لیکن جب اس وقت کے پی اے محمد بصیر نے کتبی صورت میں (In written) ہمارے ساتھ وعدہ کیا اور اس پر فوری عمل بھی شروع کیا اور تجاوزکاروں  کی آبادیوں کو مسمار کرنا شروع کیا۔ یعنی جب معاملہ حل کی جانب چل پڑا تو بالش خیل کے مشران نے آکر ہم سے مطالبہ کیا کہ مہربانی کرکے ہمارے معاملے کو ہم پر چھوڑ دیں۔ ہم نے بلا کسی چوں و چرا کے معاملے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پھر ایک سال تک جب معاملے کا کوئی حل نکل نہ آیا تو دوبارہ یہ لوگ ہمارے پاس آگئے، ہم نے دوبارہ آمادگی ظاہر کی لیکن جب معاملہ کو ہم نے اجاگر کیا اور حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ تو ان لوگوں نے دوبارہ آکر معذرت کرلی اور ہم سے یہ معاملہ لے کر کسی اور کے پاس لے گئے۔ اسکے ایک سال بعد پھر ہمیں کہا گیا۔ ہم نے پھر بھی برا نہ مانا۔ چنانچہ تقریبا چھ مرتبہ یہ معاملہ ہمارے سپرد جبکہ اتنی ہی مرتبہ ہم سے واپس لیا جا چکا ہے، اب کی بار ہماری کونسل نے یہی شرط رکھی ہے جوکہ میرے خیال میں  مناسب ہے۔

اسلام ٹائمز: پاراچنار میں اربعین کی مجالس اور انکی سکیورٹی کی کیا صورتحال ہے؟
منیر آغا:
آج کے دن تک کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ آج رات سے مجالس کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ شاید رات کو سکیورٹی سخت ہوجائے۔ سکیورٹی کے حوالے سے ایک بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ آج کل حالات کچھ اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ محرم کی نسبت اربعین میں حالات کچھ نازک دکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ حکومت کو اس حوالے سے خاص توجہ دینی ہوگی۔ جبکہ ہم نے علمائے کرام سے بھی رابطہ کیا ہے کہ وہ اپنی مجالس میں کرم کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال کریں۔ کیونکہ آج کل حکومت کے تیور طوری قبائل کے لئے ٹھیک دکھائی نہیں دے رہے۔ طوری علاقے پر جارحیت ہوتی ہے تو اس پر کوئی خاص ردعمل نہیں ہوتا جبکہ دوسرے قبائل کے علاقوں میں خود انہی کے علاقوں کی جانب سے بھی کوئی کارروائی ہو جاتی ہے۔ تو اس پر حکومت پوری قوت سے حرکت میں آ جاتی ہے۔ چنانچہ ہم نے علمائے کرام سے گزارش کی ہے کہ اربعین کے دوران اپنی مجالس میں اس طرح کی ناانصافیوں پر حکومت کے ارادوں نیز دشمن کی گھناونی سازشوں سے عوام کو آگاہ کردیں۔

خبر کا کوڈ : 501551
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش