0
Saturday 23 Jan 2016 20:30
گوادر سے حاصل ہونیوالے منافع میں بلوچستان کا حصہ نہیں بتایا جا رہا

وفاقی حکومت خود اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بنا رہی ہے، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی

بلوچستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری ممکن نہیں
وفاقی حکومت خود اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بنا رہی ہے، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی
ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سینیٹر اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ 22 فروری 1953ء کو بلوچستان کے شہر نوشکی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم نوشکی سے اور ماسٹرز کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بعدازاں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ آپ گذشتہ 22 سالوں سے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مارچ 2015ء میں بی این پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کی نشست جیتنے میں کامیاب رہے۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی سے پاک چین اقتصادی راہداری اور بلوچستان کے دیگر سیاسی معاملات کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بلوچستان نیشنل پارٹی کے کیا تحفظات ہیں۔؟
جہانزیب جمالدینی:
سب سے پہلے تو ہماری جماعت اس بات کی وضاحت ہمیشہ سے کرتی آئی ہے اور آج آپکے توسط سے بھی میں پوری پاکستانی عوام کو یہ بتانا چاہتا ہوں، کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ملک کے کسی بھی حصے میں ترقیاتی عمل کے مخالف نہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری یقیناً بلوچستان سمیت پورے ملک کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگی، جب پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ بنیادی طور پر اقتصادی راہداری سمیت دیگر تمام منصوبوں‌ کے حوالے سے چند تحفظات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو گوادر پورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہے کیونکہ اس وقت مذکورہ بندرگاہ کے تمام تر اختیارات خود وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ جبکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ گوادر پورٹ سمیت صوبے کے تمام ترقیاتی پروجیکٹس کے اختیارات صوبائی حکومت کو دیئے جائیں۔ دوسرا بڑا تحفظ گوادر کی آبادی کے حوالے سے ہے، کیونکہ اقتصادی اہمیت کے حامل اتنے بڑے منصوبے کے افتتاح کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ملک کے دیگر حصوں سے لوگ آئینگے، جس سے خود گوادر کی مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہوگی۔ مئی 2015ء میں ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں، میں نے وزیراعظم کے سامنے اپنے یہی تحفظات رکھے۔ جس پر انہوں نے میرے یا میری جماعت کے خدشات کو دور کرنے کا وعدہ کیا لیکن بدقسمتی سے وہ اس عمل میں ناکام رہے۔ جسکے ردعمل میں ہم نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروائی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ڈیموگرافک تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی ہو۔ اسکے علاوہ بھی گوادر پورٹ کے حوالے سے ہمارے خدشات ہیں، جسے ہم چاہتے ہیں کہ ایک آئینی کمیٹی بنائی جائے تاکہ تمام عوامل کی قانونی طریقہ کار سے وضاحت کی جاسکے۔ اب یہاں پر بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ اگر گوادر پورٹ کو صوبائی حکومت کے حوالے کیا جائے تو اسکے بعد کراچی کو بھی صوبائی حکومت کے ماتحت کرنا ہوگا۔ اب ہم اسکے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ آپ صوبائی حکومتوں کیساتھ ملکر ایک ریوینو سسٹم متعارف کروا سکتے ہیں۔ جس میں وفاق سمیت تمام اکائیوں کے حقوق کا خیال رکھا جا سکے۔ اسکے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس روٹ پر آپ اقتصادی زونز بنا رہے ہیں۔ اب بلوچستان میں اس حوالے سے توانائی کے منصوبے میں صرف تین سو میگاواٹ بجلی رکھی گئی ہے۔ وہ بھی گوادر میں پیدا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں‌ بلوچستان کو واضح اختیارات دیئے گئے تھے لیکن صوبائی حکومتیں کئی سال گزرنے کے باوجود گوادر کی عوام کو تعلیم یافتہ کرنے اور انکے بنیادی مسائل کو دور کرنے میں‌ کیوں ناکام رہی۔؟
جہانزیب جمالدینی:
ہماری جماعت کے اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بھی تحفظات ہے۔ اس حوالے سے ہماری جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اٹھارویں ترمیم صوبائی خودمختاری کیجانب ایک مثبت قدم ضرور ہے، تاہم یہ مکمل طور پر ہمارے مسائل کا احاطہ نہیں کرتی، کیونکہ صوبے میں‌ جاری مختلف ترقیاتی پروجیکٹز کے ریوینیو سے بلوچستان کو انتہائی کم حصہ ملتا ہے۔ جبکہ اس سے زیادہ تر فائدہ وفاق خود لیتی ہے۔ اتنے بڑے منصوبے کی افتتاح سے قبل انجینئیرنگ کے شعبے میں کام کیا جاتا ہے۔ تاکہ مقامی آبادی کو اس حوالے سے تربیت دی جاسکے۔ اب دیگر صوبوں کے قابل افراد جب وہاں پر آئینگے، تو خود گوادر کے لوگ تو دوبارہ محروم رہ جائینگے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں بلوچستان کیلئے چھے فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے صوبے کے عوام کو بھی انصاف سے نہیں ملتا۔ بحیثیت سینیٹر میں صبح سے لیکر شام تک اسی حوالے سے آواز بلند کرتا ہوں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ گوادر میں سب سے پہلے ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ وہاں کی مقامی آبادی کو مستقبل کیلئے تربیت دی جاسکے۔ تاکہ یہی لوگ گوادر کو سنبھالیں۔

اسلام ٹائمز: گوادر سے آپ کی جماعت کے ہی ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوئے لیکن اڑھائی سال گزرنے کے باوجود وہ کوئی خاطر خواہ کام کرنے میں کیوں ناکام رہے۔؟
جہانزیب جمالدینی:
رونا تو اسی بات کا ہے کہ ہماری جماعت کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو خاطر میں لایا ہی نہیں جاتا۔ جب گوادر کے حوالے سے پاکستان کی قیادت چین جاتی ہے تو اسی علاقے کے ایم پی اے کو لیکر جایا ہی نہیں جاتا۔ گوادر کے میونسپل کمیٹی کے چئیرمین کو اعلٰی سطحی اجلاسوں میں‌ شرکت کی اجازت ہوتی ہے، لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی یا قومی اسمبلی کو بالکل اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: لیکن اب وزیراعظم نواز شریف تو اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ 7.46 ارب ڈالر صوبہ بلوچستان میں‌ خرچ کئے جائینگے۔ اگر اسکے بعد بھی کوئی چھوٹے موٹے معاملات ہیں، تو کیا اسے باہمی مشاورت سے حل نہیں‌ کرنا چاہیئے۔؟ بجائے اسکے کہ احتجاج کیا جائے۔؟
جہانزیب جمالدینی:
یہاں پر ایک چیز کی وضاحت کی گئی ہے کہ مجموعی طور پر 46 ارب ڈالر کے اس منصوبے میں سے 35 ارب ڈالر صرف توانائی کے منصوبوں کیلئے رکھے گئے ہیں۔ جس میں 11 ارب ڈالر باقی منصوبوں کیلئے بچتے ہیں۔ اس میں کتنا فیصد بلوچستان کیلئے ہے، یہ اصل میں ضروری بات ہے۔ انڈسٹریل زونز کی تعمیر کیلئے آپکو بجلی کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ بجلی کا صرف ایک منصوبہ گوادر میں‌ لگایا جارہا ہے، جو خود گوادر کے استعمال کیلئے ہوگا۔ اب باقی اقتصادی زونز کو بجلی کیسے فراہم کی جائے گی۔؟ بہاولپور اور ساہیوال کے درمیان ایک بجلی گھر تعمیر ہوگی، جہاں 9000 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ پاکستان کے اس وقت گیارہ ایسے ادارے ہیں، جہاں ایک بھی ملازم بلوچستان کا نہیں ہے۔ جبکہ میرے صوبے کے کوٹے پر پنجاب اور دیگر صوبے کے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل بنوا کر بھرتی کیا جاتا ہے۔ موجودہ وقت میں ایک بھی وفاقی سیکرٹری کا تعلق بلوچستان سے نہیں۔ لہذٰا وسائل کو لوٹنے کیلئے آپ ہمیشہ سے تیار رہے ہیں، لیکن خود بلوچستان کو اسکا کوئی حصہ بھی دینے کیلئے راضی نہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں پر اقتصادی منصوبے کو متنازعہ بنانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جبکہ درحقیقت خود وفاقی حکومت اس راہداری کی تفصیلات کو چھپا کر متنازعہ بنا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں مردم شماری کیخلاف آپکی جماعت کیوں برسرپیکار رہی ہیں۔؟
جہانزیب جمالدینی:
نادرا کی حالیہ پیش کی جانے والی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ 60 فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز کا اجراء اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی اور مخدوش صوبائی صورتحال میں مردم شماری بلوچوں کے خلاف گھناؤنی اور منظم سازش ہوگی۔ مرکزی حکومت حالات کا ادراک کرتے ہوئے درج بالا مسائل کو حل کرنے کے بعد مردم شماری کروائے۔ بلوچستان کی سابقہ دور حکومت میں افغان مہاجرین سے متعلق ایک واضح پالیسی نہیں اپنائی گئی جبکہ وفاقی اور دیگر تین صوبوں میں افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے وطن بھیجنے کے حوالے سے واضح پالیسی ہے لیکن بلوچوں میں گروہی اور ذاتی مفادات کی خاطر غیر ملکی کو بلوچستان کی آبادی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ساڑھے پانچ لاکھ مہاجرین بلوچوں کیلئے نہیں، بلکہ بلوچستانیوں خصوصاً پشتونوں کیلئے مسائل پیدا کریں گے۔ انہی مہاجرین کی وجہ سے مذہبی جنونیت، انتہاء پسندی اور فرقہ واریت جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

ہم حکمرانوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں مکران ڈویژن، کوہلو، آواران، ڈیرہ بگٹی، جھالاوان، بارکھان اور نصیر آباد سمیت دیگر بلوچ علاقوں سے بیشتر لوگ بلوچستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے اپنے علاقوں سے دوسرے علاقوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ سابق آمر جنرل مشرف کے دور کی ظلم و زیادتیوں کی بدولت حالات بدتر ہوئے اور ساڑھے پانچ لاکھ غیر ملکی مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے نہ ہی یہ قانونی تصور ہونگے۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین اور اس حالت میں مردم شماری کا مقصد بلوچوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں بدلنا ہے۔ غیر ملکی مہاجرین کسی بھی قوم، نسل، زبان، فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں فوری طور پر واپس بھیجا جائے۔ بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیر مردم شماری نہ کرائی جائے۔ کیونکہ مردم شماری کا عملہ آپریشن زدہ علاقوں تک رسائی نہیں کر سکے گا تو مردم شماری کیسے ہوگی۔؟
خبر کا کوڈ : 514630
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش